مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ عدت کا بیان۔ ۔ حدیث 525

زمانہ عدت میں سوگ کرنے کا حکم

راوی:

وعن أم حبيبة وزينب بنت جحش عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تحد على ميت فوق ثلاث ليال إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا "
(2/256)

3331 – [ 8 ] ( متفق عليه )
وعن أم عطية أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " لا تحد امرأة على ميت فوق ثلاث إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا ولا تلبس ثوبا مصبوغا إلا ثوب عصب ولا تكتحل ولا تمس طيبا إلا إذا طهرت نبذة من قسط أو أظفار " . متفق عليه . وزاد أبو داود : " ولا تختضب "

اور حضرت ام حبیبہ اور حضرت زینب بنت جحش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بھی عورت اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے ہاں اپنے شوہر کا سوگ چار مہینے دس دن تک کیا کرے ( بخاری ومسلم)

تشریح :
سوگ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بناؤ سنگھار ترک کر دے اور خوشبو وسرمہ وغیرہ لگانے سے پرہیز کرے چنانچہ یہ سوگ کرنا کسی دوسری میت پر تو تین دن سے زیادہ جائز نہیں ہے ۔ لیکن اپنے شوہر کی وفات پر چار مہینے دس دن تک یعنی ایام عدت میں سوگ کرنا واجب ہے۔
اب رہی یہ بات کہ چار مہینہ دس دن یعنی عدت کی مدت کی ابتداء کب سے ہوگی تو جمہور علماء کے نزدیک اس مدت کی ابتداء خاوند کی موت کے بعد سے ہوگی لیکن حضرت علی اس کے قائل تھے کہ عدت کی ابتداء اس وقت سے ہو گی جس وقت کہ عورت کو خاوند کے انتقال کی خبر ہوئی ہے لہذا اگر کسی عورت کا خاوند کہیں باہر سفر وغیرہ میں مر گیا اور اس عورت کو اس کی خبر نہیں ہوئی یہاں تک کہ چار مہینے دس دن گزر گئے تو جمہور علماء کے نزدیک عدت پوری ہوگئی جب کہ حضرت علی کے قول کے مطابق اس کی عدت پوری نہیں ہوگی بلکہ اس کو خبر ہونے کے وقت سے چار مہینے دس دن تک عدت میں بیٹھنا ہوگا۔
اور حضرت ام عطیہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی عورت کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ کرے ہاں اپنے شوہر کے مرنے پر چار مہینے دس دن تک سوگ کرے اور ان ایام یعنی زمانہ عدت میں عصب کے علاوہ نہ تو کوئی رنگین کپڑا پہنے نہ سرمہ لگائے اور نہ خوشبو لگائے البتہ حیض سے پاک ہوتے وقت تھوڑا سا قسط یا اظفار استعمال کرے تو قباحت نہیں ( بخاری ومسلم)

تشریح :
رنگین کپڑے سے مراد وہ کپڑا ہے جو کسم ، زعفران اور گیرو وغرہ کے تیز اور شوخ رنگ میں رنگا گیا ہو اور عام طور پر زینت و آرائش کے طور پر پہنا جاتا ہو اور کتاب کافی میں لکھا ہے کہ اگر کسی عورت کے پاس رنگین کپڑوں کے علاوہ اور کوئی کپڑا نہ ہو تو وہ رنگین کپڑا بھی پہن سکتی ہے کیونکہ اس کی سترپوشی بہرحال زیادہ ضروری ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ان رنگین کپڑوں کو زیب و زینت کے مقصد سے استعمال نہ کرے۔
عصب اس زمانہ میں ایک خاص قسم کی چادر کو کہتے تھے جو اس طور پر بنی ہوتی تھی کہ پہلے سوت کو جمع کر کے ایک جگہ باندھ لیتے تھے پھر اس کو کسم میں رنگتے تھے اور اس کے بعد اس کو بنتے تھے چنانچہ وہ سرخ رنگ کی ایک چادر ہو جاتی تھی جس میں سفید دھاریاں بھی ہوتی تھیں کیونکہ سوت کو باندھ کر رنگنے کی وجہ سے سوت کا وہ حصہ سفید رہ جاتا تھا جو بندھا ہوا ہوتا تھا ۔
اس سے بھی معلوم ہوا کہ عدت والی عورت کو رنگین کپڑا پہننے کی جو ممانعت ہے اس کا تعلق اس کپڑے سے ہے جو بننے کے بعد رنگا گیا ہو تو اس کا پہننا بھی درست ہے۔
علامہ ابن ہمام حنفی یہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء حنفیہ کے نزدیک عدت والی عورت کو عصب کا پہننا بھی درست نہیں ہے حضرت امام شافعی کے نزدیک عدت والی عورت کو عصب پہننا جائز ہے خواہ وہ موٹا ہو یا مہین ہو جب کہ حضرت امام مالک مہین عصب کو پہننے سے منع کرتے ہیں موٹے عصب کو منع نہیں کرتے۔
سرمہ لگانے کے سلسلہ میں ائمہ کے جو اختلافی اقوال ہیں وہ پیچھے حضرت ام سلمہ کی روایت کے ضمن میں بیان کئے جا چکے ہیں علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ حنفی مسلک کے مطابق عدت والی عورت کو مجبوری کی حالت میں سرمہ لگانا جائز ہے ویسے جائز نہیں ہے۔
قسط اور اظفار یہ دونوں ایک قسم کی خوشبو ہیں قسط تو عود کو کہتے ہیں جس عام طور پر عورتیں یا بچے دھونی لیتے ہیں کرمانی نے کہا ہے کہ قسط عود ہندی کو کہتے ہیں جسے اگر یا کوٹ کہا جاتا ہے۔
اظفار ایک قسم کا عطر ہوتا تھا یہ دونوں خوشبوئیں اس زمانہ میں عام طور پر عرب کی عورتیں حیض سے پاک ہوتے وقت بدبو دور کرنے کے لئے شرمگاہ میں استعمال کرتی تھیں ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عدت والی عورت کو خوشبو استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن حائضہ کو حیض سے پاک ہوتے وقت بدبو دور کرنے کے لئے ان دونوں خوشبوؤں کے استعمال کی اجازت دے دی۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس عورت کا خاوند مر گیا ہو اس پر عدت کے زمانہ میں سوگ کرنا واجب ہے چنانچہ اس پر تمام علماء کا اجماع واتفاق ہے البتہ سوگ کی تفصیل میں اختلافی اقوال ہیں۔
حضرت امام شافعی اور جمہور علماء تو یہ کہتے ہیں کہ خاوند کی وفات کے بعد ہر عدت والی عورت پر سوگ کرنا واجب ہے خواہ وہ مدخول بہا ہو یعنی جس کے ساتھ جماع ہو چکا ہو یا غیر مدخول بہا ہو ( یعنی جس کے ساتھ جماع نہ ہوا ہو) خواہ چھوٹی ہو یا بڑی خواہ باکرہ ہو یا ثیبہ خواہ آزاد ہو یا لونڈی اور خواہ مسلمہ ہو یا کافرہ۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک سات قسم کی عورتوں پر سوگ واجب نہیں ہے جس کی تفصیل درمختار کے مطابق یہ ہے کہ
(١) کافرہ (٢) مجنونہ (٣) صغیرہ (٤) معتدہ عتق یعنی وہ ام ولد جو اپنے مولیٰ کی طرف سے آزاد کئے جانے یا اپنے مولیٰ کے مر جانے کی وجہ سے عدت میں بیٹھی ہو (٥) وہ عورت جو نکاح فاسد کی عدت میں بیٹھی ہو (٦) وہ عورت جو وطی بالشبہ کی عدت میں بیٹھی ہو یعنی جس سے کسی غیر مرد نے غلط فہمی میں جماع کر لیا ہو اور اس کی وجہ سے عدت میں بیٹھی ہو (٧) وہ عورت جو طلاق رجعی کی عدت میں بیٹھی ہو ۔
جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ خاوند کے علاوہ کسی کے مرنے پر عورت کو تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں ہے اور تین دن تک بھی صرف مباح ہے واجب نہیں ہے چنانچہ اگر تین دنوں میں بھی خاوند سوگ کرنے سے منع کرے تو اس کو اس کا حق ہے کیونکہ بیوی کے بناؤ سنگار کا تعلق خاوند کے حق سے ہے اگر تین دنوں میں خاوند کی خواہش یہ ہو کہ وہ سوگ ترک کر کے بناؤ سنگار کرے اور بیوی خاوند کا کہنا نہ مانے تو اس بات پر بیوی کو مارنا خاوند کے لئے جائز ہے کیونکہ سوگ کرنے میں خاوند کا حق فوت ہو جاتا ہے۔
سوگ کے احکام و مسائل
جس عورت کو طلاق رجعی ملی ہو اس کی عدت تو فقط اتنی ہی ہے کہ وہ مقررہ مدت تک گھر سے باہر نہ نکلے اور نہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اس کے لئے بناؤ سنگھار وغیرہ درست ہے اور جس عورت کو جو مکلفہ مسلمہ یعنی بالغ و عاقل اور مسلمان ہو تین طلاقیں مل گئیں یا ایک طلاق بائن یا اور کسی طرح سے نکاح ٹوٹ گیا یاخاوند مر گیا تو ان سب صورتوں میں اس کے لئے یہ حکم ہے کہ جب تک عدت میں رہے تب تک نہ تو گھر سے باہر نکلے نہ اپنا دوسرا نکاح کرے اور نہ بناؤ سنگھار کرے یہ سب باتیں اس پر حرام ہیں۔ اس سنگھار نہ کرنے اور میلے کچیلے رہنے کو سوگ کہتے ہیں۔
جب تک عدت ختم نہ ہو تب تک خوشبو لگانا کپڑے بسانا زیور گہنا پہننا پھول پہننا سرمہ لگانا پان کھا کر منہ لال کرنا مسی مسلنا سر میں تیل ڈالنا کنگھی کرنا مہندی لگانا اچھے کپڑے پہننا ریشمی اور رنگے ہوئے بہار دار کپڑے پہننا یہ سب باتیں ممنوع ہیں۔ ہاں مجبوری کی حالت میں اگر ان میں سے کوئی چیز اختیار کی گئی تو کوئی مضائقہ نہیں مثلا سر میں درد ہونے کی وجہ سے تیل ڈالنے کی ضرورت پڑے تو بغیر خوشبو کا تیل ڈالنا درست ہے اسی طرح دوا کے لئے سرمہ لگانا بھی ضرورت کے وقت درست ہے۔
جس عورت کا نکاح صحیح نہیں ہوا تھا بلکہ بے قاعدہ ہو گیا تھا اور وہ فسخ کرا دیا گیا یا خاوند مر یا تو ایسی عورت پر سوگ کرنا واجب نہیں ہے۔ اسی طرح جو عورت عتق یعنی آزادی کی عدت میں ہو جیسے ام ولد کو اس کا مولیٰ آزاد کر دے اور وہ اس کیوجہ سے عدت میں بیٹھی ہو تو اس پر سوگ کرنا واجب نہیں ہے۔
جو عورت عدت میں بیٹھی ہو اس کے پاس نکاح کا پیغام بھیجنا جائز نہیں ہے ہاں نکاح کا کنایۃ یعنی یہ کہنا کہ میں اس عورت سے نکاح کرنے کی خواہش رکھتا ہوں یا اس سے نکاح کرنے کا میں ارادہ رکھتا ہوں جائز ہے، مگر یہ بھی اس صورت میں جائز ہے کہ جب کہ وہ عورت وفات کی عدت میں بیٹھی ہو اگر طلاق کی عدت میں بیٹھی ہو تو یہ بھی جائز نہیں ہے۔
جو عورت طلاق کی عدت میں بیٹھی ہو اس کو تو کسی بھی وقت گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے ہاں جو عورت وفات کی عدت میں بیٹھی ہو وہ دن میں نکل سکتی ہے اور کچھ رات تک نکل سکتی ہے مگر رات اپنے گھر سے علاوہ دوسری جگہ بسر نہ کرے لونڈی اپنے آقا کے کام سے گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔
معتدہ (عدت والی عورت) کو اپنی عدت کے دن اسی مکان میں گزارنے چاہئیں جس میں وہ فسخ وطلاق یا خاوند کی موت کے وقت سکونت پذیر ہو ہاں اگر اس مکان سے زبردستی نکالا جائے اس مکان میں اپنے مال واسباب کے ضائع ہونے کا خوف ہو یا اس مکان کے گر پڑنے کا خطرہ ہو اور یا اس مکان کا کرایہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو ان صورتوں میں کسی دوسرے مکان میں عدت بیٹھنا جائز ہے۔
اسی طرح اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ میاں بیوی ایک ہی مکان میں رہیں اگرچہ وہ طلاق بائن کی عدت میں بیٹھی ہو بشرطیکہ دونوں کے درمیان پردہ حائل رہے ہاں اگر خاوند فاسق اور ناقابل اعتماد ہو یا مکان تنگ ہو تو عورت اس گھر سے منتقل ہو جائے اگرچہ خاوند کا منتقل ہونا اولی ہے اور اگر میاں بیوی کے ایک ہی مکان میں رہنے کی صورت میں وہ دونوں اپنے ساتھ کسی ایسی معتمد عورت کو رکھ لیں جو دونوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے پر قادر ہو تو بہت ہی اچھا ہے۔
اگر مرد عورت کو اپنے ساتھ سفر میں لے گیا اور پھر سفر کے دوران اس کو طلاق بائن یا تین طلاقیں دیدیں یا مرد مر گیا اور عورت کا شہر یعنی اس کا وطن اس جگہ سے کہ جہاں طلاق یا وفات واقع ہوئی ہے سفر شرعی یعنی تین دن کے سفر سے کم مسافت پر واقع ہو تو وہ اپنے شہر واپس آ جائے اور اگر اس مقام سے جہاں طلاق یا وفات ہوئی ہے اس کا شہر سفر شرعی ( یعنی تین دن کی مسافت) کے بقدر یا اس سے زائد فاصلہ پر واقع ہے اور وہ منزل مقصود (جہاں کے لئے سفر اختیار کیا تھا) اس مسافت سے کم فاصلہ پر واقع ہے تو اپنے شہر واپس آنے کی بجائے منزل مقصود چلی جائے اور ان دونوں صورتوں میں خواہ اس کا ولی اس کے ساتھ ہو یا ساتھ نہ ہو لیکن بہتر یہ ہے کہ وہ عورت طلاق یا وفات کے وقت کسی شہر میں ہو تو وہاں سے عدت گزارے بغیر نہ نکلے تو کسی محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد یہ فرماتے ہیں کہ اگر اس کا کوئی محرم اس کے ساتھ ہو تو پھر عدت سے پہلے بھی اس شہر سے نکل سکتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں