مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ باری مقرر کرنے کا بیان ۔ حدیث 438

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نو ازواج مطہرات میں سے آٹھ کے لئے باری مقرر تھی

راوی:

عن عطاء قال : حضرنا مع ابن عباس جنازة ميمونة بسرف فقال : هذه زوجة رسول الله صلى الله عليه و سلم فإذا رفعتم نعشها فلا تزعزعوها ولا تزلزلوها وارفقوا بها فإنه كان عند رسول الله صلى الله عليه و سلم تسع نسوة كان يقسم منهن لثمان ولا يقسم لواحدة قال عطاء : التي كان رسول الله صلى الله عليه و سلم لا يقسم لها بلغنا أنها صفية وكانت آخرهن موتا ماتت بالمدينة
وقال رزين : قال غير عطاء : هي سودة وهو أصح وهبت يومها لعائشة حين أراد رسول الله صلى الله عليه و سلم طلاقها فقالت له : امسكني قد وهبت يومي لعائشة لعلي أكون من نسائك في الجنة

حضرت عطاء بن رباح تابعی کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ مقام سرف میں ام المؤمنین حضرت میمونہ کے جنازہ میں شریک ہوئے تو حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ دیکھو یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں جب تم ان کا جنازہ اٹھاؤ تو اس کو زیادہ حرکت و جنبش نہ دینا بلکہ تعظیم وتکریم کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر) نہایت آہستگی سے اٹھانا اس لئے کہ یہ ان ازواج مطہرات میں سے ہیں جن کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باری مقرر کر رکھی تھی چنانچہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے آٹھ کے لئے باری مقرر کر رکھی تھی اور ایک کے لئے کوئی باری نہیں تھی، حضرت عطاء کہتے ہیں کہ وہ زوجہ حضرت صفیہ تھیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں حضرت صفیہ کا سب سے آخر میں مدینہ میں انتقال ہوا ہے ( بخاری و مسلم) اور رزین کا بیان ہے کہ عطا کے علاوہ دوسرے ائمہ حدیث سے منقول ہے کہ وہ زوجہ مطہرہ جن کے لئے کوئی باری مقرر نہیں تھی ( حضرت صفیہ نہیں تھیں بلکہ) حضرت سودہ تھیں اور یہی قول زیادہ صحیح ہے اور حضرت سودہ کے لئے باری مقرر نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ) انہوں نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ کو دیدیا تھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ) جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ کو طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں اپنی باری کا دن عائشہ کو دیتی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے نکاح میں رہنے دیجئے تا کہ جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں شامل رہنے کا شرف مجھے بھی حاصل رہے ۔

تشریح :
حضرت میمونہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ ہیں حضرت ابن عباس کی خالہ تھیں ان کے والد کا نام حارث تھا ماں کا نام ہندہ تھا خود ان کا نام برہ تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رکھا یہ پہلے مسعود ابن عمرو کے نکاح میں تھیں پھر ابووہم کے ساتھ شادی ہوئی ان کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذی قعدہ سن ٦ھ میں مقام سرف جو مکہ معظمہ سے آٹھ میل کا فاصلہ ہے وہاں ان کا نکاح ہوا یہیں شب زفاف گزری اور اتفاق کی بات کہ اسی مقام سرف میں وفات پائی اور یہیں مدفون ہوئیں۔
جن زوجہ مطہرہ کے لئے باری مقرر نہیں تھی وہ حضرت صفیہ تھیں یا حضرت سودہ اس بارے میں بظاہر دو متضاد روائتیں ہیں لیکن تحقیقی بات یہی ہے کہ وہ حضرت سودہ تھیں بلکہ خطابی نے تو عطاء کے اس قول کو کہ وہ حضرت صفیہ تھیں کے بارے میں یہ کہا ہے کہ کسی راوی کی چوک ہے یعنی حضرت عطاء نے تو یہاں حضرت سودہ ہی کہا تھا مگر کسی راوی کی چوک سے حضرت صفیہ نقل ہو گیا ۔
وکانت اخرہن موتا ماتت بالمدینۃ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں حضرت صفیہ کا سب سے آخر میں مدینہ میں انتقال ہوا ہے توضیح سے پہلے یہ جان لیجئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کس زوجہ مطہرہ کا انتقال کب ہوا ہے صاحب مواہب نے لکھا ہے کہ حضرت صفیہ کا انتقال سن ٥٠ھ کے ماہ رمضان میں ہوا ہے اور بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ ان کا انتقال حضرت معاویہ
کے زمانہ سن ٥٢ یا٥٥ ہجری میں ہوا ہے اور بقیع میں مدفون ہوئیں ہیں حضرت میمونہ کا انتقال ٥١ ہجری میں ہوا اور بعض علماء کے قول کے مطابق ٦٦یا سن ٦٣ہجری میں ہوا ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مدینہ میں ٥٧ ہجری میں وفات پائی جب کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ ان کی وفات سن٥٨ میں ہوئی ہے ۔ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سن ٥٤ ہجری میں، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سن ٥٠ یا بعض علماء کے قول کے مطابق ٤١ ہجری میں ، حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سن ٥٩ ہجری میں ، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سن ٤٤ ہجری یا بعض علماء کے قول کے مطابق ٤٣ ہجری ، حضرت زینب بنت جحش نے سن ٢٠ہجری میں اور حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سن ٥٠ ہجری میں انتقال کیا ہے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہجرت سے پہلے ہی مکہ میں ہو گیا تھا اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہی وفات پا گئی تھیں۔
اب اس تفصیل کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ کہنا کہ " حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سب سے آخر میں انتقال ہوا ہے ، صحیح نہیں ہے اور اگر لفظ کانت کی ضمیر کا مرجع حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو قرار دیا جائے تو بھی بات صحیح نہیں ہوتی کیونکہ اگر بعض علماء کے قول کے مطابق حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سن وفات سن٦٦ ہجری یا ٦٣ہجری زیادہ صحیح تسلیم کر لیا جائے تو ازواج مطہرات میں ان کا سب سے آخر میں انتقال ہونا تو ثابت ہو جائے گا مگر یہ بات خود اسی عبارت کے اگلے جملے ماتت باالمدینہ کے مطابق نہیں ہو گی کیونکہ اس بارے میں حدیث نے وضاحت کر دی ہے کہ ان کا انتقال مقام سرف میں ہوا ہے ۔ لہٰذا اس عبارت کا صحیح مفہوم متعین کرنا بڑا مشکل ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس عبارت میں کیا مفہوم پوشیدہ ہے اور اس کا صحیح مطلب کیا ہے؟

یہ حدیث شیئر کریں