مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ ولیمہ کا بیان ۔ حدیث 420

غیر مدعو کو کھانا کھلانا میزبان کی اجازت پر موقوف ہے

راوی:

وعن أبي مسعود الأنصاري قال : كان رجل من الأنصار يكنى أبا شعيب كان له غلام لحام فقال : اصنع لي طعاما يكفي خمسة لعلي أدعو النبي صلى الله عليه و سلم خامس خمسة فصنع له طعيما ثم أتها فدعاه فتبعهم رجل فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " يا أبا شعيب إن رجلا تبعنا فإن شئت أذنت له وإن شئت تركته " . قال : لا بل أذنت له

اور حضرت ابومسعود انصاری کہتے ہیں کہ ایک انصاری صحابی کے ہاں جن کی کنیت ابوشعیب تھی ایک غلام تھا جو گوشت بیچا کرتا تھا ایک دن ان انصاری صحابہ یعنی ابوشعیب نے اپنے اس غلام سے کہا کہ میری ہدایت کے مطابق اتنا کھانا تیار کرو جو پانچ آدمیوں کے لئے کافی ہو کیونکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کروں گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ آدمیوں میں سے ایک ہوں گے ۔ یعنی ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے اور چار آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں گے) چنانچہ اس غلام نے ان کی ہدایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھوڑا سا کھانا تیار کر لیا پھر وہ ابوشعیب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے چار صحابہ کو اس کھانے پر مدعو کیا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے) تو ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر پہنچ کر فرمایا کہ ابوشعیب ایک اور شخص ہمارے ساتھ ہو لیا ہے اگر تم چاہو تو اس کو بھی کھانے پر آنے کی اجازت دے دو ورنہ اس کو دروازہ ہی پر چھوڑ دو اور دستر خوان پر بیٹھنے کی اجازت نہ دو) ابوشعیب نے کہا کہ نہیں اس کو دسترخوان پر بیٹھنے کی اجازت نہ دینا میں مناسب نہیں سمجھتا بلکہ میں اس کو بھی اجازت دیتا ہوں ( بخاری ومسلم)

تشریح :
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ کسی بھی شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کی دعوت میں بن بلائے پہنچ جائے اور اسی طرح کسی مہمان کے لئے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ کسی بن بلائے شخص کو اپنے ساتھ دعوت میں لے جائے ہاں اگر میزبان نے اس بات کی تصریح اجازت دی ہو یا کوئی ایسی دعوت ہوجہاں اذان عام ہو یا مہمان یہ جانتا ہو کہ اگر میں کسی بن بلائے مہمان شخص کو اپنے ساتھ دعوت میں لے گیا تو میزبان کی مرضی کے خلاف نہیں ہو گا تو ان صورتوں میں مدعو کسی غیر مدعو کو اپنے ساتھ دعوت میں لے جا سکتا ہے ۔
اس کے علاوہ اس حدیث سے اور بھی کئی باتیں معلوم ہوئیں اول یہ کہ صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر اس کے گھر میں داخل ہونا جائز نہیں ہے دوم یہ کہ اگر کوئی شخص چند مخصوص آدمیوں کی دعوت کرے اور ان کے ساتھ کوئی بن بلایا شخص بھی ہو لے تو ان مہمانوں کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ صاحب خانہ یعنی میزبان سے اس شخص کے لئے کھانے میں شریک ہونے کی اجازت لے لیں، سوم یہ کہ بن بلائے مہمان کے بارے میں میزبان کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ اس کو دسترخوان پر بیٹھنے سے نہ روکے الاّ یہ کہ اس کی وجہ سے مہمانوں کو کوئی نقصان یا تکلیف پہنچنے کا خوف ہو اور اگر اس کو کھانے میں شریک کئے بغیر واپس کرے تو نرمی کے ساتھ واپس کرے لیکن بہتریہی ہے کہ اس کو کھانے میں سے کچھ دیدے بشرطیکہ وہ اس کا مستحق ہو۔
شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کسی غیر مدعو کو دعوت کے کھانے میں شریک ہونا جائز نہیں ہے اور بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ جب ایک شخص نے کسی کی دعوت کی اور اس کے سامنے کھانا رکھ کر اس کو اس کھانے کا مالک بنا دیا تو اب وہ شخص یعنی مہمان مختار ہے کہ چاہے تو اس کھانے کو خود کھائے چاہے کسی اور کو کھلائے اور چاہے اٹھا کر اپنے گھر لے جائے ہاں اگر یہ صورت ہو کہ میزبان دستر خوان بچھا کر اس پر کھانا چن دے جو اس بات کی علامت ہو کہ اس نے مہمان کو اس کھانے کا مالک نہیں بنایا ہے بلکہ اسے اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ یہیں بیٹھ کر کھائے اور جو کچھ بچ جائے اسے میزبان اٹھا کر لے جائے تو اب مہمان کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ دستر خوان پر بیٹھ کر حسب قاعدہ اور حسب رواج کھانا کھائے نہ تو اس کھانے میں سے کچھ اٹھا کر اپنے گھر لے جائے اور نہ اس میں سے کسی اور کو کھلائے۔
بعض اہل علم نے اس چیز کو بہت اچھا جانا ہے کہ جب ایک دسترخوان پر کچھ لوگ کھانا کھانے بیٹھیں تو دستر خوان پر موجود کھانے کی چیزیں آپس میں ایک دوسرے کے سامنے کرتے رہیں ہاں اگر وہ لوگ دو دستر خوانوں پر بیٹھے ہوں تو ایک دستر خوان کے لوگوں کو دوسرے دستر خوان کے لوگوں کے سامنے اپنے دستر خوان پر بیٹھے ہوں تو ایک دستر خوان کے لوگوں کو دوسرے دستر خوان کے لوگوں کے سامنے اپنے دستر خوان کے کھانے پیش کرنے جائز نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں