مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان ۔ حدیث 375

جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان

راوی:

اگر کسی شخص نے دو بہنوں سے ایک ہی عقد میں نکاح کیا تو نکاح باطل ہوگا اور ان دونوں کو ان کے شوہر سے جدا کرا دیا جائے گا اور پھر یہ جدائی اگر دخول یعنی جماع سے پہلے ہوگی تو ان دونوں کو مہر کے طور پر کچھ نہیں دلوایا جائے گا اور اگر جدائی دخول کے بعد ہوگی تو مہر مثل اور مہر متعین میں سے جس کی مقدار کم ہوگی وہ ان دونوں میں سے ہر ایک کو دیا جائے گا ۔ اگر کسی شخص نے دو بہنوں سے مختلف عقد میں یعنی یکے بعد دیگرے نکاح کیا تو جو نکاح بعد میں ہوگا وہ فاسد ہو جائے گا اور شوہر کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اس سے علیحدگی اختیار کرے اگر وہ خود سے علیحدگی اختیار نہ کرے اور قاضی کو اس کا علم ہو جائے تو قاضی علیحدگی کرا دے ۔ اور پھر یہ علیحدگی اگر دخول جماع سے پہلے واقع ہو گئی تو علیحدگی کے احکام (یعنی مہر و عدت وغیرہ) میں سے کوئی حکم نافذ نہیں ہوگا اور اگر دخول کے بعد علیحدگی واقع ہو گئی تو مہر مثل اور مہر متعین میں سے جس کی مقدار کم ہو گی وہ مہر مل جائے گا اور اس پر عدت واجب ہو گی اور اگر بچہ پیدا ہوا تو اس کا نسب ثابت ہو گا اور اس شخص کو اپنی بیوی یعنی پہلی منکوحہ سے اس وقت تک علیحدہ رہنا ہوگا جب تک کہ اس کی بہن کی عدت پوری نہ ہو جائے اور اگر کسی شخص نے دو بہنوں سے دو عقدوں میں یعنی یکے بعد دیگرے نکاح کر لیا مگر یہ معلوم نہیں کہ کس بہن سے پہلے اور کس بہن سے بعد میں نکاح کیا تھا تو ایسی صورت میں شوہر کو حکم دیا جائے گا کہ وہ بیان کرے اگر وہ بیان کر دے کہ فلاں بہن سے پہلے اور فلاں بہن سے بعد میں نکاح کیا تھا تو اس بیان کے مطابق عمل کیا جائے (یعنی پہلی کا نکاح باقی اور دوسری کا نکاح باطل قرار دیا جائے اور اگر شوہر بھی بیان نہ کر سکے تو پھر قاضی ان دونوں ہی سے شوہر کی علیحدگی کرا دے، علیحدگی کے بعد ان دونوں کو نصف مہر ملے گا بشرطیکہ دونوں کا مہر برابر ہو اور عقد کے وقت متعین ہوا ہو اور یہ علیحدگی بھی جماع سے پہلے واقع ہوئی ہو اور اگر دونوں کا مہر برابر نہ ہو تو ان میں سے ہر ایک کو دوسرے کے مہر کا چوتھائی حصہ ملے گا اور اگر عقد کے وقت مہر متعین نہ ہوا تو آدھے مہر کی بجائے ایک جوڑا کپڑا دونوں کو دیا جائے گا ۔ اور اگر یہ علیحدگی جماع کے بعد ہوئی ہو تو ہر ایک کو اس کا مہر پورا ملے گا۔
اور ابوجعفر ہندوانی فرماتے ہیں کہ مسئلہ مذکورہ کا یہ حکم اس وقت ہوگا جب کہ ان دونوں میں سے ہر ایک یہ دعوی کرے کہ پہلے مجھ سے نکاح ہوا تھا اور گواہ کی ایک کے بھی پاس نہ ہوں تو دونوں کو نصف مہر دلایا جائے گا لیکن اگر دونوں یہ کہیں کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ ہم میں سے کس کا نکاح پہلے ہوا ہے تو ان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا جب تک کہ دونوں کسی ایک بات پر متفق ہو کر صلح نہ کر لیں اور دونوں کے صلح کی صورت یہ ہوگی کہ وہ دونوں قاضی کے پاس جا کر یہ کہیں کہ ہم دونوں کا مہر ہمارے خاوند پر واجب ہے اور ہمارے اس مطالبہ میں کوئی تیسرا دعوی دار شریک نہیں ہے ( یعنی ہمارے خاوند پر مہر کی جو رقم واجب ہے اس میں ہم دونوں کے علاوہ اور کسی تیسری عورت کا کوئی حق نہیں ہے) لہذا ہم دونوں اس بات پر صلح و اتفاق کرتی ہیں کہ نصف مہر لے لیں اس کے بعد قاضی فیصلہ کر دے گا اور اگر ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنا نکاح پہلے ہونے پر گواہ پیش کئے تو مرد پر نصف مہر واجب ہوگا جو دونوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے گا اس حکم میں تمام علماء کا اتفاق ہے نیز دو بہنوں کے سلسلہ میں جو احکام بیان کئے گئے ہیں وہ ایسی تمام عورتوں میں بھی جاری ہوں گے جن کا جمع کرنا (یعنی جن کو بک وقت اپنے نکاح میں رکھنا) حرام ہے اور اگر یہ شخص یعنی جس نے دو بہنوں سے ایک عقد میں نکاح کر لیا تھا اور یہ نکاح باطل ہونے کی وجہ سے ان دونوں بہنوں اور اس کے درمیان علیحدگی کرا دی تھی) ان دونوں بہنوں کے علیحدہ ہو جانے کے بعد پھر ان دونوں میں سے کسی ایک سے نکاح کرنا چاہے تو نکاح کر سکتا ہے بشرطیکہ علیحدگی جماع سے پہلے ہوئی ہو اور اگر یہ علیحدگی جماع کے بعد ہوئی تھی تو اس صورت میں دونوں بہنوں کی عدت گزر جانے سے پہلے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا اور اگر ایک عدت میں ہے اور دوسری کی عدت پوری ہو گئی ہے تو اس بہن سے نکاح کرنا جائز ہو گا جو عدت میں ہے دوسری سے اس وقت تک نکاح کرنا جائز نہیں ہو گا جب تک اس بہن کی عدت پوری نہ ہو جائے جو عدت میں ہے ۔ اور اگر علیحدگی سے پہلے ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ جماع ہو گیا تھا تو اس بہن سے نکاح کرنا جائز ہو گا جس سے جماع ہو چکا تھا اور اگر اس بہن سے نکاح کرنا چاہے جس سے جماع نہیں ہوا تھا تو) اس سے اس وقت تک نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا جب تک اس بہن کی عدت پوری نہ ہو جائے جس سے جماع ہوا تھا، ہاں اگر اس بہن کی عدت پوری ہو جائے جس سے جماع ہوا تھا تو پھر ان دونوں میں سے جس سے چاہے نکاح کر سکتا ہے۔
جس طرح بیک وقت دو بہنوں کو اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے اسی طرح بیک وقت دو باندی بہنوں سے جنسی لطف حاصل کرنا یعنی مساس وجماع کرنا بھی جائز نہیں ہے ( یعنی اگر کسی شخص کی ملکیت میں بیک وقت دو بہنیں بطور باندی ہوں تو وہ ان دونوں سے جنسی تلذذ حاصل نہ کرے بلکہ ان میں سے کسی ایک ہی سے مساس و جماع وغیرہ کرے) کیونکہ ان دونوں میں سے کسی ایک سے جنسی لطف لینے کے بعد دوسری بہن حرام ہو جائے گی اس دوسری بہن سے اسی وقت جنسی لطف حاصل کر سکتا ہے جب کہ پہلی بہن کو اپنے اوپر حرام کر لے ۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے ایک باندی خریدی اور اس سے جماع کر لیا پھر اس کے بعد اس کی بہن کو خرید لیا تو صرف پہلی ہی سے جماع کر سکتا ہے دوسری سے جماع اس وقت تک حرام ہوگا جب تک کہ پہلی کو اپنے لئے حرام نہ کر لے اور حرام کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ یا تو کسی سے اس کا نکاح کر دے یا اپنی ملکیت سے نکال دے یا آزاد کر دے یا کسی کو ہبہ کر دے یا فروخت کر دے یا صدقہ کر دے اور یا مکاتب بنا دے۔
اس سلسلہ میں یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ بعض حصہ کو آزاد کرنا کل حصہ کو آزاد کرنے کے مترادف ہے ( مثلا کسی نے اپنی باندی سے کہا کہ میں نے تیرا آدھا حصہ یا تیرا چوتھائی حصہ آزاد کیا تو یہ کل کو آزاد کرنے کے مرادف ہوگا اور اس سے جماع کرنا ناجائز ہوگا) اسی طرح اس کے بعض حصہ کو اپنی ملکیت سے نکالنا کل کو اپنی ملکیت سے نکالنے کے مرادف ہوگا۔ اگر صرف یہ کہہ دیا جائے کہ پہلی مجھ پر حرام ہے تو اس کو کہہ دینے کی وجہ سے دوسری سے جماع کرنا جائز نہیں ہوگا جیسا کہ ایک کے حیض و نفاس اور احرام و روزہ کی وجہ سے دوسری حلال نہیں ہو جاتی یعنی جس طرح اگر ایک بہن حیض وغیرہ کی حالت میں حرام ہو جاتی ہے تو محض اس کی وجہ سے اس کی دوسری بہن حلال نہیں ہو جاتی اسی طرح فقط اتنا کہہ دینا کہ پہلی میرے لئے حرام ہے دوسری کو حلال کر دینے کے لئے کافی نہیں ہے)
اگر کسی شخص نے ان دونوں بہنوں سے جماع کر لیا جو بطور باندی اس کی ملکیت میں تھیں تو اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کے ساتھ جماع نہیں کر سکتا تاوقتیکہ مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق دوسری کو اپنے لئے حرام نہ کر لے۔
اگر کسی شخص نے ان دونوں باندی بہنوں میں سے کہ جو بیک وقت اس کی ملکیت میں تھیں کسی ایک کو فروخت کر دیا لیکن وہ کسی عیب کی وجہ سے لوٹ کر آ گئی یا اس کو ہبہ کر دیا تھا لیکن اپنے ہبہ کو ختم کر کے اسے واپس لے لیا یا اس کا نکاح کر دیا تھا مگر اس کے شوہر نے اس کو طلاق دیدی اور اس کی عدت بھی پوری ہو گئی تو ان صورتوں میں وہ شخص ان میں سے کسی ایک سے بھی جماع نہ کرے تاوقتیکہ دوسری بہن کو اپنے لئے حرام نہ کر لے۔
کسی شخص نے ایک باندی سے نکاح کر لیا اور اس کے ساتھ جماع کرنے سے پہلے اس کی بہن کو خرید لیا تو اس کے لئے خریدی ہوئی باندی سے جنسی لطف حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا کیونکہ فراش یعنی زوجتی کا استحقاق نفس نکاح سے ثابت ہو جاتا ہے اس لئے اگر وہ خریدی ہوئی باندی سے جماع کرے گا تو یہی کہا جائے گا کہ اس نے فراش یعنی زوجیت کا استحقاق) میں دو بہنوں کو جمع کیا اور یہ حرام ہے۔
اگر ایک شخص نے اپنی باندی سے جماع کر لیا اور اس کے بعد اس کی بہن سے نکاح کیا تو یہ نکاح صحیح ہوگا اور جب نکاح صحیح ہو گیا تو اب وہ باندی سے جماع نہ کرے گا اگرچہ ابھی تک منکوحہ سے جماع نہ کیا ہو اور اس منکوحہ سے اس وقت تک جماع نہ کرے جب تک کہ اپنی باندی یعنی منکوحہ کی بہن کو مذکورہ بالا طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ سے اپنے لئے حرام نہ کر لے اور اگر اس نے اپنی باندی کی بہن سے ایسی صورت میں نکاح کیا کہ اس باندی سے جماع نہیں ہوا ہے تو پھر منکوحہ سے جماع کر سکتا ہے۔
اگر کسی شخص نے اپنی باندی سے جماع کے بعد اس کی بہن سے نکاح کیا مگر وہ نکاح کسی وجہ سے فاسد ہو گیا تو محض نکاح سے وہ باندی حرام نہ ہو گی ہاں اگر نکاح کے بعد وہ منکوحہ سے جماع کر لے تو باندی سے جماع کرنا حرام ہو جائے گا ۔
اگر دو بہنوں نے کسی شخص سے یہ کہا کہ ہم نے اتنے مہر کے عوض تمہارے ساتھ اپنا نکاح کیا اور یہ الفاظ دونوں کی زبان سے ایک ساتھ ادا ہوئے اور اس شخص نے ان میں سے ایک کا نکاح قبول کر لیا تو یہ نکاح جائز ہو جائے گا اور اگر پہلے خود اس شخص نے ان دونوں بہنوں سے یہ کہا کہ میں نے تم میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک ہزار روپیہ کے عوض اپنا نکاح کیا اور ان میں سے ایک نے قبول کر لیا اور دوسری نے انکار کر دیا تو دونوں کا نکاح باطل ہوگا۔
اما محمد فرماتے ہیں کہ کسی شخص نے اپنا نکاح کروانے کے لئے ایک آدمی کو اپنا وکیل بنایا اور پھر کسی دوسرے آدمی کو بھی اسی کام کے لئے اپنا وکیل بنا دیا اس کے بعد ان دونوں میں سے ہر ایک وکیل نے ایک ایک عورت سے اس شخص کا نکاح ان عورتوں کی اجازت کئے بغیر کر دیا اور پھر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دونوں عورتیں رضاعی بہنیں ہیں ، نیز ان دونوں وکیلوں کی زبان سے نکاح کے الفاظ ایک ساتھ ادا ہوئے تھے تو اس صورت میں دونوں عورتوں کے نکاح باطل ہوں گے، اسی طرح اگر یہ دونوں نکاح ان عورتوں کی اجازت سے ہوں یا ایک کی اجازت سے اور ایک کی بغیر اجازت تو بھی یہی حکم ہوگا۔
ایک شخص مثلا زید نے دو بہنوں سے نکاح کیا حالانکہ ان میں سے ایک بہن کسی دوسرے شخص کے نکاح میں تھی یا کسی دوسرے شوہر کے طلاق دینے کی وجہ سے ابھی عدت کے دن گزار رہی تھی تو اس صورت میں زید کا نکاح صرف دوسری بہن کے ساتھ صحیح ہوگا۔
اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق رجعی یا ایک طلاق بائن یا تین طلاق دی یا نکاح فاسد ہو جانے کی وجہ سے نکاح فسخ ہو گیا یا شبہ ہو کر کسی عورت سے جماع کر لیا غرضیکہ ان میں سے کسی بھی صورت کے پیدا ہونے کی وجہ سے وہ عورت کہ عدت کے دن گزرا رہی ہو تو اس کے زمانہ عدت میں اس کی بہن سے وہ شخص نکاح نہیں کر سکتا اور جس طرح اس کے زمانہ عدت میں اس کی بہن سے نکاح کرنا جائز نہیں اسی طرح اس کی کسی بھی ایسی رشتہ والی عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں جو اس کے لئے ذوات الارحام میں سے ہو اور دونوں کا بیک وقت کسی ایک کے نکاح میں رہنا حرام ہو (مثلا اس کے زمانہ عدت میں اس کی بھتیجی سے نکاح کرنا جائز نہیں) اور اسی طرح اس کے زمانہ عدت میں اس کے علاوہ مزید چار عورتوں سے نکاح کرنا بھی حلال نہیں ۔
اگر کسی شخص نے اپنی باندی کو جو ام ولد یعنی اس کے بچہ کی ماں تھی آزاد کر دیا تو جب تک اس کی عدت پوری نہ ہو جائے اس کی بہن سے شادی کرنا جائز نہیں ہوگا۔ البتہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کے زمانہ عدت میں اس کے ما سوا چار عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہو گا جب کہ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک اس کے زمانہ عدت میں اس کی بہن سے بھی نکاح کر سکتا ہے ۔
اگر کسی شوہر نے کہا کہ میری مطلقہ بیوی نے بتایا کہ اس کی عدت کے دن پورے ہو گئے ہیں (لہذا میں اس کی بہن سے نکاح کر سکتا ہوں) تو اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ طلاق دیئے ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہے؟ اگر طلاق دیئے ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا ہے جس میں عدت پوری ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں تو شوہر کا قول معتبر نہیں ہوگا اس طرح اس کی مطلقہ بیوی کا یہ کہنا کہ میری عدت پوری ہو گئی ہے قابل اعتبار نہ ہوگا ہاں اگر وہ کوئی ایسی صورت بیان کرے جس میں عدت پوری ہونے کا احتمال ہو جیسے وہ یہ بیان کرے کہ طلاق کے دوسرے دن میرا حمل جس کے اعضاء پورے تھے ساقط ہو گیا ہے تو اس صورت میں اس کا قول معتبر ہو گا ۔ اور طلاق کو اتنا عرصہ گزر چکا ہو کہ اس میں عدت پوری ہونے کا امکان ہو تو اگر عورت اپنے شوہر کے قول کی تصدیق کر دے یا اس مجلس میں موجود نہ ہو تو شوہر کا قول معتبر ہوگا اور اس کیلئے بیک وقت چار دوسری عورتوں سے یا سابقہ بیوی کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہو گا بلکہ حنفی علماء تو یہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں اگر بیوی شوہر کو جھٹلا دے تو بھی شوہر کا قول معتبر ہوگا۔
کسی شخص کی بیوی مرتد ہو کر دار الحرب چلی جائے تو شوہر کے لئے اس کی عدت پوری ہونے سے پہلے اس کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہے جیسا کہ اس کے مر جانے کی صورت میں اس کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہے پھر اگر وہ مرتدہ عورت مسلمان ہو کر دار الحرب سے لوٹے اور اس کا شوہر اس کی بہن سے نکاح کر چکا ہو تو اس کی بہن کا نکاح فاسد نہیں ہوگا اور اگر وہ بہن کے ساتھ نکاح ہونے سے پہلے لوٹے تو حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک تو اس صورت میں بھی وہ شخص اس کی بہن سے نکاح کر سکتا ہے لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد یہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص اس صورت میں اس کی بہن سے نکاح نہیں کر سکتا۔
ایسی دو عورتوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے جو ایک دوسرے کی پھوپھی یا ایک دوسرے کی خالہ ہوں اور اس کی صورت یہ ہے کہ مثلا زید نے عمرو کی ماں سے اور عمرو نے زید کی ماں سے نکاح کیا اور ان دونوں کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوئیں تو ان میں ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کی پھوپھی ہوگی یا یہ کہ مثلا زید نے عمرو کی لڑکی سے اور عمرو نے زید کی لڑکی سے نکاح کیا اور ان کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوئیں تو ان میں سے ہر ایک لڑکی کی خالہ ہوگی اور ان دونوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہوگا۔
اگر کسی شخص نے ایسی دو عورتوں سے نکاح کر لیا جن میں سے ایک تو اس شخص کے لئے حرام تھی خواہ اس کی محرم ہونے کی وجہ سے یا شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اور یا بت پرست ہونے کی وجہ سے اور دوسری عورت ایسی تھی جس سے اس شخص کو نکاح کرنا جائز تھا تو ایسی صورت میں اس کا اس عورت کے ساتھ نکاح صحیح ہوگا جو اس کے لئے حلال تھی اور اس عورت کے ساتھ نکاح باطل ہوگا جو اس کے لئے حرام تھی اور مقرر کردہ کل مہر اسی عورت کو ملے گا جس کے ساتھ نکاح صحیح ہوا ہے یہ حکم امام اعظم ابوحنیفہ کے قول کے مطابق ہے اور اگر اس شخص نے نکاح کے بعد اس عورت سے جماع کر لیا جس کے ساتھ نکاح کرنا اس کے لئے حلال نہیں تھا تو اس کو مہر مثل ملے گا خواہ وہ کسی مقدار میں ہو اور مقرر کردہ کل مہر اس عورت کو ملے گا جس کے ساتھ نکاح کرنا حلال تھا۔
پانچواں سبب مملوکہ ہونا : یعنی وہ باندیاں جن کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے جب کہ پہلے سے آزاد عورت نکاح میں ہو اسی طرح آزاد عورت سے اور باندی سے ایک ساتھ نکاح کرنا بھی حرام ہے۔ مدبر یعنی وہ لونڈی جس سے اس کا آقا کہہ دے کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہو جائے گی) اور ام ولد ( یعنی وہ باندی جس کے پیٹ سے اس کے آقا کا بچہ پیدا ہو) اس کا بھی یہی حکم ہے۔
اگر کسی شخص نے ایک عقد میں ایک آزاد عورت اور ایک باندی سے نکاح کیا تو آزاد عورت کا نکاح صحیح ہوگا اور باندی کا نکاح باطل ہو جائے گا بشرطیکہ وہ آزاد عورت ایسی ہو جس سے نکاح کرنا اس کے لئے جائز تھا اگر وہ آزاد عورت ایسی ہو جس کے ساتھ نکاح کرنا اس کے لئے جائز نہیں تھا جیسے وہ اس کی پھوپھی یا خالہ تھی تو پھر باندی کا نکاح باطل نہیں ہوگا اور اگر کسی شخص نے پہلے باندی سے نکاح کیا اور پھر آزاد عورت سے نکاح کیا تو دونوں کا نکاح صحیح ہوگا۔
اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو جو ایک آزاد عورت ہے طلاق بائن یا تین طلاق دیدیں اور وہ ابھی تک اپنی عدت کے دن گزار رہی تھی کہ اس شخص نے ایک باندی سے نکاح کر لیا تو اس صورت میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا قول تو یہ ہے کہ بانی کا نکاح جائز نہیں ہوگا اور امام ابویوسف وامام محمد یہ فرماتے ہیں کہ جائز ہو جائے گا اور اگر کوئی شخص اپنی بیوی کی طلاق رجعی کی عدت کے دوران کسی باندی سے نکاح کر لے تو اس کے بارے میں متفقہ طور پر یہ مسئلہ ہے کہ اس کا نکاح جائز نہیں ہوگا۔
اگر کسی شخص نے ایک باندی اور ایک ایسی آزاد عورت کے ساتھ نکاح کیا جو نکاح فاسد یا جماع بشبہ کی عدت کے دن گزرا رہی تھی تو باندی کا نکاح صحیح ہو جائے گا ۔
اگر کسی شخص نے اپنی منکوحہ باندی کی طلاق رجعی کی عدت کے دوران کسی آزاد عورت سے نکاح کیا اور پھر اپنی اس منکوحہ باندی سے رجوع کر لیا (یعنی اپنی دی ہوئی طلاق واپس لے کر پھر اسے بیوی بنا لیا) تو یہ جائز ہو گا۔
کسی غلام نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر ایک آزاد عورت سے نکاح کیا اور اس سے جماع بھی کر لیا اور پھر آڑا کی اجازت کے بغیر کسی باندی سے بھی نکاح کر لیا اور اس کے بعد اس کے آقا نے اس کو دونوں سے نکاح کی اجازت دیدی تو اس صورت میں آزاد عورت کا نکاح صحیح اور باندی کا باطل ہو جائے گا ۔
اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کی باندی سے اس کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا لیکن اس کے ساتھ جماع نہیں کیا اور پھر کسی آزاد عورت سے بھی نکاح کر لیا اور اس کے بعد باندی کے مالک نے نکاح کی اجازت دیدی تو اس صورت میں بھی باندی کا نکاح صحیح نہیں ہو گا اور اگر کسی شخص نے ایک باندی سے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اور پھر اس باندی کی لڑکی سے جو آزاد تھی نکاح کر لیا اور اس کے بعد باندی کے مالک نے باندی کے نکاح کی اجازت دیدی تو لڑکی کا نکاح صحیح ہوگا باندی کا نکاح صحیح نہ ہوگا۔
ایک شخص مثلا زید کے ایک بالغہ لڑکی اور ایک بالغہ باندی ہے زید نے کسی شخص سے کہا کہ میں نے دونوں کا نکاح اتنے مہر کے عوض تمہارے ساتھ کر دیا اس شخص نے باندی کا نکاح قبول کر لیا تو یہ نکاح باطل ہوگا اور اگر اس کے بعد اس شخص نے آزاد لڑکی کا نکاح قبول کر لیا تو یہ نکاح جائز ہو جائے گا ۔
اور اگر کوئی شخص آزاد عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود کسی باندی سے نکاح کر لے اور وہ باندی خواہ مسلمان ہو یا اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی) تو نکاح صحیح ہو جائے گا لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ آزاد عورت سے نکاح کرنے استطاعت و قدرت رکھنے کے باوجود باندی سے نکاح کرنا مکروہ ہے۔
اگر کسی شخص نے ایک ہی عقد میں چار باندیوں اور پانچ آزاد عورتوں سے نکاح کیا تو صرف باندیوں کا نکاح صحیح ہوگا۔
چھٹا سبب تعلق حق غیر : یعنی ان عورتوں کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے جن کے ساتھ کسی دوسرے مرد کا حق متعلق ہو ۔ چنانچہ جو عورت کسی کے نکاح میں ہو، یا کسی کی عدت میں ہو اور عدت خواہ طلاق کی ہو یا موت کی یا نکاح فاسد کی کہ جس میں جماع ہو گیا تھا اور یا شبہ نکاح کی تو ایسی عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں۔
اگر کسی شخص نے انجانے میں دوسرے کی منکوحہ عورت سے نکاح کر لیا اور اس کے ساتھ جماع بھی کر لیا تو اب جب کہ ان میں جدائی ہوگی تو عورت پر عدت واجب ہو گی اور اگر وہ شخص جانتا تھا کہ یہ دوسرے کی بیوی ہے تو جدائی کے بعد اس عورت پر عدت واجب نہیں ہوگی اور اس کے خاوند کے لئے اس سے جماع کرنا ناجائز نہیں ہوگا اور اگر اس کا خاوند اسے طلاق دیدے تو صاحب عدت کے لئے زمانہ عدت میں اس سے نکاح کرنا جائز ہوگا بشرطیکہ عدت کے علاوہ اور کوئی مانع موجود نہ ہو۔
جس عورت کو زنا کا حمل ہو اس سے نکاح کرنا جائز ہے لیکن جب تک ولادت نہ ہو جائے خاوند کو اس سے جماع کرنا ناجائز ہے اور اسباب جماع یعنی بوسہ اور مساس وغیرہ بھی ناجائز ہیں اور اگر اس حاملہ زنا سے وہ شخص نکاح کرے جس نے اس کے ساتھ زنا کیا تھا تو اس کا نکاح بھی صحیح ہوگا اور وہ وضع حمل سے قبل جماع بھی کر سکتا ہے اور وہ عورت نفقہ کی مستحق ہوگی۔
ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا کچھ عرصہ بعد میں عورت کا حمل ساقط ہو گیا جس کے اعضاء ظاہر ہو چکے تھے اب اگر یہ اسقاط حمل نکاح سے چار ماہ یا اسے زائد عرصہ بعد ہوا ہے تو نکاح جائز ہوگا اور اگر چار مہینہ سے کم عرصہ میں یہ اسقاط ہوا ہے تو نکاح جائز نہیں ہوگا اس لئے کہ حمل کے اعضاء چار مہینہ سے کم میں ظاہر نہیں ہوتے ( حاصل یہ کہ اگر اسقاط نکاح سے چار ماہ یا اس سے زائد عرصہ کے بعد ہوا ہے اور حمل کے اعضاء ظاہر ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ حمل اسی شخص کا ہے جس نے نکاح کیا ہے اور اگر چار ماہ سے کم عرصہ میں اسقاط ہوا ہے اور حمل کے اعضاء ظاہر ہیں تو پھر یہ احتمال ہوگا کہ وہ عورت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں تھی اور اس کا یہ حمل ہے اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں نکاح صحیح نہیں ہوتا اور ایسی حاملہ عورت جس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ اس کا حمل فلاں شخص کے جائز نطفہ سے ہے تو متفقہ طور پر یہ مسئلہ ہے کہ اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا۔ اور امام ابویوسف نے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر کوئی ایسی عورت ہو جو حربی کافر سے حاملہ ہوئی ہو اور وہ ہجرت کر کے یا باندی بنا کر دار الاسلام میں لائی گئی ہو تو اس سے نکاح کرنا جائز ہے ۔ لیکن جب تک اس کے ہاں ولادت نہ ہو جائے اس سے جماع کرنا جائز نہیں ہوگا۔ امام طحاوی نے اسی قول پر اعتماد کیا ہے لیکن حضرت امام محمد نے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا ایک یہ قول نقل کیا ہے کہ اس صورت میں نکاح جائز نہیں ہوتا اسی پر امام کرخی نے اعتماد کیا ہے اور یہی قول زیادہ صحیح اور قابل اعتماد ہے۔
اگر کسی شخص نے اپنی ام ولد باندی کا نکاح کسی کے ساتھ کر دیا درآنحالیکہ وہ اپنے آقا سے حاملہ تھی تو یہ نکاح باطل ہوگا ہاں اگر وہ حاملہ نہ ہو تو پھر نکاح صحیح ہوگا۔
ایک شخص نے اپنی باندی سے جماع کیا اور اس کے بعد کسی سے اس کا نکاح کر دیا تو نکاح جائز ہو جائے گا لیکن آقا کے لۓ یہ مستحب ہوگا کہ وہ اپنے نطفہ کی حفاظت کی خاطر اس باندی سے استبراء کرائے (یعنی ایک حیض آنے کے بعد اس کو خاوند سے جماع کرانے دے اور جب یہ نکاح جائز ہو گیا تو خاوند کے لئے استبراء کا انتظار کئے بغیر) اس سے جماع کرنا بھی جائز ہوگا۔ یہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام ابویوسف کا قول ہے اور حضرت امام محمد کا یہ قول ہے کہ میں اسے پسند نہیں کرتا کہ اس کا خاوند اس کے استبراء کے بغیر اس سے جماع کر لے ۔ فقیہ ابواللیث فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں حضرت امام محمد کا قول مبنی بر احتیاط ہے اور ہم اسی پر عمل کرتے ہیں لیکن اس مسئلہ میں ائمہ کا یہ اختلاف قول اس صورت میں ہے کہ جب آقا نے باندی کا نکاح استبراء کرائے بغیر کر دیا ہو اور اگر نکاح سے پہلے استبراء ہو چکا تھا یعنی آقا سے مجامعت کے بعد باندی کو ایک حیض آگیا تھا تو اس صورت میں سب کا متفقہ قول یہی ہے کہ خاوند کو استبراء کے بغیر اس سے جماع کرنا جائز ہوگا۔
کسی شخص نے ایک عورت کو زناء کراتے دیکھا اور پھر بعد میں خود اس سے نکاح کر لیا تو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام ابویوسف کے نزدیک اس استبراء سے پہلے بھی اس سے جماع کرنا جائز ہوگا لیکن حضرت امام محمد کا اس صورت میں بھی یہی قول ہے کہ میں اسے پسند نہیں کرتا کہ اس کا خاوند اس سے استبراء کے بغیر جماع کر لے۔ اگر کوئی شخص اپنے لڑکے کی باندی سے نکاح کرلے تو حنفیہ کے نزدیک یہ نکاح جائز ہو جائے گا ۔
اگر کسی عورت کو قید کر کے دار الحرب سے دار الاسلام لایا گیا اور اس کا شوہر ساتھ نہیں ہے تو اس پر عدت واجب نہ ہو گی اور اس سے کوئی بھی شخص نکاح کر سکتا ہے اسی طرح اگر کوئی عورت مسلمان ہو کر دار الحرب سے ہجرت کر کے دار الاسلام آ جائے تو امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق اس پر بھی عدت واجب نہیں ہوگی اور اس سے کوئی بھی شخص نکاح کر سکتا ہے لیکن صاحبین یعنی امام ابویوسف اور امام حمد کے نزدیک اس پر عدت واجب ہوگی۔ جب تک اس کی عدت پوری نہ ہو جائے) اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا لیکن اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس سے جماع کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہوگا جب تک کہ ایک حیض آ جانے کی وجہ سے استبراء نہ ہو جائے۔
سا تو اں سبب اختلاف مذہب : یعنی وہ عورتیں جن کے مشترک ہونے کی وجہ سے ان سے نکاح کرنا حرام ہے چنانچہ آتش پرست اور بت پرست عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہیں خواہ وہ آزاد ہوں یا باندی اور بت پرستوں کے حکم میں وہ عورتیں بھی داخل ہیں جو سورج اور ستاروں کی پرستش کرتی ہیں یا اپنی پسندیدہ تصویروں کی پوجا کرتی ہیں یا یونانی حکماء کے نظریہ کے مطابق اللہ کے بے کار معطل ہونے کا عقیدہ رکھتی ہیں یا زندقہ (یعنی دہریت) میں مبتلا ہیں یا فرقہ باطنیہ اور فرقہ اباحیہ سے تعلق رکھتی ہیں فرقہ باطنیہ سے وہ فرقہ مراد ہے جو قرآن کے باطنی معنی کا عقیدہ رکھتا ہے اور فرقہ اباحیہ سے مراد وہ فرقہ ہے جس کے ہاں دنیا کا ہر کام خواہ وہ اچھا ہو یا برا کرنا جائز ہے ) اسی طرح ہر اس مذہب کو ماننے والی عورت بھی اسی حکم میں داخل ہے جس کو اختیار کرنا کفر کا باعث ہو اسی طرح اپنی اس باندی سے جو آتش پرست مشرکہ ہو جماع کرنا بھی ناجائز ہے۔
مسلمان کو کتابیہ یعنی یہودی یا عیسائی عورت سے جو دار الحرب میں رہتی ہو اور ذمیہ کافرہ یعنی مسلمانوں کے ملک میں خراج دے کر رہنے والی ) عورت سے شادی کرنا جائز ہے خواہ وہ آزاد ہو یا باندی ہو لیکن اولی یہی ہے کہ ان سے بھی شادی نہ کی جائے اور نہ ان کا ذبح کیا ہوا جانور بغیر ضرورت کے کھایا جائے ۔ اگر کسی مسلمان نے کسی یہودی یا عیسائی عورت سے شادی کر لی تو اس کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ اپنی بیوی کو اس کے عبادت خانہ (یعنی گرجا گھر وغیرہ ( نہ جانے دے اور نہ اسے اپنے گھر میں شراب بنانے دے لیکن مسلمان شوہر کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ اپنی عیسائی یا یہودی بیوی کو حیض ونفاس کے منقطع ہونے اور جنابت لاحق ہونے پر غسل کے لئے مجبور کرے۔
اگر کسی مسلمان نے دار الحرب میں کتابیہ حربیہ سے نکاح کر لیا تو اس کا نکاح جائز ہو جائے گا لیکن مکروہ ہو گا اور پھر اس نکاح کے بعد دونوں میاں بیوی دار الاسلام آ جائیں تو دار الحرب میں کیا ہوا نکاح باقی رہے گا۔ ہاں اگر یہ صورت ہو کہ شوہر دار الاسلام آ جائے اور بیوی کو وہیں چھوڑ آئے تو تباین دارین (ملک بدل جانے) کی وجہ سے دونوں میں جدائی ہو جائے گی۔
جو لوگ کسی آسمانی مذہب کے پیروکار ہوں اور ان کے فرقہ کے لے آسمانی کتاب بھی ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت شیث علیہ السلام کے صحیفے اور حضرت داؤد علیہ السلام کی کتاب زبور وغیرہ تو وہ لوگ اہل کتاب میں شمار ہوں گے اور ان کی عورتوں سے مسلمانوں کی شادی بھی جائز ہے اور ان کا ذبح کیا ہوا جانور کھانا بھی حلال ہوگا۔ اگر کسی شخص کے والدین میں سے ایک تو کتابی یعنی یہودی یا عیسائی ہو اور دوسرا آتش پرست ہو تو وہ شخص اہل کتاب میں شمار کیا جائے گا ۔
ایک مسلمان نے کسی کتابیہ عورت سے شادی کی اور پھر وہ عورت اپنا مذہب تبدیل کر کے) آتش پرست ہو گئی تو وہ اپنے مسلمان شوہر کے لئے حرام ہو جائے گی اور دونوں کی شادی کالعدم قرارپائیگی اور اگر یہودی عورت سے شادی کی اور پھر وہ عیسائی ہو گئی یا عیسائی عورت سے شادی کی اور شادی کے بعد وہ یہودی ہو گئی تو اس صورت میں نکاح باقی رہے گا ۔ اس بارے میں اصول وضابطہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ تبدیل مذہب کے وقت یہ دیکھا جائے گا کہ خاوند بیوی میں سے جس نے بھی اپنا مذہب چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب قبول کیا ہے وہ کوئی ایسا مذہب تو نہیں ہے کہ اگر وہ دونوں از سر نو شادی کریں تو اس مذہب کی وجہ سے ان کی شادی جائز نہ ہو سکے ( مثلا آتش پرستی ایسا مذہب ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی آتش پرست عورت سے شادی کرنا چاہے تو اس کے لئے یہ جائز نہیں ہوگا ) چنانچہ اگر وہ مذہب ایسا ہوگا جس کے پیروکار اور مسلمان کے درمیان شادی بیاہ سرے سے جائز ہی نہیں ہوتا تو خاوند و بیوی میں سے جو بھی اپنا مذہب چھوڑ کر اس مذہب کو قبول کرے گا شادی کالعدم ہو جائے گی ۔ اب رہی یہ بات کہ اگر مسلمان خاوند اور یہودی یا عیسائی بیوی میں سے کوئی بھی مجوسیت (یعنی آتش پرستی) اختیار کر لے اور اس کی وجہ سے ان دونوں کی شادی فاسد ہو جائے تو اس کے بعد کیا حکم ہوگا؟ تو اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر شادی کے فاسد ہونے کا سبب عورت بنی ہے یعنی بیوی نے مجوسیت اختیار کر لی ہے تو دونوں کے درمیان جدائی ہو جائے گی اور اسے نہ مہر ملے گا اور نہ متعہ بشرطیکہ اس نے جماع سے پہلے اپنا مذہب تبدیل کیا ہو اور اگر اس نے اس وقت مجوسیت کو اختیار کیا جب کہ اس کا شوہر اس سے جماع کر چکا تھا تو پھر اس کو پورا مہر دیا جائے گا اور اگر شادی کے فاسد ہونے کا سبب مرد بنا ہے یعنی خاوند نے اپنا مذہب چھوڑ کر مجوسیت کو اختیار کر لیا ہے اور خاوند و بیوی میں جدائی ہو گئی ہے تو اسے عورت کو مقررہ مہر کا آدھا دینا ہو گا بشرطیکہ یہ صورت حال جماع سے پہلے ہی واقع ہو چکی ہو اور اگر مہر مقرر نہیں تھا تو متعہ ایک جوڑا کپڑا دینا ہوگا اور اگر جماع کے بعد ایسا ہوا تو پھر اس عورت کو پورا مہر دینا واجب ہوگا۔
جو مسلمان مرتد ہو گیا ہو اس کا نکاح نہ تو کسی مرتدہ سے جائز ہوتا ہے نہ کسی کافرہ سے اور نہ کسی مسلمان عورت سے، اسی طرح جو مسلمان عورت مرتدہ ہو جائے اس کا نکاح بھی کسی کے ساتھ جائز نہیں ہوتا۔
کسی مسلمان عورت کی شادی نہ تو مشرک سے جائز ہوتی ہے اور نہ کتابی یعنی یہودی یا عیسائی سے ۔ بت پرست وآتش پرست عورت کی شادی ہر مشرک و کافر سے صحیح ہو جاتی ہے مگر مرتد کے ساتھ صحیح نہیں ہوتی۔ ذمی کافروں کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرنا جائز ہے اگرچہ ان کے مذاہب مختلف ہوں۔
مسلمان کے لئے اپنی مسلمان بیوی کی موجودگی میں کتابیہ یعنی یہودی یا عیسائی عورت ) سے اور اپنی کتابیہ بیوی کی موجودگی میں مسلمان عورت سے عقد ثانی جائز ہے اور نوبت یعنی شب گزاری کے لئے باری مقرر کرنے کے سلسلے میں دونوں کے حقوق برابر ہوں گے۔
آٹھواں سبب مالک ہونا : یعنی وہ عورتیں جو مالک ہونے کے سبب سے اپنے مملوک غلام کے لئے حرام ہیں ۔ چنانچہ کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے غلام سے نکاح کرے اسی طرح اس کو اس غلام کے ساتھ بھی نکاح کرنا جائز نہیں ہے جو اس کے اور کسی دوسرے شخص کے درمیان مشترک ہو۔ اگر نکاح کے بعد خاوند بیوی میں کوئی بھی ایک دوسرے کے کل یا جزء کا مالک ہو جائے تو نکاح باطل ہو جائے گا ۔
اگر کسی مرد نے اپنی لونڈی سے نکاح کر لیا یا اس لونڈی سے نکاح کیا جس کا وہ جزوی مالک ہے تو یہ نکاح صحیح نہیں ہوگا ۔ لیکن اس بارے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ ہمارے زمانہ میں لونڈی غلاموں کی خرید وفروخت کا بالکل رواج نہیں رہا اور نہ آج کے دور میں وہ شرائط و قیود پائی جاتی ہیں جن کی موجودگی میں لونڈی سے جماع جائز ہوتا ہے اسی لئے بعض علماء لکھتے ہیں کہ اگر کہیں لونڈی رکھنے کا کوئی رواج ہو تو اس سے جماع نہ کرنا چاہئے بلکہ) اس لونڈی سے نکاح کر لینا چاہئے تاکہ اگر واقعۃً لونڈی نہ ہو بلکہ آزاد عورت ہو تو نکاح کی وجہ سے اس سے جماع کرنا جائز ہو جائے
اگر کسی آزاد مرد نے اپنی بیوی کو جو کسی کی باندی ہو شرط خیار کے ساتھ خرید لیا تو اس صورت میں اس کا نکاح باطل نہیں ہوگا۔ یہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا قول ہے۔
نواں سبب طلاق : یعنی وہ عورتیں جو طلاق سے حرام ہو جاتی ہیں چنانچہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو جو آزاد عورت ہو تین طلاق دیدیں تو اس کے بعد اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا ہاں اگر وہ عورت اپنی عدت پوری کر کے) دوسرے کسی مرد سے نکاح کر لے اور دونوں میں مجامعت ہو جائے اور پھر وہ مرد اس کو طلاق دیدے تو عدت گزرنے کے بعد پہلے شوہر کے لئے اس سے نکاح کرنا جائز ہو جاتا ہے اور اگر کسی شخص نے کسی باندی سے نکاح کیا اور پھر اسے دو طلاقیں دیدیں تو اس کے بعد اس سے بھی نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا اور جس طرح اس سے نکاح کرنا جائز نہیں اسی طرح اس کو باندی بنا کر اس سے جماع کرنا بھی درست نہیں ہے۔
ایک شخص نے کسی کی باندی سے نکاح کیا اور پھر طلاق دیدیں اس کے بعد اس کو خرید کر آزاد کر دیا اب اگر وہ اس سے نکاح کرنا چاہے تو وہ اس صورت میں جائز ہوگا کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور وہ مرد اس کے ساتھ جماع کرے اور پھر اس کو طلاق دیدے اور جب عدت کے دن پورے ہو جائیں تو وہ شخص یعنی پہلا شوہر اس سے نکاح کر لے۔

یہ حدیث شیئر کریں