مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مباشرت کا بیان ۔ حدیث 401

لونڈی آزاد ہونے کے بعد اپنا نکاح فسخ کرسکتی ہے

راوی:

عن عروة عن عائشة : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال لها في بريرة : " خذيها فأعتقيها " . وكان زوجها عبدا فخيرها رسول الله صلى الله عليه و سلم فاختارت نفسها ولو كان حرا لم يخيرها
(2/225)

3199 – [ 2 ] ( صحيح )
وعن ابن عباس قال : كان زوج بريرة عبدا أسود يقال له مغيث كأني أنظر إليه يطوف خلفها في سكك المدينة يبكي ودموعه تسيل على لحيته فقال النبي صلى الله عليه و سلم للعباس : " يا عباس ألا تعجب من حب مغيث بريرة ؟ ومن بغض بريرة مغيثا ؟ " فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " لو راجعته " فقالت : يا رسول الله تأمرني ؟ قال : " إنما أشفع " قالت : لا حاجة لي فيه . رواه البخاري

حضرت عروہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یعنی (حضرت عائشہ) سے بریرہ کے بارے میں فرمایا کہ اسے خرید لو اور پھر اس کو آزاد کر دو اور بریرہ کا خاوند چونکہ غلام تھا اس لئے آنحضرت نے اسے اختیار دے دیا تھا اور بریرہ نے اس اختیار کے مطابق اپنے آپ کو اپنے خاوند سے علیحدہ کر لیا تھا ۔ اور اگر اس کا خاوند آزاد ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے یہ اختیار نہ دیتے ( بخاری ومسلم)

تشریح :
بریرہ کا مذکورہ بالا واقعہ تفصیلی طور پر کتاب البیوع میں گزر چکا ہے یہ بطور لونڈی ایک یہودی کی ملکیت میں تھیں پھر حضرت عائشہ نے ان کو خرید کر آزاد کر دیا تھا چنانچہ بریرہ کی خریداری کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرمایا کہ پہلے اسے اس کے مالکوں سے خرید لو اور پھر اس کو آزاد کر دو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق حضرت عائشہ نے اسے خریدا اور پھر آزاد کر دیا ، بریرہ کا خاوند چونکہ غلام تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو یہ اختیار دیدیا تھا کہ آزاد ہونے کے بعد اگر چاہو تو تم اپنے خاوند کے نکاح میں حسب سابق رہو اور اگر اس کے نکاح میں رہنا نہ چاہو تو اس سے علیحدہ ہو جاؤ، اس اختیار کے پیش نظر بریرہ نے علیحدگی کو اختیار کیا اور اپنے خاوند سے قطع تعلق کر لیا ۔ حدیث کا آخری جملہ (ولو کان حرا) الخ اور اگر اس کا خاوند آزاد ہوتا الخ بظاہر حضرت عروہ کا اپنا قول معلوم ہوتا ہے اور ائمہ ثلثہ یعنی حضرت امام شافعی ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے کہ لونڈی کو آزاد ہونے کے بعد اپنے نکاح کو باقی یا فسخ کرنے کا اختیار اسی صورت میں ہوتا ہے جب کہ اس کا خاوند غلام ہوتا کہ وہ آزاد ہو جانے کے بعد ایک غلام کے نکاح میں رہنے کو عار محسوس نہ کرے، اگر اس کا خاوند غلام نہ ہو تو پھر اسے یہ اختیار حاصل نہیں ہو گا لیکن حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اسے بہرصورت یہ اختیار حاصل ہوتا ہے، خواہ اس کا شوہر غلام ہو یا آزاد ہو ۔ دونوں طرف کے علماء کی دلیلیں فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں ۔ اور اگر میاں بیوی دونوں ایک ساتھ آزاد ہوں تو تمام علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اس صورت میں بیوی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہوتا اسی طرح اگر شوہر آزاد ہو جائے تو اسے اپنا نکاح باقی رکھنے یا فسخ کر دینے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ خواہ اس کی بیوی آزاد ہو یا لونڈی ہو۔
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ بریرہ کا شوہر ایک سیاہ فام تھا جس کو مغیث کہا جاتا تھا میری آنکھوں کے سامنے اب بھی وہ منظر ہے جب وہ بریرہ کے پیچھے پیچھے مدینہ کی گلیوں میں روتا پھرتا تھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک ٹپک کر اس کی داڑھی پر گرتے تھے چنانچہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس سے فرمایا کہ عباس کیا تمہیں اس پر حیرت نہیں ہے کہ مغیث بریرہ کو کتنا چاہتا ہے اور بریرہ مغیث سے کتنا نفرت کرتی ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ سے بھی فرمایا کہ بریرہ کاش تم مغیث سے رجوع کرتیں (یعنی مغیث سے دوبارہ نکاح کر لیتیں) بریرہ نے عرض کیا کہ یا رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ مجھے بطور وجوب اس کا حکم دے رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بریرہ میں تو سفارش کر رہا ہوں یعنی بطور وجوب نہیں بلکہ بطریق استحباب تمہیں حکم دے رہا ہوں بریرہ نے کہا کہ مجھے اس سے رجوع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے (یعنی مجھے اس کے پاس رہنا منظور نہیں ہے) (بخاری)

تشریح :
چونکہ بعض روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مغیث یعنی بریرہ کا شوہر آزد تھا اس لئے اگر اس حدیث کے ابتدائی جملہ کی یہ وضاحت کی جائے کہ مغیث بد صورتی میں ایک سیاہ فام غلام کی مانند تھا یا یہ کہ مغیث پہلے تو غلام تھا جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے لیکن پھر آزاد کیا گیا اور وہ آزاد ہو گیا تو اس صورت میں رواتیوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں رہے گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سردار حاکم کو اپی رعایا سے کسی کے حق میں جائز کام کی سفارش کرنا ایک اچھی بات ہے اسی طرح حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ اپنے سردار حاکم کی سفارش کو قبول کرنا واجب نہیں ہے اور نہ اس سفارش کو نہ ماننے کی وجہ سے اس سے سردار حاکم کو کوئی مؤ اخذہ کرنے کا حق حاصل ہے نیز حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی سے اس کی بدصورتی و بدخلقی کی وجہ سے تعلق نہ رکھنا جائز ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں