مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ باری مقرر کرنے کا بیان ۔ حدیث 432

کوئی اپنی باری اپنی کسی سوکن کو دے سکتی ہے

راوی:

وعنها أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يسأل في مرضه الذي مات فيه : " أين أنا غدا ؟ " يريد يوم عائشة فأذن له أزواجه يكون حيث شاء فكان في بيت عائشة حتى مات عندها . رواه البخاري

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اس بیماری میں کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی (روزانہ) یہ پوچھا کرتے تھے کہ کل میں کہاں رہوں گا کہ کل میں کس بیوی کے گھر رہوں گا اور اس دریافت کرنے سے آپ کا منشاء یہ معلوم ہوتا تھا کہ عائشہ کی باری کس دن ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بہت زیادہ محبت تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی باری کے شدت سے منتظر رہتے تھے) چنانچہ ازواج مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قلبی اضطراب کو محسوس کیا تو سب نے یہ اجازت دیدی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس کے ہاں چاہیں رہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ ہی کے ہاں مقیم رہے یہاں تک کہ انہیں کے پاس آپ نے وفات پائی (بخاری)

تشریح :
( یرید یوم عائشۃ) ما قبل جملہ کی وضاحت ہے کہ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روزانہ پوچھنا ازواج مطہرات سے طلب اجازت کے لئے تھا کہ تمام ازواج مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ ہی کے ہاں رہنے کی اجازت دیدیں چنانچہ یہ جملہ (فاذن لہ ازواجہ) ازواج مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دیدی اسی بات پر دلالت کرتا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں