مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان ۔ حدیث 391

کافر میاں بیوی میں سے کوئی ایک اسلام قبول کرلے تو ان دونوں کا نکاح باقی رہتا ہے یا نہیں؟

راوی:

وعن ابن عباس قال : أسلمت امرأة فتزوجت فجاء زوجها إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : يا رسول الله إني قد أسلمت وعلمت بإسلامي فانتزعها رسول الله صلى الله عليه و سلم من زوجها الآخر وردها إلى زوجها الأول وفي رواية : أنه قال : إنها أسلمت معي فردها عليه . رواه أبو داود
(2/220)

3180 – [ 21 ] ( لم تتم دراسته )
وروي في " شرح السنة " : أن جماعة من النساء ردهن النبي صلى الله عليه و سلم بالنكاح الأول على أزواجهن عند اجتماع الإسلاميين بعد اختلاف الدين والدار منهن بنت الوليد بن مغيرة كانت تحت صفوان بن أمية فأسلمت يوم الفتح وهرب زوجها من الإسلام فبعث النبي صلى الله عليه و سلم إليه ابن عمه وهب بن عمير برداء رسول الله صلى الله عليه و سلم أمانا لصفوان فلما قدم جعل له رسول الله صلى الله عليه و سلم تسيير أربعة أشهر حتى أسلم فاستقرت عنده وأسلمت أم حكيم بنت الحارث بن هشام امرأة عكرمة بن أبي جهل يوم الفتح بمكة وهرب زوجها من الإسلام حتى قدم اليمن فارتحلت أم حكيم حتى قدمت عليه اليمن فدعته إلى الإسلام فأسلم فثبتا على نكاحهما . رواه مالك عن ابن شهاب مرسلا

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اسلام قبول کیا اور پھر اس نے ایک شخص سے نکاح کر لیا اس کے بعد اس کا پہلا شوہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اسلام قبول کر چکا ہوں اور میری اس بیوی کو میرے اسلام قبول کر لینے کا علم تھا (لیکن اس کے باوجود اس نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا) چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو دوسے خاوند سے علیحدہ کر کے پہلے خاوند کے حوالے کر دیا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اس پہلے خاوند نے یہ کہا کہ وہ عورت یعنی میری بیوی جس نے اب دوسرے شخص سے نکاح کر لیا ہے میرے ساتھ ہی مسلمان ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس عورت کو اسی پہلے شوہر کے حوالہ کر دیا (ابوداؤد) اور شرح السنۃ میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ آنحضرت نے ان جیسی بہت سی عورتوں کو ان کے پہلے نکاح کے مطابق ان کے شوہروں کے حوالہ کر دیا تھا ، جن کے شوہر دین اور ملک کے فرق کے بعد ان کے ساتھ اسلام کی صف میں شامل ہو گئے تھے ( یعنی غیر مسلم میاں بیوی میں سے کسی ایک کے اسلام قبول کر لینے کی وجہ سے اور ایک کے دار الاسلام میں اور دوسرے کے دار الحرب میں رہنے کی وجہ سے گویا دونوں کے درمیان مذہبی اور ملکی بعد و اختلاف واقع ہو جاتا تھا مگر جب وہ دوسرا بھی اسلام قبول کر لیتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سابقہ نکاح کو باقی رکھتے ہوئے بیوی کو شوہر کے حوالہ کر دیتے تھے ۔ گویا قبولیت اسلام کے بعد تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی) چنانچہ ان عورتوں میں ایک عورت ولید بن مغیرہ کی بیٹی بھی تھی جو صفوان بن امیہ کی بیوی تھی یہ عورت اپنے شوہر سے پہلے فتح مکہ کے دن مسلمان ہو گئی اور اس کے شوہر نے اسلام سے گریز کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شوہر صفوان بن امیہ کے پاس اس کے چچا کے بیٹے وہب بن عمیر کو اپنی مبارک چادر دے کربھیجا اور اس کو امان عطا کیا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہب کو بطور علامت اپنی چادر دے کربھیجا کہ وہ صفوان کو یہ چادر دکھا کر مطلع کریں کہ قتل و تشدد سے تمہیں امان دی گئی ہے تم بلا خوف آ سکتے ہو) پھر جب صفوان آ گئے تو ان کی سیر کے لئے چار مہینے مقرر کئے گئے ( یعنی انہیں اجازت دی گئی کہ وہ پورے امن وامان کے ساتھ چار مہینے تک مسلمانوں کے درمین گھو میں پھریں تا کہ وہ مسلمانوں کی عادات واطوار کا اچھی طرح مشاہدہ کر لیں چنانچہ وہ چند دنوں تک مسلمانوں کے درمیان گھومتے پھرتے رہے) یہاں تک کہ صفوان بھی اپنی بیوی کے مسلمان ہونے کے دو مہینے بعد) مسلمان ہو گئے۔ اور ولید کی بیٹی جو ان کے نکاح میں تھی ان کی بیوی برقرار رہی ۔ اسی طرح ان عورتوں میں ایک عورت ام حکیم تھیں جو حارث بن ہشام کی بیٹی اور ابوجہل کے بیٹے عکرمہ کی بیوی تھیں انہوں نے بھی فتح مکہ کے دن مکہ میں اسلام قبول کیا اور ان کے خاوند عکرمہ نے اسلام سے گریز کیا اور یمن چلے گئے چنانچہ کچھ دنوں کے بعد ام حکیم بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اپنے خاوند کو راہ راست پر لانے کے لئے) یمن پہنچیں اور انہوں نے اپنے خاوند عکرمہ کو اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی تآنکہ وہ مسلمان ہو گئے اور ان دونوں کا نکاح باقی رہا ۔ اس روایت کو امام مالک نے ابن شہاب سے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

