مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مباشرت کا بیان ۔ حدیث 402

مملوک خاوند وبیوی کو آزاد کرنا ہو تو پہلے خاوند کو آزاد کیا جائے

راوی:

عن عائشة : أنها أرادت أن تعتق مملوكين لها زوج فسألت النبي صلى الله عليه و سلم فأمرها أن تبدأ بالرجل قبل المرأة . رواه أبو داود والنسائي

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے دو مملوکوں کو آزاد کرنے کا ارادہ کیا جو آپس میں خاوند بیوی تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا آپ نے انہیں عورت سے پہلے مرد کو آزاد کرنے کا حکم دیا (تا کہ عورت کو نکاح کے فسخ کرنے کا اختیار باقی نہ رہے) (ابوداؤد، نسائی)

تشریح :
اگر حضرت عائشہ پہلے عورت کو آزاد کرتیں تو وہ آزاد ہونے کے بعد ایک غلام کے نکاح میں رہتی اس صورت میں اسے یہ اختیار حاصل ہو جاتا کہ اگر وہ چاہتی تو اپنا نکاح باقی رکھتی اور اگر اسے شوہر کے ساتھ رہنا گوارہ نہ ہوتا تو نکاح فسخ کر دیتی ( جیسا کہ ائمہ ثلاثہ کا مسلک ہے اور جس کی تفصیل ابھی پیچھے گزری ہے) چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو پہلے مرد کو آزاد کرنے کا حکم دیا تا کہ یہ اختیار نہ رہے اور مرد کی دل شکنی نہ ہو ۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مرد کو آزاد کرنے کا حکم اس لئے دیا کہ مرد عورت کی بہ نسبت زیادہ کامل اور افضل ہوتا ہے لہذا اس کو مقدم رکھنا چاہئے، یا پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو محسوس کرتے تھے کہ مرد تو لونڈی بیوی کو گوارا کر لیتا ہے لیکن عورت اگر کسی غلام کے نکاح میں ہوتی ہے تو پھر اکثر اس سے بیزار رہتی ہے اور ہمہ وقت ذہنی اذیت وکوفت میں مبتلا رہتی ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مرد کو آزاد کرنے کا حکم دیا تا کہ اس کی بیوی اپنے شوہر کی طرف سے کسی بیزاری میں مبتلا نہ ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں