مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ ولیمہ کا بیان ۔ حدیث 413

ولیمہ کرنے کا حکم۔

راوی:

عن أنس : أن النبي صلى الله عليه و سلم رأى على عبد الرحمن بن عوف أثر صفرة فقال : " ما هذا ؟ " قال : إني تزوجت امرأة على وزن نواة من ذهب قال : " بارك الله لك أولم ولو بشاة "

حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن عوف کے بدن یا کپڑے پر زعفران کا زرد نشان دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے عبدالرحمن نے کہا کہ میں نے ایک نواۃ سونے کے عوض ایک عورت سے نکاح کیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں مبارک کرے تم ولیمہ کرو یعنی کھانا پکوا کر کھلاؤ اگرچہ وہ ایک بکری کا ہو ( بخاری ومسلم)

تشریح :
حضرت عبدالرحمن کے کپڑوں پر یا ان کے بدن پر زعفران کا نشان دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ یہ کیا ہے؟ کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زعفران کے لگنے کا سبب دریافت فرمایا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ مردوں کو خلوق استعمال کرنے سے منع فرماتے تھے (خلوق ایک خوشبو کا نام ہے جو زعفران وغیرہ سے بنتی ہے) اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کے ذریعہ ان کو تنبیہ فرمائی کہ جب مردوں کے لئے یہ ممنوع ہے تو تم نے کیوں لگائی چنانچہ عبدالرحمن نے جواب دیا کہ میں نے قصدًا نہیں لگائی ہے بلکہ دلہن سے اختلاط کی و جہ سے بغیر میرے قصد اور بغیر علم کے لگ گئی ہے۔
قاضی کہتے ہیں کہ جس طرح نش بیس درہم اور اوقیہ چالیس درہم کے برابر وزن کو کہتے ہیں اسی طرح نواۃ پانچ درہم کے برابر وزن کا نام ہے ۔ لہذا ایک نواۃ سونے کے عوض کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اس عورت کا مہر پانی درہم کے برابر یعنی پونے سولہ ماشہ سونا مقرر کیا ہے ۔ بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ نواۃ سے نواۃ تمر یعنی کھجور کی گٹھلی مراد ہے اور بظاہر یہی مراد زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اس صورت میں حضرت عبدالرحمن کے کہنے کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے کھجور کی گٹھلی کے بقدر سونے کا مہر باندھا ہے۔
تم ولیمہ کرنا اگرچہ ایک بکری کا ہو اس طرح کی عبارت تقلیل کم سے کم مقدار بیان کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے اور یہاں تکثیر مراد ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ بیان کرنا تھا کہ اگرچہ زیادہ خرچ ہو تب بھی ولیمہ کرو اور تکثیر مراد لینے کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں بکری کو ایک قلیل ترین مقدار کے اظہار کے لئے ذکر کرنا بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے کیونکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کی مالی اور اقتصادی حالت بہت کمزور تھی لوگ ستو اور اسی قسم کی دوسری کم تر چیزوں کے ذریعہ ولیمہ کی سنت پوری کیا کرتے تھے پھر یہ کہ خود حضرت عبدا لرحمن بن عوف کی مالی حیثیت اس وقت اتنی زیادہ نہیں تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے بکری جیسی چیز کو کم سے کم مقدار کی صورت میں بیان فرماتے۔

یہ حدیث شیئر کریں