مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان ۔ حدیث 383

دار الحرب سے قید کرکے لائی جانیوالی عورت کا حکم

راوی:

وعن أبي سعيد الخدري : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم يوم حنين بعث جيشا إلى أوطاس فلقوا عدوا فقاتلوهم فظهروا عليهم وأصابوا لهم سبايا فكأن ناسا من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم تحرجوا من غشيانهن من أجل أزواجهن من المشركين فأنزل الله تعالى في ذلك ( والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم )
أي فهن لهم حلال إذا انقضت عدتهن . رواه مسلم

اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے دن ایک لشکر کو اوطاس کی جانب روانہ کیا جو طائف کے قریب واقع ہے ) چنانچہ وہ لشکر دشمنوں سے نبرد آزما ہوا اور جنگ کے بعد ان پر فتح یاب ہوا اور بہت سارے قیدی ان کے ہاتھ لگے ( جن میں عورتیں بھی تھیں اور وہ عورتیں بطور لونڈی مجاہدین کی ملکیت میں آئیں) لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض حضرات نے گویا ان لونڈیوں سے بایں وجہ جماع کرنے سے پرہیز کیا کہ وہ خاوند والی تھیں اور ان کے خاوند مشرک تھے چنانچہ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَا ءِ اِلَّا مَامَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ) 4۔ النساء : 24) ( اور حرام کی گئی ہیں تم پر وہ عورتیں جو خاوند والی ہیں مگر وہ عورتیں تم پر حرام نہیں ہیں جو تمہاری ملکیت میں آ گئی ہوں ۔ یعنی وہ عورتیں جنہیں تم جنگ کے بعد دار الحرب سے بطور باندی پکڑ لائے ہو اور ان کے شوہر دار الحرب میں رہ گئے ہوں وہ عورتیں عدت گزر جانے کے بعد تمہارے لئے حلال ہیں ( مسلم)

تشریح :
مسئلہ یہ ہے کہ جو عورت کسی مرد کے نکاح میں ہو کسی دوسرے مرد کو نہ تو اس سے نکاح کرنا درست ہے اور نہ اسے اپنے تصرف میں لانا جائز ہے ہاں کافروں کی وہ بیویاں جنہیں جنگ و جدل کے بعد دار الحرب سے پکڑ کر لایا جائے اور ان کے خاوند دار الحرب میں رہ گئے ہوں تو ان عورتوں کو ان کی عدت گزر جانے کے بعد اپنے تصرف میں لانا جائز ہے اور یہاں عدت سے مراد استبراء ہے یعنی اگر وہ عورت حاملہ ہو تو جب اس کے ہاں ولادت ہو جائے اور اگر اسے حیض آتا ہو تو جب اسے ایک حیض آ جائے اور اگر اسے حیض نہ آتا ہو تو پھر جب ایک مہینہ گزر جائے تب اس سے جماع کرنا جائز ہوتا ہے۔
اس سلسلہ میں طیبی نے یہ کہا ہے کہ حضرت ابن عباس نے اس آیت کریمہ کے پیش نظر یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ جب کوئی خاوند والی لونڈی فروخت کی جاتی ہے تو اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور جو شخص اسے خریدتا ہے اس کے لئے استبراء کے بعد اسے جماع کرنا جائز ہو جاتا ہے۔ گویا ابن عباس نے اس آیت کے حکم کو عمومیت پر محمول کیا ہے جب کہ اور تمام علماء کا یہ متفقہ مسلک ہے کہ اس کا نکاح نہیں ٹوٹتا ان کے نزدیک یہ آیت ہر خاوند والی لونڈی کے بارے میں نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ صرف ان لونڈیوں کے حق میں نازل ہوئی ہے جو دار الحرب سے پکڑ کر لائی گئی ہوں۔

یہ حدیث شیئر کریں