مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ باری مقرر کرنے کا بیان ۔ حدیث 429

باری مقرر کرنے کا بیان

راوی:

اگر کسی شخص کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے ساتھ شب باشی کے لئے نوبت باری مقرر کرنا واجب ہے یعنی ان بیویوں کے پاس باری باری سے جانا چاہئے ۔ اس سلسلہ میں چند باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
-1 جب باری مقرر ہو جائے تو ایک بیوی کی باری میں دوسری بیوی کے ہاں شب باشی جائز نہیں ہے مثلا جس رات میں پہلی بیوی کے ہاں جانا ہو اس رات میں دوسری بیوی کے ہاں نہ جائے ۔
-2 ایک رات میں بیک وقت دو بیویوں کے ساتھ شب باشی جائز نہیں ہے اگر وہ دونوں بیویاں اس کی اجازت دیدیں اور وہ خود بھی اس کے لئے تیار ہوں تو جائز ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات میں ایک سے زائد بیویوں سے جماع کیا ہے تو یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب کے باری مقرر کرنا واجب نہیں تھا یا یہ کہ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان بیویوں کی اجازت حاصل تھی اس کے علاوہ حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ باری مقرر کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب نہیں تھا ۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اپنے کرم اور اپنی عنایت سے اپنی ہر زوجہ مطہرہ کے ہاں رہنے کی باری مقرر کر دی تھی۔
-3 سفر کی حالت میں بیویوں کو باری کا حق حاصل نہیں ہوتا اور نہ کسی بیوی کی باری کا لحاظ رکھنا ضروری ہے بلکہ اس کا انحصارخاوند کی مرضی پر ہے کہ وہ جس بیوی کو چاہے اپنے ساتھ سفر میں لے جائے اگرچہ بہتر اولی یہی ہے کہ خاوند اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈال لے اور جس کا نام قرعہ میں نکلے اس کو سفر میں ساتھ رکھے۔
-4 مقیم کے حق میں اصلی باری کا تعلق رات سے ہے دن رات کا تابع ہے ہاں جو شخص رات میں اپنے کام کاج میں مشغول رہتا ہو مثلا چوکیداری وغیرہ کرتا ہو اور اس کی وجہ سے وہ رات اپنے گھر میں بسر نہ کر سکتا ہو تو اس کے حق میں اصل باری کا تعلق دن سے ہو گا ۔
درمختار میں یہ لکھا ہے کہ جس شخص کے ایک سے زائد بیویاں ہوں تو اس پر ان بیویوں کے پاس رات میں رہنے اور ان کے کھلانے پلانے میں برابری کرنا واجب ہے ان کے ساتھ جماع کرنے یا جماع نہ کرنے اور پیار و محبت میں برابری کرنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔
کسی عورت کا جماع سے متعلق اس کے شوہر پر حق ہوتا ہے اور وہ ایک بار جماع کرنے سے ساقط ہو جاتا ہے جماع کرنے کے بارے میں شوہر خود مختار ہے کہ جب چاہے کرے لیکن کبھی کبھی جماع کر لینا اس پر دیانۃً واجب ہے اور مدت ایلاء کے بقدر یعنی چار چار مہینہ تک جماع نہ کرنا خاوند کے لئے مناسب نہیں ہے ہاں اگر بیوی کی مرضی سے اتنے دنوں جماع نہ کرے تو پھر کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ ہر بیوی کے ہاں ایک ایک رات اور ایک ایک دن رہنا چاہئے لیکن برابری کرنا رات ہی میں ضروری ہے چنانچہ اگر کوئی شخص ایک بیوی کے ہاں مغرب کے فورًا بعد چلا گیا اور دوسری بیوی کے ہاں عشاء کے بعد گیا تو اس کا یہ فعل برابری کے منافی ہو گا اور اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ اس نے باری کے حکم کو ترک کیا کسی بیوی سے اس کی باری کے علاوہ یعنی کسی دوسری بیوی کی باری میں ) جماع نہ کرے اسی طرح کسی بیوی کے پاس اس کی باری کے علاوہ کسی رات میں نہ جائے ہاں اگر وہ بیوی بیمار ہو تو اس کی عیادت کے لئے جا سکتا ہے بلکہ اگر اس کا مرض شدید ہو تو اس کی باری کے علاوہ بھی اس کے پاس اس وقت تک رہنا جائز جب تک کہ وہ شفایاب نہ ہو یا اس کا انتقال ہو جائے لیکن یہ اس صورت میں جائز ہے جب کہ اس کے پاس کوئی اور تیمار داری اور غم خواری کے لئے نہ ہو اور اگر خاوند اپنے گھر میں بیماری کی حالت میں ہو تو وہ اپنی ہر بیوی کو اس کی باری میں بلاتا رہے۔

یہ حدیث شیئر کریں