تشریح :
اگر غیر مسلم میاں بیوی میں سے کوئی ایک مسلمان ہو جائے اور دوسرا مسلمان نہ ہو تو ان دونوں کا نکاح باقی رہے گا یا نہیں؟ اس بارے میں مظہر کہتے ہیں کہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں اگر وہ دوسرا کہ جس نے پہلے کے ساتھ اسلام قبول نہیں کیا تھا خواہ وہ بیوی ہو یا خاوند ہو) عدت کے ایام گزرنے سے پہلے اسلام قبول کر لے تو ان کا نکاح باقی رہے گا خواہ ان دونوں کا سابقہ مذہب یکساں رہا ہو مثلا دونوں عیسائی یا یہودی اور یا بت پرست رہے ہوں خواہ دونوں کا سابقہ مذہب یکساں نہ رہا ہو مثلا ایک کا مذہب بت پرستی رہا ہو اور دوسرا عیسائی یا یہودی رہا ہو اسی طرح خواہ وہ دونوں ہی دار الاسلام میں رہنے والے ہوں یا دار الحرب میں اور خواہ ان میں ایک تو دار الاسلام میں رہتا ہو اور دوسرا دار الحرب میں۔
اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں ان دونوں کے درمیان تفریق ان تین وجوہ میں سے کسی ایک وجہ ہی سے ہو سکتی ہے اول یہ کہ عدت کے دن پورے ہو جائیں دوم یہ کہ ان دونوں میں سے جس نے اسلام قبول کر لیا ہے وہ اسلام قبول نہ کرنیوالے کو اسلام کی دعوت دے اور وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کر دے ۔ سوم یہ کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک دار الاسلام سے منتقل ہو کر دار الحرب چلا جائے یا دار الحرب چھوڑ کر دار الاسلام آجائے۔ نیز امام اعظم کے نزدیک ان دونوں میں سے کسی ایک کا اسلام قبول کرنا خواہ مجامعت سے پہلے واقع ہوا ہو یا بعد میں دونوں صورتوں کا یکساں حکم ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں