مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان ۔ حدیث 373

جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان

راوی:

تیسرا سبب دودھ کا رشتہ : یعنی وہ عورتیں جو رضاعت دودھ پلانے کی وجہ سے حرام ہیں چنانچہ تمام وہ رشتے جو نسبی اور سسرالی ہونے کی وجہ سے حرام ہیں رضاعت کی وجہ سے بھی حرام رہیں گے اگر کسی عورت نے کسی بچہ کو اس کی شیرخوارگی کی عمر میں دودھ پلایا ہے تو ان دونوں میں ماں اور اولاد کا تعلق پیدا ہو جائے گا لہذا دودھ پلانیوالی عورت کا شوہر دودھ والے بچہ کا رضاعی باپ ہوگا جس کی وجہ سے رضاعی ماں اور باپ کے تمام وہ رشتے دار اس بچہ کے لئے حرام ہوں گے جو حقیقی ماں اور باپ کی رشتہ داری کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں ۔ شیرخوارگی کی عمر میں مطلقًا دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے خواہ زیادہ دودھ پیا ہو خواہ کم پیا ہو اور کم کی آخری حد یہ ہے کہ دودھ کا پیٹ میں مطلقًا پہنچ جانا یقینی کے ساتھ معلوم ہو جائے ۔ شیرخوارگی کی عمر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے قول کے مطابق تو تیس مہینہ تک ہے اور صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے قول کے مطابق دو برس تک ہے۔
اگر کسی بچہ نے شیرخوارگی کی عمر میں دودھ پینا بند کر دیا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اس نے شیرخوارگی ہی کی عمر میں دودھ پیا تو یہ رضاعت کے حکم میں داخل ہوگا کیونکہ دودھ پلانا شیرخوارگی ہی کی مدت میں واقع ہوا ہے ۔ شیرخوارگی کی مدت رضاعت گزر جانے کے بعد دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دودھ پلانے کی اجرت کے استحقاق کے سلسلے میں شیرخوارگی کی مدت دو برس ہی تسلیم کی گئی ہے چنانچہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی اور اس مطلقہ نے اس کے بچہ کو دو برس کی عمر کے بعد دودھ پلانے کی اجرت کا مطالبہ بچہ کے باپ یعنی اپنے سابق شوہر سے کیا تو اس کا مطالبہ تسلیم نہیں ہوگا اور بچہ کے باپ کو اس بات پر مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ اپنی مطلقہ کو دو برس کے بعد کے عرصہ کے دودھ پلانے کی اجرت دے ہاں اس کی مطلقہ نے دو برس کے عرصہ میں جو دودھ پلایا ہے اس کی اجرت دینے پر اسے مجبور کیا جائے گا ۔
حرمت رضاعت جس طرح رضاعی ماں یعنی دودھ پلانے والی کی رشتہ داروں میں ثابت ہوتی ہے اسی طرح رضاعی باپ کے رشتہ داروں میں بھی ثابت ہوتی ہے اور رضاعی باپ سے مراد دودھ پلانے والی کا وہ خاوند ہے جس کے جماع کی وجہ سے دودھ اترتا ہے۔
" رضیع، یعنی دودھ پینے والے پر اس کے رضاعی ماں باپ اور ان رضاعی ماں باپ کے اصول یعنی ان کے باپ دادا وغیرہ) اور ان کے فروع یعنی ان کی اولاد خواہ وہ نسبی ہوں یا رضاعی سب حرام ہیں ۔ یہاں تک کہ اس کے دودھ پینے سے پہلے اس کی رضاعی ماں کے ہاں جو اولاد ہو چکی ہو گی یا اس کے دودھ پینے کے بعد جو اولاد ہوگی اور وہ اولاد خواہ اس کے رضاعی باپ سے ہو خواہ اس کی رضاعی ماں کے کسی دوسرے شوہر سے ہو یا اس کی رضاعی بہن اور بھائی بہن کی اولاد اس کے بھتیجے ، بھتیجی اور بھانجے بھانجی ہوں گے، اسی طرح رضاعی باپ کا بھائی اس کا چچا ہوگا رضاعی باپ کی بہن اس کی پھوپھی ہوگی رضاعی ماں کا بھائی اس کا ماموں ہوگا۔ رضاعی ماں کی بہن اس کی خالہ ہوگی اور رضاعی ماں کا دادا اور اس کی دادی و نانی رضیع کا دادا اور اس کی دادی و نانی ہوگی۔
جس طرح رضاعت میں نسبی رشتوں کی حرمت ثابت ہوتی ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اسی طرح رضاعت میں حرمت مصاہرت یعنی سسرالی رشتہ کی حرمت بھی ثابت ہوتی ہے چنانچہ رضاعی باپ کی بیوی اور رضیع دودھ پینے والے پر حرام ہیں اور رضیع کی بیوی اس کے رضاعی باپ پر حرام ہے اسی دوسرے رشتوں کو بھی قیاس کیا جاتا ہے لیکن دو صورتیں مستثنی ہیں اول تو یہ کہ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اپنے نسبی بیٹے کی بہن سے نکاح کر لے تو یہ اس کے لئے جائز نہیں ہے لیکن رضاعت یعنی دودھ کے رشتہ میں یہ جائز ہے کیونکہ کسی شخص کے نسبی بیٹے کی بہن اگر اس کے نطفہ سے ہے تو وہ اس کی حقیقی بیٹی ہوگی اور اگر اس کے نطفہ سے نہیں ہے تو پھر یہ یعنی اس کی سوتیلی بیٹی ہوگی جب کہ دودھ کے رشتہ میں یہ دونوں باتیں مفقود ہوتی ہیں چنانچہ اگر نسبی رشتہ میں بھی ان دونوں باتوں میں سے ایک بھی بات نہیں پائی جائے گی تو نکاح درست ہوگا مثلا کسی ایسی لونڈی کے بچہ پیدا ہوا جو دو آدمیوں کی مشترک مملوکہ ہے اور وہ دونوں شریک اس بچہ پر اپنا اپنا دعوی کرتے ہیں یہاں تک کہ اس بچہ کا نسب ان دونوں سے ثابت ہو گیا ہے، ادھر ان دونوں کے ہاں اپنی اپنی عورت سے ایک ایک بیٹی ہے تو اب ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ دوسرے شریک کی بیٹی سے اپنا نکاح کر لے کیونکہ اس صورت میں دونوں باتوں میں اسے ایک بات بھی نہیں پائی گئی باوجودیکہ ان میں سے جس نے بھی دوسرے کی بیٹی سے نکاح کیا ہے اس نے گویا اپنے نسبی بیٹے کی بہن سے نکاح کیا ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کسی شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے نسبی بھائی کی ماں سے نکاح کرے اور دودھ کے رشتہ میں یہ جائز ہے کیونکہ نسبی رشتہ میں یا تو یہ صورت ہوگی کہ وہ دونوں اخیافی یعنی سسرالی صرف ماں شریک) بھائی ہوں گے اسی طرح دونوں کی ماں ایک ہی ہوگی یا یہ صورت ہوگی کہ وہ دونوں سوتیلے صرف باپ شریک بھائی ہوں گے اسی طرح بھائی کی ماں اپنے باپ کی بیوی ہوگی جب کہ دودھ کے رشتہ میں یہ دونوں باتیں مفقود ہوتی ہیں۔
دودھ شریک بھائی کی بہن سے یعنی جس نے اس کی ماں کا دودھ پیا ہے اس کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہے جس طرح کہ نسبی رشتہ میں جائز ہے مثلا زید کا ایک سوتیلا بھائی ہے جس کا نام بکر ہے اور بکر کی ایک اخیافی بہن ہے یعنی دونوں کی ماں تو ایک ہے مگر باپ الگ الگ ہیں تو بکر کی اس اخیافی بہن سے نکاح کرنا زید کے لئے جائز ہوگا جو بکر کا سوتیلا بھائی ہے۔
دودھ شریک بھائی کی ماں یعنی جس نے اس کی ماں کا دودھ پیا ہے اس کی ماں) محرمات میں سے نہیں ہے اسی طرح رضاعی چچا رضاعی ماموں رضاعی پھوپھی اور رضاعی خالہ کی ماں بھی محرمات میں سے نہیں ۔ اپنی رضاعی پوتی کی ماں سے نکاح کرنا جائز ہے اسی طرح اپنے رضاعی بیٹے کی دادی اور نانی سے بھی نکاح کرنا جائز ہے۔ رضاعی بیٹے کی پھوپھی اس کی بہن کی ماں اس کی بھانجی اور اس کی پھوپھی کی بیٹی سے بھی نکاح کرنا جائز ہے، اسی طرح عورت کو اپنی رضاعی بہن کے باپ اپنے رضاعی بیٹے کے بھائی اپنے رضاعی پوتے کے باپ اور اپنے رضاعی بیٹے کے دادا اور ماموں سے نکاح کرنا جائز ہے جب کہ نسبی رشتہ میں یہ سب محرمات میں سے ہیں جن سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا۔
کسی شخص نے اپنی بیوی کو جس کے دودھ اترا ہوا تھا طلاق دیدی پھر اس مطلقہ نے عدت کے دن گزار کر ایک دوسرے شخص سے نکاح کر لیا اور اس دوسرے خاوند نے اس سے جماع کیا تو اس بارے میں علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب اس دوسرے خاوند کے نطفہ سے اس کے بچہ پیدا ہوگا تو اس عورت کے دودھ کا سبب بھی دوسرا خاوند قرار پائے گا اس کے دودھ سے پہلے خاوند کا کوئی تعلق باقی نہیں رہے گا ہاں اگر دوسرے خاوند سے حاملہ نہیں ہوگی تو اس دودھ کا سبب پہلا ہی خاوند سمجھا جائے گا ۔ لیکن اگر یہ صورت ہو کہ دوسرے شوہر سے حاملہ تو ہوئی مگر ابھی بچہ پیدا نہیں ہوا ہے تو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ جب تک اس دوسرے شوہر کا بچہ پیدا نہ ہو جائے دودھ پہلے شوہر ہی کا کہلائے گا ۔ ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا لیکن اس سے کبھی بھی کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا پھر ( بغیر کسی ولادت کے) اس کے دودھ اتر آیا اور وہ دودھ اس نے کسی دوسرے کے بچے کو پلایا تو وہ دودھ اسی عورت کا کہلائے گا اس کے خاوند کا اس دودھ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔ اس صورت میں اس دودھ پینے والے بچہ اور اس شخص کی اس اولاد کے درمیان جو دوسری بیوی سے ہو حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوگی ۔
ایک شخص نے کسی عورت سے زنا کیا جس کے نتیجہ میں اس کے ہاں ولادت ہوئی اور پھر اس عورت نے کسی دوسری لڑکی کو دودھ پلایا تو اس زنا کرنیوالے اس کے باپ دادا اور اس کی اولاد کو اس دودھ پینے والی لڑکی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا ہاں زنا کرنیوالے کا چچا اور اس کا ماموں نکاح کر سکتا ہے جس طرح کہ زنا کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالی لڑکی سے زنا کرنیوالے کا چچا اور ماموں نکاح کر سکتا ہے ۔ کسی شخص نے شبہ میں مبتلا ہو کر یعنی کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر ایک عورت سے جماع کیا جس سے وہ حاملہ ہو گئی اور پھر اس نے کسی بچہ کو دودھ پلایا تو یہ بچہ اس جماع کرنیوالے کا رضاعی بیٹا ہوگا اس پر یہ قیاس کیا جانا چاہئے کہ جن صورتوں میں بچہ کا نسب جماع کرنیوالے سے ثابت ہوتا ہے انہی صورتوں میں رشتہ رضاعت بھی اس سے ثابت ہوگا اور جن صورتوں میں بچہ کا نسب جماع کرنے والے سے ثابت نہیں ہوتا اس صورت میں رشتہ رضاعت دودھ پلانیوالی عورت سے ثابت ہوگا۔
کسی شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا اور اس سے عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوا ۔ عورت نے اپنے بچہ کو دودھ پلایا اور بعد میں دودھ خشک ہو گیا کچھ عرصہ کے بعد دودھ پھر اتر آیا اور اس نے کسی دوسرے لڑکے کو وہ دودھ پلایا تو اس لڑکے کے لئے اس شخص کی اس اولاد سے نکاح کرنا جائز ہوگا جو اس دودھ پلانیوالی عورت کے علاوہ کسی دوسری بیوی کے بطن سے ہو۔
کسی کنواری لڑکی کے دودھ اتر آیا اور اس نے وہ دودھ کسی بچی کو پلایا تو یہ اس بچی کی رضاعی ماں ہوگی اور رضاعت کے تمام احکام دونوں کے حق میں ثابت ہوں گے لہذا اگر کسی شخص نے اس کنواری لڑکی سے نکاح کیا اور جماع سے پہلے اسے طلاق دیدی تو اس شخص کے لئے اس دودھ پینے والی لڑکی سے نکاح کرنا جائز ہوگا ( کیونکہ اس صورت میں بیوی کی بیٹی کا بھی یہی حکم ہے) اور اگر جماع کے بعد طلاق دی تو اس لڑکی سے نکاح کرنا ناجائز ہوگا۔
اگر کسی ایسی لڑکی کے دودھ اتر آیا جس کی عمر نو برس سے کم تھی اور پھر اس نے وہ دودھ ایک لڑکے کو پلایا تو اس سے دونوں کے درمیان حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوگی کیونک حرمت رضاعت اسی صورت میں ثابت ہوتی ہے جب کہ دودھ نو برس یا نو برس سے زائد کی عمر میں اترے ۔ اسی طرح اگر کسی کنواری لڑکی کی چھاتیوں میں زرد رنگ کا پانی اتر آیا تو اس کے پلانے سے بھی حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔
کسی عورت نے ایک بچہ کے منہ میں اپنی چھاتی داخل کر دی لیکن بچہ کا اس کی چھاتی سے دودھ چوسنا معلوم نہیں ہوا تو اس صورت میں شک کی وجہ سے حرمت رضاعت کا حکم نافذ نہیں کیا جائے گا البتہ احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ حرمت ثابت ہو جائے۔
کسی عورت کی چھاتی سے زرد رنگ کی بہنے والی پتلی چیز بچہ کے منہ میں پہنچ گئی تو حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی اور یہی کہا جائے گا کہ یہ دودھ ہی ہے جس کا رنگ متغیر ہو گیا ہے۔
اگر کسی مرد کی چھاتیوں میں دودھ اتر آیا اور اس نے کسی بچہ کو پلا دیا تو اس سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہو گی اور حرمت ثابت ہونے کے لئے زندہ اور مردہ عورت کے دودھ کا یکساں حکم ہے۔ اور اگر دو بچوں نے کسی ایک چار پائے جانور کا دودھ پیا تو اس سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔
رضاعت کا حکم دار الاسلام اور دار الحرب دونوں جگہ یکساں ہے لہذا اگر کسی کافر عورت نے دار الحرب میں کسی کافر بچہ کو دودھ پلایا اور پھر وہ دودھ پلانیوالی اس کے قرابت دار اور دودھ پینے والا بچہ مسلمان ہو گئے یا وہ دار الحرب میں اسلام ہی کی حالت میں تھے اور پھر دار الحرب سے دار الاسلام میں آگئے تو پھر رضاعت کے تمام احکام نافذ ہوں گے۔
جس طرح عورت کی چھاتی سے دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے اسی طرح بچہ کے منہ میں دودھ ڈال دینے یا ناک میں نچوڑ دینے سے بھی حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے البتہ کان میں ٹپکانے عضو مخصوص کے سوراخ میں ڈالنے حقنہ کے ذریعہ استعمال کرنے اور مقعد میں اور دماغ اور پیٹ کے زخم میں ڈالنے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی اگرچہ دودھ ان زخموں کے ذریعہ دماغ اور پیٹ میں پہنچ جائے ۔ لیکن حضرت امام محمد کے نزدیک حقنہ کے ذریعہ استعمال کرنے سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔
اگر غذا کی کسی چیز میں دودھ مل گیا اور اسے آگ پر پکا کر کھانا بنا لیا گیا جس کی وجہ سے دودھ کی حقیقت بدل گئی تو اس کو کھانے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی خواہ دودھ غالب ہو یا مغلوب ہو اور اگر دودھ ملی ہوئی چیز آگ پر پکائی نہیں گئی تو اس صورت میں بھی اس کو کھانے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ بشرطیکہ اس چیز میں دودھ غالب نہ ہو اور اگر وہ دودھ غالب ہوگا تو بھی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک حرمت ثابت نہیں ہوگی کیونکہ جب بہنے والی چیز جمی ہوئی چیز میں مخلوط ہو گئی تو بہنے والی چیز اس جمی ہوئی چیز کے تابع ہوگئی اور مشروبات کی قسم سے خارج ہوگئی یعنی پینے کے قابل نہیں رہی اسی لئے علماء نے کہا ہے کہ جس چیز میں دودھ مخلوط ہوگیا اگر وہ غالب نہ ہو اور اب بھی وہ دودھ بہنے کے قابل ہو تو اس کے پینے سے حرمت ثابت ہوجائیگی۔

یہ حدیث شیئر کریں