مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ ولیمہ کا بیان ۔ حدیث 412

ولیمہ کا بیان

راوی:

ولیمہ اس کھانے کو کہتے ہیں جو نکاح میں کھلایا جاتا ہے اور چونکہ ولیمہ مشتق ہے التیام سے جس کے معنی اجتماع کے ہیں اس لئے اس کھانے کو ولیمہ اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ اجتماع زوجین کی تقریب میں کھلایا جاتا ہے ۔
ولیمہ کی شرعی حیثیت اور اس کا وقت
اکثر علماء کے قول کے مطابق ولیمہ مسنون ہے جب کہ بعض علماء اسے مستحب کہتے ہیں اور بعض حضرات کے نزدیک یہ واجب ہے اسی طرح ولیمہ کے وقت کے بارے میں بھی اختلافی اقوال ہیں ۔ بعض علماء تو یہ فرماتے ہیں کہ ولیمہ کا اصل وقت دخول یعنی شب زفاف کے بعد ہے بعض حضرات کا یہ قول ہے کہ ولیمہ عقد نکاح کے وقت کھلانا چاہئے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ عقد نکاح کے وقت بھی کھلانا چاہئے اور دخول کے بعد بھی۔
دو دن سے زیادہ وقت تک ولیمہ کھلانے کے بارے میں بھی علماء کے مختلف قول ہیں ایک طبقہ تو اسے مکروہ کہتا ہے یعنی علماء کے اس طبقہ کے نزدیک زیادہ سے زیادہ دو دن تک کھلایا جا سکتا ہے اس سے زیادہ وقت تک کھلانا مکروہ ہے حضرت امام مالک کے ہاں ایک ہفتہ تک کھلانا مستحب ہے لیکن اس سلسلہ میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کا انحصار خاوند کی حیثیت و استطاعت پر ہے اگر وہ صرف ایک ہی وقت پر اکتفا کرے اور اگر کئی دن اور کئی وقت تک کھلانے کی استطاعت رکھتا ہے تو کئی دن اور کئی وقت تک کھلا سکتا ہے ۔
ضیافت کی قسمیں : مجمع البحار میں لکھا ہے کہ ضیافت یعنی دعوت کی آٹھ قسمیں ہیں ( ولیمہ) (خرس، اعذار، وکیرہ، نقیعہ، وضیمہ، عقیقہ، مادبہ : چنانچہ ولیمہ اس دعوت کو کہتے ہیں جو شادی بیاہ کے موقعہ پر کی جائے ۔خرس اس دعوت کو کہتے ہیں کہ جو بچہ کی پیدائش کی خوشی میں کی جائے اعزار اس دعوت کو کہتے ہیں جو ختنہ کی تقریب میں کی جائے وکیرہ اس دعوت کو کہتے ہیں جو مکان بننے کی خوشی میں کی جائے نقیعہ اس دعوت کو کہتے ہیں جو مسافر کے آنے کی تقریب میں کی جائے عقیقہ اس دعوت کو کہتے ہیں جو بچہ کا نام رکھنے کی تقرب میں کی جائے اور مادبہ ہر اس دعوت کو کہتے ہیں جو بلا کسی خاص تقریب کے کی جائے ضیافت کی یہ تمام قسمیں مستحب ہیں البتہ ولیمہ کے بارے میں بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ دعوت واجب ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں