مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ نکاح کا بیان ۔ حدیث 302

نکاح کا بیان

راوی:

نکاح کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا لیکن اس لفظ کا اطلاق مجامعت کرنے اور عقد کے معنی پر بھی ہوتا ہے کیونکہ مجامعت اور عقد دونوں ہی میں جمع ہونا اور ملنا پایا جاتا ہے لہذا اصول فقہ میں نکاح کے یہی معنی یعنی جمع ہونا بمعنی مجامعت کرنا مراد لینا چاہئے بشرطیکہ ایسا کوئی قرینہ نہ ہو جو اس معنی کے خلاف دلالت کرتا ہو۔
علماء فقہ کی اصطلاح میں نکاح اس خاص عقد و معاہدہ کو کہتے ہیں جو مرد وعورت کے درمیان ہوتا ہے اور جس سے دونوں کے درمیان زوجیت کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے
نکاح کی اہمیت
نکاح یعنی شادی صرف دو افراد کا ایک سماجی بندھن، ایک شخصی ضرورت، ایک طبعی خواہش اور صرف ایک ذاتی معاملہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ معاشرہ انسانی کے وجود وبقاء کا ایک بنیادی ستون بھی ہے اور شرعی نقطہ نظر سے ایک خاص اہمیت و فضیلت کا حامل بھی ہے۔ نکاح کی اہمیت اور اس کی بنیادی ضرورت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم ) تک کوئی ایسی شریعت نہیں گزری ہے جو نکاح سے خالی رہی ہو اسی لئے علماء لکھتے ہیں کہ ایسی کوئی عبادت نہیں ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک مشروع ہو اور جنت میں بھی باقی رہے سوائے نکاح اور ایمان کے چنانچہ ہر شریعت میں مرد وعورت کا اجتماع ایک خاص معاہدہ کے تحت مشروع رہا ہے اور بغیر اس معاہدہ کے مرد وعورت کا باہمی اجتماع کسی بھی شریعت ومذہب نے جائز قرار نہیں دیا ہے ، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس معاہدہ کی صورتیں مختلف رہی ہیں اور اس کے شرائط و احکام میں تغیر و تبدل ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں اسلام نے جو شرائط مقرر کی ہیں جو احکام نافذ کئے ہیں اور جو قواعد و ضوابط وضع کئے ہیں اس باب سے ان کی ابتداء ہو رہی ہے۔
نکاح کے فوائد وآفات
نکاح کا جہاں سب سے بڑا عمومی فائدہ نسل انسانی کا بقاء اور باہم توالد وتناسل کا جاری رہنا ہے وہیں اس میں کچھ مخصوص فائدے اور بھی ہیں جن کو پانچ نمبروں میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔
-1 نکاح کر لینے سے ہیجان کم ہو جاتا ہے یہ جنسی ہیجان انسان کی اخلاقی زندگی کا ایک ہلاکت خیز مرحلہ ہوتا ہے جو اپنے سکون کی خاطر مذہب واخلاق ہی کی نہیں شرافت و انسانیت کی بھی ساری پابندیاں توڑ ڈالنے سے گریز نہیں کرتا ، مگر جب اس کو جائز ذرائع سے سکون مل جاتا ہے تو پھر یہ پابند اعتدال ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جائز ذریعہ صرف نکاح ہی ہو سکتا ہے۔
-2 نکاح کرنے سے اپنا گھر بستا ہے خانہ داری کا آرام ملتا ہے گھریلو زندگی میں سکون واطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے اور گھریلو زندگی کے اس اطمینان و سکون کے ذریعہ حیات انسانی کو فکر و عمل کے ہر موڑ پر سہارا ملتا ہے۔
-3 نکاح کے ذریعہ سے کنبہ بڑھتا ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو مضبوط و زبردست محسوس کرتا ہے اور معاشرہ میں اپنے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے اپنا رعب داب قائم رکھتا ہے۔
-4 نکاح کرنے سے نفس مجاہدہ کا عادی ہوتا ہے کیونکہ گھر بار اور اہل وعیال کی خبر گیری و نگہداشت اور ان کی پرورش و پرداخت کے سلسلہ میں جدوجہد کرنا پڑتی ہے اس مسلسل جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان بے عملی اور لا پرواہی کی زندگی سے دور رہتا ہے جو اس کے لئے دنیاوی طور پر بھی نفع بخش ہے اور اس کیوجہ سے وہ دینی زندگی یعنی عبادات و طاعات میں بھی چاق و چوبند رہتا ہے۔
-5 نکاح ہی کے ذریعہ صالح و نیک بخت اولاد پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی شخص کی زندگی کا سب سے گراں مایہ سرمایہ اس کی صالح اور نیک اولاد ہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ نہ صرف دنیا میں سکون واطمینان اور عزت ونیک نامی کی دولت حاصل کرتا ہے بلکہ اخروی طور پر بھی فلاح وسعادت کا حصہ دار بنتا ہے۔
یہ تو نکاح کے فائدے تھے لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو نکاح کی وجہ سے بعض لوگوں کے لئے نقصان وتکلیف کا باعث بن جاتی ہیں اور جنہیں نکاح کی آفات کہا جاتا ہے چنانچہ ان کو بھی چھ نمبروں میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔
-1 طلب حلال سے عاجز ہونا یعنی نکاح کرنے کی وجہ سے چونکہ گھر بار کی ضروریات لاحق ہو جاتی ہیں اور طرح طرح کے فکر دامن گیر رہتے ہیں اس لئے عام طور پر طلب حلال میں وہ ذوق باقی نہیں رہتا جو ایک مجرد و تنہا زندگی میں رہتا ہے۔
-2 حرام امور میں زیادتی ہونا ۔ یعنی جب بیوی کے آ جانے اور بال بچوں کے ہو جانے کی وجہ سے ضروریات زندگی بڑھ جاتی ہیں تو بسا اوقات اپنی زندگی کا وجود معیار برقرار رکھنے کے لئے حرام امور کے ارتکاب تک سے گریز نہیں کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ ذہن وعمل سے حلال وحرام کی تمیز بھی اٹھ جاتی ہے اور بلا جھجک حرام چیزوں کو اختیار کر لیا جاتا ہے۔
-3 عورتوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہونا ۔ اسلام نے عورتوں کو جو بلند وبالا حقوق عطا کئے ہیں ان میں بیوی کے ساتھ اچھے سلوک اور حسن معاشرت کا ایک خاص درجہ ہے لیکن ایسے بہت کم لوگ ہیں جو بیوی کے حقوق کا لحاظ کرتے ہوں بلکہ بدقسمتی سے چونکہ بیوی کو زیردست سمجھ لیا جاتا ہے اس لئے عورتوں کے حقوق کی پامالی اور ان کے ساتھ برے سلوک و برتاؤ بھی ایک ذاتی معاملہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، حالانکہ یہ چیز ایک انسانی اور معاشرتی بد اخلاقی ہی نہیں ہے بلکہ شرعی طور پر بھی بڑے گناہ کی حامل ہے اور اس سے دین و دنیا دونوں کا نقصان ہوتا ہے۔
-4 عورتوں کی بد مزاجی پر صبر نہ کرنا عام طور پر شوہر چونکہ اپنے آپ کو بیوی سے برتر سمجھتا ہے اس لئے اگر بیوی کی طرف سے ذرا سی بھی بدمزاجی ہوئی تو ناقابل برداشت ہو جاتی ہے اور صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے فورا چھوٹ جاتا ہے۔
-5 عورت کی ذات سے تکلیف اٹھانا بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی بدمزاجی و بداخلاقی کی وجہ سے اپنے شوہروں کے لئے تکلیف وپریشانی کا ایک مستقل سبب بن جاتی ہیں اس کی وجہ سے گھریلو ماحول غیر خوشگوار اور زندگی غیر مطمئن واضطراب انگیز بن جاتی ہے۔
-6 بیوی بچوں کی وجہ سے حقوق اللہ کی ادائیگی سے باز رہنا یعنی ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو اپنی گھریلو زندگی کے استحکام اور بیوی بچوں کے ساتھ حسن معاشرت کے ساتھ ساتھ اپنی دینی زندگی کو پوری طرح برقرار رکھتے ہوں جب کہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ بیوی بچوں اور گھر بار کے ہنگاموں اور مصروفیتوں میں پڑ کر دینی زندگی مضمحل وبے عمل ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ تو عبادات وطاعات کا خیال رہتا ہے نہ حقوق اللہ کی ادائیگی پورے طور پر ہو پاتی ہے۔
نکاح کے ان فوائد وآفات کو سامنے رکھ کر اب یہ سمجھئے کہ اگر یہ دونوں مقابل ہوں یعنی فوائد وآفات برابر ، برابر ہوں، تو جس چیز سے دین کی باتوں میں زیادتی ہوتی ہو اسے ترجیح دی جائے مثلا ایک طرف تو نکاح کا یہ فائدہ ہو کہ اس کی وجہ سے جنسی ہیجان کم ہوتا ہے اور دوسری طرف نکاح کرنے سے یہ دینی نقصان سامنے ہو کہ عورت کی بدمزاجی پر صبر نہیں ہو سکے گا تو اس صورت میں نکاح کرنے ہی کو ترجیح دی جائے کیونکہ اگر نکاح نہیں کرے گا تو زنا میں مبتلا ہو جائے گا اور ظاہر ہے کہ یہ چیز عورت کی بد مزاجی پر صبر نہ کرنے سے کہیں زیادہ دینی نقصان کا باعث ہے۔
نکاح کے احکام
-1 حنفی مسلک کے مطابق نکاح کرنا اس صورت میں فرض ہوتا ہے جب کہ جنسی ہیجان اس درجہ غالب ہو کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں زنا میں مبتلا ہو جانے کا یقین ہو اور بیوی کے مہر پر اور اس کے نفقہ پر قدرت حاصل نہ ہو اور یہ خوف نہ ہو کہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بجائے اس کے ساتھ ظلم وزیادتی کا برتاؤ ہو گا۔
-2 نکاح کرنا اس صورت میں واجب ہو جاتا ہے جب کہ جنسی ہیجان کا غلبہ ہو مگر اس درجہ کا غلبہ نہ ہو کہ زنا میں مبتلا ہو جانے کا یقین ہو، نیز مہر و نفقہ کی ادائیگی کی قدرت رکھتا ہو اور بیوی پر ظلم کرنے کا خوف نہ ہو۔ اگر کسی شخص پر جنسی ہیجان کا غلبہ تو ہو مگر وہ مہر اور بیوی کے اخراجات کی ادائیگی پر قادر نہ ہو تو ایسی صورت میں اگر وہ نکاح نہ کرے تو اس پر گناہ نہیں ہو گا جب کہ مہر اور نفقہ پر قادر شخص جنسی ہیجان کی صورت میں نکاح نہ کرنے سے گناہ گار ہوتا ہے۔
-3 اعتدال کی حالت میں نکاح کرنا سنت مؤ کدہ ہے اعتدال کی حالت سے مراد یہ ہے کہ جنسی ہیجان کا غلبہ تو نہ ہو لکین بیوی کے ساتھ مباشرت و مجامعت کی قدرت رکھتا ہو اور مہر و نفقہ کی ادائیگی پر بھی قادر ہو۔ لہذا اس صورت میں نکاح نہ کرنیوالا گنہگار ہوتا ہے جب کہ زنا سے بچنے اور افزائش نسل کی نیت کے ساتھ نکاح کرنیوالا اجر و ثواب سے نوازا جاتا ہے۔
-4 نکاح کرنا اس صورت میں مکروہ ہے جب کہ بیوی پر ظلم کرنے کا خوف ہو یعنی اگر کسی شخص کو اس بات کا خوف ہو کہ میرا مزاج چونکہ بہت برا اور سخت ہے اس لئے میں بیوی پر ظلم وزیادتی کروں گا تو ایسی صورت میں نکاح کرنا مکروہ ہے
-5 نکاح کرنا اس صورت میں حرام ہے جبکہ بیوی پر ظلم کرنے کا یقین ہو یعنی اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو کہ میں اپنے مزاج کی سختی وتندی کی وجہ سے بیوی کے ساتھ اچھا سلوک قطعا نہیں کر سکتا بلکہ اس پر میری طرف سے ظلم ہونا بالکل یقینی چیز ہے تو ایسی صورت میں نکاح کرنا اس کے لئے حرام ہوگا۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ شریعت نے نکاح کے بارے میں مختلف حالات کی رعایت رکھی ہے بعض صورتوں میں تو نکاح کرنا فرض ہو جاتا ہے بعض میں واجب اور بعض میں سنت مؤ کدہ ہوتا ہے جب کہ بعض صورتوں میں نکاح کرنا مکروہ بھی ہوتا ہے اور بعض میں تو حرام ہو جاتا ہے لہذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اسی صورت کے مطابق عمل کرے جو اس کی حالت کے مطابق ہو۔
نکاح کے مستحبات
جب کوئی شخص نکاح کرنا چاہے خوہ مرد ہو یا عورت تو چاہئے کہ نکاح کا پیغام دینے سے پہلے ایک دوسرے کے حالات کی اور عادات واطوار کی خوب اچھی طرح جستجو کر لی جائے تا کہ ایسا نہ ہو کہ بعد میں کوئی ایسی چیز معلوم ہو جو طبیعت ومزاج کے خلاف ہونیکی وجہ سے زوجین کے درمیان ناچاقی وکشیدگی کا باعث بن جائے۔
یہ مستحب ہے کہ عمر، عزت، حسب اور مال میں بیوی خاوند سے کم ہو اور اخلاق وعادات خوش سلیقی وآداب حسن وجمال اور تقوی میں خاوند سے زیادہ ہو اور مرد کے لئے یہ بھی مسنون ہے کہ وہ جس عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے اس کو نکاح سے پہلے دیکھ لے بشرطیکہ یہ یقین ہو کہ میں اگر اس کو پیغام دوں گا تو منظور ہو جائے گا ۔
مستحب ہے کہ نکاح کا اعلان کیا جائے گا اور نکاح کی مجلس اعلانیہ طور پر منعقد کی جائے جس میں دونوں طرف سے اعزہ واحباب نیز بعض علماء وصلحا بھی شریک ۔ اسی طرح یہ بھی مستحب ہے کہ نکاح پڑھانے والا نیک بخت وصالح ہو اور گواہ عادل وپرہیزگارہوں۔
ایجاب وقبول اور ان کے صحیح ہونے کی شرائط
نکاح ایجاب وقبول کے ذریعہ منعقد ہوتا ہے اور ایجاب وقبول دونوں ماضی کے لفظ کے ساتھ ہونے چاہئیں (یعنی ایسا لفظ استعمال کیا جائے جس سے یہ بات سمجھی جائے کہ نکاح ہو چکا ہے) جیسے عورت یوں کہے کہ میں نے اپنے آپ کو تمہاری زوجیت میں دیا، یا عورت کا ولی، مرد سے یہ کہے کہ میں نے فلاں عورت کا جس کا نام یہ ہے، تمہارے ساتھ نکاح کیا اور اس کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے منظور کیا یا ایجاب میں سے کوئی ایک ماضی کے لفظ کے ساتھ ہو جیسے عورت یہ کہے کہ مجھ سے نکاح کر لو یا عورت کا ولی ، مرد سے یہ کہے کہ فلاں عورت سے جس کا نام یہ ہے نکاح کر لو اور اس کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے نکاح کر لیا۔ یا اس کا برعکس ہو، جیسے مرد یہ کہے کہ میں نے تمہارے ساتھ اپنا نکاح کر لیا اور اس کے جواب میں عورت یہ کہے کہ میں منظور کرتی ہوں اور اگر مرد، عورت سے یوں کہے کہ کیا تم نے اپنے آپ کو میری زوجیت میں دیا؟ یا کہے کہ کیا تم نے مجھے قبول کیا اور اس کے جواب میں عورت ( ہاں میں نے دیا یا ہاں میں نے قبول کیا کہنے کی بجائے) صرف یہ کہے کہ ہاں دیا ۔ یا ہاں قبول کیا ( یعنی لفظ "میں" نہ کہے) تو اس صورت میں بھی نکاح ہو جاتا ہے۔ البتہ گواہوں کے سامنے صرف یہ کہنے سے کہ ہم بیوی خاوند ہیں، نکاح نہیں ہوتا۔
جس طرح ایجاب وقبول میں ماضی کا لفظ استعمال کرنا ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ایجاب وقبول میں خاص کر نکاح اور تزوجی کا لفظ استعمال کیا جائے مثلا یوں کہا جائے کہ میں نے تمہارے ساتھ نکاح کیا یا تمہارے ساتھ تزویج کیا ۔ یا نکاح وتزویج کے ہم معنی کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا جائے مثلا یوں کہا جائے کہ میں نے تمہارے ساتھ نکاح کیا یا تہارے ساتھ تزویج کیا یا نکاح وتزویج کے ہم معنی کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا جائے جو نکاح کا مطلب صراحۃ ادا کرتا ہو جیسے مرد یوں کہے کہ میں نے تمہیں اپنی بیوی بنا لیا یا یوں کہے کہ میں تمہارا شوہر ہو گیا یا یوں کہے کہ تم میری ہو گئیں۔ اور نکاح وتزویج یا اس کا ہم معنی لفظ صراحۃً استعمال نہ کیا جائے بلکہ کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جائے جس سے کنیۃً نکاح کا مفہوم سمجھا جاتا ہو تو یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ لفظ ایسا ہو جس کے ذریعہ سے کسی ذات کامل کی ملکیت فی الحال حاصل کی جاتی ہو جیسے ہبہ کا لفظ یا صدقہ کا لفظ یا تملیک کا لفظ یا بیع وشراء کا لفظ جیسے بیوی یوں کہے کہ میں نے اپنی زوجیت تمہیں ہبہ کر دی، یا میں نے اپنی ذات تمہیں بطور صدقہ دیدی یا میں نے تمہیں اپنی ذات کا مالک بنا دیا یا یوں کہے کہ میں نے تمہیں اس قدر روپیہ کے عوض خرید لیا اور ان سب کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے قبول کیا، لیکن اس کے صحیح ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ متکلم نے اس لفظ سے نکاح مراد لیا ہو اور کوئی قرینہ اس پر دلالت کرتا ہو اور اگر کوئی قرینہ نہ ہو تو قبول کرنیوالے نے متکلم کی مراد کی تصدیق کر دی ہو نیز گواہوں نے بھی سمجھ لیا ہو کہ اس لفظ سے مراد نکاح ہے خواہ انہوں نے کسی قرینہ سے سمجھا ہو یا بتا دینے سے سمجھا ہو۔
ایجاب وقبول کے وقت عاقدین ( دولہا دولہن) میں سے ہر ایک کے لئے دوسرے کا کلام سننا ضروری ہے خواہ وہ بالاصالۃ( یعنی خود) سنیں خواہ بالوکالۃ ( یعنی ان کے وکیل سنیں) اور خواہ بالولایۃ سنیں (یعنی ان کا ولی سنے)
ایجاب وقبول کے وقت دو گواہوں کی موجودگی نکاح صحیح ہونے کی شرط ہے اور یہ گواہ خواہ دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں ہو، گواہوں کا آزاد ہونا ضروری ہے لونڈی یا غلام گواہوں کی گواہی معتبر نہیں ہوگی، اسی طرح گواہوں کا عاقل اور مسلمان ہونا بھی ضروری ہے مسلمانوں کی گواہی ہر حال میں کافی ہو گی خواہ وہ پرہیزگار ہوں یا فاسق ہوں اور خواہ ان پر حد قذف لگائی جا چکی ہو ۔ گواہوں کا بینا ہونا یا زوجین کا رشتہ دار نہ ہونا شرط نہیں ہے، چنانچہ اندھو کی گواہی اور زوجین کے رشتہ داروں کی گواہی معتبر ہو گی خواہ وہ زوجین کے یا ان میں سے کسی ایک کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں، گواہوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ دونوں ایجاب وقبول کے الفاظ کو ایک ساتھ سنیں اور سنکر یہ سمجھ لیں کہ نکاح ہو رہا ہے گو ان الفاظ کے معنی نہ سمجھیں ( مثلا ایجاب وقبول کسی ایسی زبان میں ہو جسے وہ نہ جانتے ہوں) اگر دونوں گواہ ایجاب وقبول کے الفاظ ایک ساتھ نہ سنیں بلکہ الگ الگ سنیں تو نکاح صحیح نہیں ہوگا۔ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص سے کہا کہ میری فلانا بالغ لڑکی کا نکاح فلاں شخص کے ساتھ کر دو اور اس شخص نے اس لڑکی کا نکاح اس باپ اور ایک دوسرے مرد کی موجودگی میں کیا تو یہ جائز ہوگا لکین اگر باپ موجودہ ہو تو پھر دونوں مردوں یا ایک مرد اور عورتوں کی موجودگی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں