مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ وصیتوں کا بیان ۔ حدیث 298

کسی دوسرے کے حق میں وصیت کرکے اپنے ورثاء کا نقصان نہ پہنچاؤ

راوی:

وعن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " إن الرجل ليعمل والمرأة بطاعة الله ستين سنة ثم يحضرهما الموت فيضاران في الوصية فتجب لهما النار " ثم قرأ أبو هريرة ( من بعد وصية يوصى بها أو دين غير مضار )
إلى قوله ( وذلك الفوز العظيم )
رواه أحمد والترمذي وأبو داود وابن ماجه

اور حضرت ابوہریرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مرد اور عورت ساٹھ برس تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں مگر جب ان کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وصیت کے ذریعہ وارثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں لہذا ان کے لئے دوزخ ضروری ہو جاتی ہے، اس کے بعد حضرت ابوہریرہ نے یہ آیت کریمہ پڑھی ( وَصِيَّةٍ يُّوْصٰى بِھَا اَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَا رٍّ ) 4۔ النساء : 12) (یعنی ورثاء اپنے حصے کی وصیت پوری کرنے کے بعد جس کی وصیت کی جائے یا دین کے بعد بشرطیکہ وصیت کرنیوالا کسی کو ضرر نہ پہنچائے،۔
حضرت ابوہریرہ نے یہ آیت ارشاد ربانی ( ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ) 9۔ التوبہ : 89) (اور یہ بڑی کامیابی ہے ) تک تلاوت کی ہے (ترمذی ابوداؤد، ابن ماجہ)

تشریح :
یہ حدیث حقوق العباد کی اہمیت ظاہر کرتی ہے کہ جو لوگ اپنی ساری زندگی عبادت الٰہی میں گزار دیتے ہیں مگر حقوق العباد کو نقصان پہنچانے سے اجتناب نہیں کرتے وہ اپنی تمام عبادتوں کے باوجود اللہ کی ناراضگی کا مورد بن جاتے ہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ خواہ وہ مرد ہوں یا عورت ساٹھ سال تک عبادت کرتے ہیں مگر اپنی زندگی کے آخری لمحات میں یہ وبال اپنے سر لے لیتے ہیں کہ وہ اپنے مال میں تہائی سے زیادہ کی وصیت کسی غیر شخص کے حق میں کر جاتے ہیں یا اپنا سارا مال کسی ایک وارث کو ہبہ کر دیتے تاکہ دوسرے وارثوں کو کچھ نہ ملے اور اس طرح وہ اپنے وارثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں تو وہ اتنے طویل عرصہ کی اپنی عبادتوں کے باوجود اپنے آپ کو دوزخ کے عذاب کا سزا وار بنا لیتے ہیں کیونکہ اپنے وارثوں کو نقصان پہنچانا حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی کی وجہ سے غیر مناسب وناجائز ہی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے روگردانی اور اس کی مقررہ ہدایات سے تجاوز بھی ہے۔ حضرت ابوہریرہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بیان کرنے کے بعد بطور تائید مذکورہ بالا آیت کریمہ پڑھی کیونکہ اس آیت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مورث کو چاہئے کہ وہ اپنے مال کے تہائی حصہ سے زائد کے بارے میں وصیت کر کے اپنے وارثوں کو نقصان نہ پہنچائے۔

یہ حدیث شیئر کریں