مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مہر کا بیان۔ ۔ حدیث 405

مہر کی کم سے کم مقدار کیا ہونی چاہئے

راوی:

عن سهل بن سعد : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم جاءته امرأة فقالت : يا رسول الله إني وهبت نفسي لك فقامت طويلا فقام رجل فقال : يا رسول الله زوجنيها إن لم تكن لك فيها حاجة فقال : " هل عندك من شيء تصدقها ؟ " قال : ما عندي إلا إزاري هذا . قال : " فالتمس ولو خاتما من حديد " فالتمس فلم يجد شيئا فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " هل معك من القرآن شيء " قال : نعم سورة كذا وسورة كذا فقال : " زوجتكها بما معك من القرآن " . وفي رواية : قال : " انطلق فقد زوجتكها فعلمها من القرآن "

اور حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ایک دن ایک عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں نے اپنے آپ کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لئے ہبہ کر دیا یہ کہہ کر وہ عورت دیر تک کھڑی رہی یہاں تکہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہی تھے کہ ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ اس عورت کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوں تو اس سے میرا نکاح کر دیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جسے تم اس عورت کو مہر میں دے سکو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ اس تہبند کے علاوہ جسے میں باندھے ہوئے ہوں میرے پاس کوئی اور چیز نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ کوئی چیز ڈھونڈ لاؤ! اگرچہ وہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو ۔ جب صحابی نے بہت تلاش کیا اور انہیں کوئی چیز نہیں ملی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہیں قرآن میں سے کچھ یاد ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن میں سے جو کچھ تمہیں یاد ہے اس کے سبب میں نے تمہارا نکاح اس عورت سے کر دیا ۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ میں نے تمہارا نکاح اس عورت سے کر دیا ۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ میں نے تمہارا نکاح اس عورت سے کر دیا تم اس کو قرآن کی تعلیم دیا کرو (بخاری ومسلم)

تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں یہ حکم تھا کہ اگر کوئی عورت اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہبہ کر دیتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ہبہ کو قبول کر لیتے تھے تو وہ عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حلال ہو جاتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا کچھ مہر واجب نہیں ہوتا تھا ۔ یہ اور کسی کے لئے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جائز تھا اور نہ اب جائز ہے بلکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے تھا یعنی صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے لئے جائز تھا چنانچہ قرآن کریم کی یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے۔
اور اگر کوئی مؤمن عورت اپنے تئیں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ہبہ کر دے یعنی مہر لینے کے بغیر نکاح میں آنا چاہے) اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں تو وہ عورت حلال ہے لیکن اے محمد یہ اجازت صرف آپ ہی کو ہے سب مسلمانوں کو نہیں۔
اس بارے میں فقہی تفصیل یہ ہے کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک بغیر مہر کے لفظ ہبہ کے ذریعہ نکاح کا جواز صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھا یہ کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے جب کہ حنفی مسلک یہ ہے کہ لفظ ہبہ کے ذریعہ نکاح کرنا تو سب کے لئے جائز ہے مگر اس صورت میں مہر کا واجب نہ ہونا صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھا لہذا اگر کوئی عورت اپنے آپ کو کسی شخص کے لئے ہبہ کرے اور وہ شخص اس ہبہ کو قبول کر لے تو اس ہبہ کے ذریعہ دونوں کے درمیان نکاح صحیح ہو جائے گا اور اس شخص پر مہر مثل واجب ہو گا اگرچہ وہ عورت مہر کا کوئی ذکر نہ کرے یا مہر کی نفی ہی کیوں نہ کر دے لہذا حنفی مسلک کے مطابق مذکورہ بالا آیت کے الفاظ (خَالِصَةً لَّكَ) 33۔ الاحزاب : 50) کے معنی ہیں کہ اپنے آپ کو ہبہ کر دینے والی عورت کا مہر واجب ہوئے بغیر حلال ہونا صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے۔
(ولو خاتما من حدید) ( اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو) سے معلوم ہوا کہ ازقسم مال کسی بھی چیز کا مہرباندھنا جائز ہے خواہ وہ چیز کتنی ہی کم تر کیوں نہ ہو بشرطیکہ مرد وعورت دونوں اس پر راضی ہوں چنانچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے اس بارے میں امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک کا جو مسلک ہے وہ ابتدائے باب میں ذکر کیا جا چکا ہے حنفیہ کی دلیل حضرت جابر کی یہ روایت ہے جس کو دارقطنی نے نقل کیا ہے کہ حدیث (لا تنکحوا النساء الا الاکفاء) الخ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کا نکاح ان کے کفو ہی سے کیا جائے گا اور عورتوں کا نکاح ان کے ولی کریں اور دس درہم سے کم مہر کا اعتبار نہیں ہے۔ نیز حنفی مسلک کی تائید دارقطنی اور بیہقی ہی میں منقول حضرت علی کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ دس درہم سے کم کا مہر معتبر نہیں)
حضرت سہیل کی اس روایت کو حنفیہ نے مہر معجل پر محمول کیا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کے مقررہ مہر میں سے کچھ حصہ علی الفور عین جماع کرنے سے پہلے دیدیتے تھے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابی کو بھی یہ حکم فرمایا کہ اگر تمہیں کوئی بھی چیز خواہ وہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو مل جائے تو لے آؤ تا کہ نکاح کے بعد اس عورت کو مہر کے طور پر کچھ نہ کچھ دے سکو۔ اسی بناء پر بعض علماء نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ نکاح کے بعد اپنی بیوی سے اس وقت تک جماع نہ کیا جائے جب تک اس کے مہر میں سے کچھ نہ کچھ اسے دے دیا جائے چنانچہ حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر حضرت زہری اور حضرت قتادہ کا یہی مسلک تھا ان کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت علی نے حضرت فاطمہ سے نکاح کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حضرت فاطمہ کے پاس اس وقت تک جانے سے ممانعت کر دی جب تک کہ وہ حضرت فاطمہ کو ان کے مہر میں سے کچھ نہ دیدیں حضرت علی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس وقت تو میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم فاطمہ کو اپنی زرہ دیدو حضرت علی نے حضرت فاطمہ کو اپنی زرہ دیدی اور اس کے بعد ان کے پاس گئے اور یہ معلوم ہے کہ حضرت فاطمہ کا مہر چار سو مثقال چاندی کا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو اس مقررہ مہر سے ایک زرہ کی بقدر دینے کا حکم دیا تھا لہذا ان حضرات کے نزدیک مقررہ مہر میں سے علی الفور یعنی جماع سے قبل کچھ دیدینا واجب ہے جب کہ حنفیہ کے ہاں یہ مستحب ہے واجب نہیں ہے۔
حدیث کے آخری الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم قرآن کو مہر قرار دیا، چنانچہ بعض ائمہ نے اسے جائز رکھا ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے وہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں یعنی تعلیم قرآن کو مہر قرار دے کے نکاح کر لینے کی صورت میں نکاح تو صحیح ہو جاتا ہے مگر خاوند پر مہر مثل واجب ہوتا ہے اور جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے تو ارشاد گرامی (بما معک) الخ میں حرف با بدل کے لئے نہیں ہے بلکہ سببیت کے اظہار کے لئے ہے یعنی اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ قرآن میں سے جو کچھ تمہیں یاد ہے اس کے سبب میں نے تمہارا نکاح اس عورت سے کر دیا گویا تمہیں قرآن کا یاد ہونا اس عورت کے ساتھ ہوا تھا تو قبولیت اسلام ان کے نکاح کا سبب تھا اسے مہر قرار نہیں دیا گیا تھا۔
تم اس کو قرآن کی تعلیم دیا کرو یہ حکم بطور وجوب نہیں تھا بلکہ بطریق استحباب تھا لہذا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم قرآن کو مہر قرار دیا تھا۔

یہ حدیث شیئر کریں