مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ لعان کا بیان ۔ حدیث 477

اختیارکا مسئلہ

راوی:

وعن عائشة قالت : خيرنا رسول الله صلى الله عليه و سلم فاخترنا الله ورسوله فلم يعد ذلك علينا شيئا

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیدیا تھا کہ اگر تم دنیا اور دنیا کی زینت وآسائش کی طلبگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کر چھوڑ دوں اور اگر تم اللہ ، اللہ کے رسول اور دارآخرت کی طلبگار ہو تو پھر جان لو کہ تمہارے لئے اللہ کے ہاں بے شمار اجر عظیم ثواب ہے) چنانچہ ہم نے دنیا اور دنیا کی زینت وآسائش کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کر لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اختیار کو ہمارے لئے طلاق کی اقسام میں کوئی قسم جیسے ایک ایک طلاق یا دو طلاقی یا رجعی یا بائن) کچھ بھی اختیار نہیں کیا (بخاری ومسلم)

تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے یوں کہے کہ اپنے نفس کو اختیار کر لو یا مجھے اختیار کر لو اور پھر بیوی خاوند کو اختیار کر لے تو اس سے کسی طرح کی طلاق واقع نہیں ہوتی چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور امام شافعی کا یہی مسلک ہے۔ لیکن اگر بیوی اپنے نفس کو اختیار کر لے تو اس صورت میں حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کے نزدیک طلاق رجعی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک طلائق بائن اور حضرت امام مالک کے نزدیک تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں۔
منقول ہے کہ صحابہ میں سے امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس بات کے قائل تھے کہ بیوی کو شوہر کے محض اختیار دے دینے ہی سے طلاق رجعی واقع ہو جاتی ہے خواہ وہ اپنے شوہر ہی کو کیوں نہ اختیار کر لے۔
اور حضرت زید ابن ثابت اس بات کے قائل تھے کہ طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے چنانچہ حضرت عائشہ نے ان دونوں ہی کے اقوال کی تردید میں یہ حدیث بیان کر کے گویا یہ واضح کر دیا کہ شوہر کے محض اختیار دینے سے کوئی بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

یہ حدیث شیئر کریں