مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ منسوبہ کو دیکھنے اور جن اعضا کو چھپانا واجب ہے ان کا بیان ۔ حدیث 324

اجنبی عورت کے ساتھ خلوت گزینی کی ممانعت

راوی:

وعن جابر رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ألا لا يبتن رجل عند امرأة ثيب إلا أن يكون ناكحا أو ذا محرم " . رواه مسلم
(2/203)

3102 – [ 5 ] ( متفق عليه )
وعن عقبة بن عامر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إياكم والدخول على النساء فقال رجل : يا رسول الله أرأيت الحمو ؟ قال : " الحمو الموت "

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبردار کوئی مرد کسی ثیب عورت کے ساتھ شب نہ گزارے الاّ یہ کہ وہ مرد منکوح یعنی خاوند ہو یا محرم ہو ( مسلم٩)

تشریح :
یہاں رات گزرانے سے مراد تنہائی میں ملنا ہے لہذا اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مرد کسی اجنبی ثیب عورت کے ساتھ کسی جگہ تنہائی میں اکٹھا نہ ہو خواہ رات ہو یا دن ہو ۔
ثیب اس عورت کو کہتے میں جس سے جماع ہو چکا ہو یا جو خاوند کر چکی ہو لیکن یہاں ثیب سے مراد جوان عورت ہے خواہ وہ کنواری ہو یا غیر کنواری ہو
محرم سے مراد ہے جس سے نکاح کرنا ابدی طور پر ناجائز ہو جیسے بیٹا بھائی اور داماد وغیرہ اگرچہ یہ محرمیت دودھ کے رشتہ ہی کی وجہ سے کیوں نہ ہو۔
اور حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اجنبی عورتوں کے نزدیک جانے سے اجتناب کرو جبکہ وہ تنہائی میں ہوں یا ننگی کھلی بیٹھی ہوں ایک شخص نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! حمو کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے؟ کی اان کے لئے بھی یہ ممانعت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حمو تو موت ہے (بخاری ومسلم

تشریح :
حمو شوہر کے قرابت داروں کو کہتے ہیں جیسے بھائی یعنی عورت کا دیور وغیرہ ہاں شوہر کا باپ اور شوہر کا بیٹا حمو میں داخل نہیں ہے۔
حمو تو موت ہے، کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح موت انسانی کی ظاہری اور دنیوی زندگی کو ہلاک کر دیتی ہے اس طرح حمو کا تنہائی میں غیر محرم عورت کے پاس جانا اس کی دینی اور اخلاقی زندگی کو ہلاکت وتباہی کے راستہ پر ڈال دیتا ہے کیونکہ عام طور پر لوگ غیر محرم عورتوں کے ساتھ حمو کے خلط ملط کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لئے ان کے عورتوں کے پاس آتے جاتے رہنے اور ان کے ساتھ بے محابا نشست وبرخواست رکھنے کی وجہ سے ان کا کسی برائی میں مبتلا ہو جانا زیادہ مشکل نہیں رہتا اس کی وجہ سے فتنے سر ابھارتے ہیں اور نفس برائیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
یہ جملہ الحمو الموت ( یعنی حمو تو موت ہے لفظ موت کا ذکر دراصل اس محاورہ کی بنیاد پر جو اہل عرب کے ہاں عام طور پر کسی خطرناک چیز سے خوف دلانے کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ اہل عرب کہہ دیا کرتے ہیں کہ شیر مرگ ہے یا بادشاہ آگ ہے۔ چنانچہ ان جملوں کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ شیر کے قریب جانا موت کی آغوش میں چلا جانا ہے یا بادشاہ کی قربت آگ کی قربت کی مانند ہے لہذا ان سے بچنا چاہئے۔

یہ حدیث شیئر کریں