مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قصاص کا بیان ۔ حدیث 622

جس شخص نے کلمہ پڑھ لیا وہ معصوم الدم ہوگیا

راوی:

وعن أسامة بن زيد قال : بعثنا رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى أناس من جهينة فأتيت على رجل منهم فذهبت أطعنه فقال : لا إله إلا الله فطعنته فقتلته فجئت إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأخبرته فقال : " أقتلته وقد شهد أن لا إله إلا الله ؟ " قلت : يا رسول الله إنما فعل ذلك تعوذا قال : " فهلا شققت عن قلبه ؟ "
(2/285)

3451 – [ 6 ] ( صحيح )
وفي رواية جندب بن عبد الله البجلي أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " كيف تصنع بلا إله إلا الله إذا جاءت يوم القيامة ؟ " . قاله مرارا . رواه مسلم

اور حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں قبیلہ جہینہ کے لوگوں کے مقابلہ پر بھیجا چنانچہ ( ان کے مقابلہ کے دوران ) میں ایک شخص پر جھپٹا اور اس پر نیزہ کا حملہ کرنا چاہا کہ اس نے (لاالہ الا اللہ) کہہ دیا لیکن میں نے اس میں اپنا نیزہ پیوست کر کے اس کو قتل کر دیا ۔ پھر جب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا اور آپ سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (صد افسوس) کہ تم نے اس صورت میں قتل کر دیا جب کہ اس نے (لاالہ الا اللہ) پڑھ تھا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا اس نے محض قتل سے بچنے کے لئے کلمہ پڑھا تھا ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھا لیا تھا؟ ۔ اور جندب ابن عبداللہ بجلی نے جو روایت نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب قیامت کے دن کلمہ (لا الہ الا اللہ) اپنے پڑھنے والے یعنی (مقتول ) کی طرف سے جھگڑتا ہوا تمہارے پاس آئے گا تو اس وقت تم اس کو کیا جواب دو گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (خوف دلانے کے لئے ) یہ الفاظ کئی بار ارشاد فرمائے ۔" (مسلم)

تشریح :
تو تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا ؟ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد اس شخص کے باطن کے مطابق فرمایا کہ اگر تم اس شخص کے باطن پر مطلع ہو سکتے تھے تو تم اس کا دل چیر کر دیکھ لیتے اور یہ معلوم کرتے کہ آیا اس شخص نے محض اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانے کے کلمہ (لا الہ الا اللہ) پڑھا تھا یا واقعۃ یہ کلمہ اس کے قلب کے صدق اخلاص کے ساتھ اس کی زبان سے نکلا تھا! لیکن ظاہر ہے کہ تم نہ اس کے دل کو چیر کر اس کے باطن کو دیکھ سکتے تھے اور نہ فوری طور پر اس کے باطن کا حال کسی اور ذریعہ سے تمہیں معلوم ہو سکتا تھا اس لئے معقول بات تو یہ تھی کہ تم اس کے ظاہر پر حکم لگاتے یعنی اس کے کلمہ پڑھ لینے کی وجہ سے اس کو مؤمن سمجھ لیتے اور اس کو قتل کرنے سے باز رہتے ۔ ادھر حضرت اسامہ نے یہ گمان کیا کہ ایسی حالت میں جب میرا نیزہ موت بن کر اس کے سر پر پہنچ چکا ہے اب اس کا ایمان قبول کرنا فائدہ مند نہیں ہے اس لئے انہوں نے اس شخص کا کام تمام کر دیا ، یہ گویا ان کا اجتہاد تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر یہ تو ظاہر فرما دیا کہ تم سے اجتہادی خطاء ہو گئی ہے لیکن ان پر دیت لازم نہیں کی کیوں کہ مجتہد اپنی خطاء اجتہاد میں معذور ہوتا ہے ہاں اس بات کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہر حال اپنی خفگی کا بھی اظہار فرمایا کہ اس کی اصل حیثیت وحقیقت ظاہر ہونے تک تم پر توقف لازم تھا لیکن تم نے توقف نہ کر کے اپنے اجتہاد پر عمل کیا ۔

یہ حدیث شیئر کریں