مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ دیت کا بیان ۔ حدیث 655

مختلف اعضاء جسم کی دیت

راوی:

وعن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كتب إلى أهل اليمن وكان في كتابه : " أن من اعتبط مؤمنا قتلا فإنه قود يده إلا أن يرضى أولياء المقتول " وفيه : " أن الرجل يقتل بالمرأة " وفيه : " في النفس الدية مائة من الإبل وعلى أهل الذهب ألف دينار وفي الأنف إذا أوعب جدعه الدية مائة من الإبل وفي الأسنان الدية وفي الشفتين الدية وفي البيضين الدية وفي الذكر الدية وفي الصلب الدية وفي العينين الدية وفي الرجل الواحدة نصف الدية وفي المأمومة ثلث الدية وفي الجائفة ثلث الدية وفي المنقلة خمس عشر من الإبل وفي كل أصبع من أصابع اليد والرجل عشر من الإبل وفي السن خمس من الإبل " . رواه النسائي والدارمي وفي رواية مالك : " وفي العين خمسون وفي اليد خمسون وفي الرجل خمسون وفي الموضحة خمس "
(2/294)

3493 – [ 8 ] ( لم تتم دراسته )
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال : قضى رسول الله صلى الله عليه و سلم في المواضح خمسا خمسا من الإبل وفي الأسنان خمسا خمسا من الإبل . رواه أبو داود والنسائي والدارمي وروى الترمذي وابن ماجه الفصل الأول

اور حضرت ابوبکر ابن محمد ابن عمر و ابن حزم اپنے والد (حضرت محمد بن عمرو ) سے اور وہ ابوبکر کے دادا (حضرت عمرو ابن حزم ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہل یمن کے پاس ایک ہدایت نامہ بھیجا جس میں لکھا ہوا تھا کہ جو شخص قصدًا کسی مسلمان کو ناحق مار ڈالے (یعنی قتل عمد کا ارتکاب کرے ) تو اس کے ہاتھوں کے فعل کا قصاص ہے ( یعنی اس نے اپنے ہاتھوں کے فعل اور تقصیر کے ذریعہ جو قتل عمد کیا ہے اس کی سزا میں اس کو بھی قتل کر دیا جائے ) الاّ یہ کہ مقتول کے ورثاء راضی ہو جائیں (یعنی اگر مقتول کے وارث قاتل کو معاف کر دیں یا اس سے خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں تو اس کو قتل نہ کیا جائے ) اس ہدایت نامہ میں یہ بھی تھا کہ (مقتول ) عورت کے بدلے میں (قاتل ) مرد کو قصاص میں قتل کیا جائے " اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ " جان کا خون بہا سو اونٹ ہیں (یعنی جس کے پاس اونٹ ہوں وہ خون بہا میں مذکورہ تفصیل کے مطابق سو اونٹ دے ) اور جس کے پاس سونا ہو وہ ایک ہزار دینار دے ، اور ناک کی دیت (جب کہ وہ سب توڑے گئے ہوں ) پوری دیت (یعنی ایک سو اونٹ کی تعداد ہے اور پیٹھ کی ہڈی توڑے جانے کی پوری دیت ہے اور عضو خاص کے کاٹے جانے کی بھی پوری دیت ہے اور دونوں آنکھوں کو پھوڑ دینے کی بھی پوری دیت ہے ، اور ایک پیر کاٹنے پر آدھی دیت ہے اور سر کی جلد زخمی کرنے پر تہائی دیت ہے اور پیٹ میں زخم پہنچانے پر بھی تہائی دیت ہے اور اس طرح مجروح کرنے پر کہ ہڈی اپنی جگہ سے سرک گئی ہو پندرہ اونٹ دینے واجب ہیں ، اور ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں میں سے ہر ایک انگلی (کاٹنے ) پر دس اونٹ دینے واجب ہیں ، اور ہر ہر دانت کا بدلہ پانچ پانچ اونٹ ہیں ۔ (نسائی ، درامی ) اور امام مالک کی روایت میں یہ الفاظ ہیے کہ ایک آنکھ (پھوڑنے کی دیت پانچ اونٹ ہیں اور ایک ہاتھ اور ایک پیر کی دیت پچاس پچاس اونٹ ہیں اور ایسا زخم پہنچانے کی دیت جس میں ہڈی نکل آئی یا ظاہر ہو گئی ہو پانچ اونٹ ہیں

تشریح :
" جان کا خون بہا سو اونٹ ہیں " کا مطلب یہ ہے کہ اگر قتل عمد کے مرتکب کو مقتول کے وارث قصاص میں قتل نہ کرنا چاہیں بلکہ اس سے دیت یعنی خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں تب دیت واجب ہو گی لیکن قتل شبہ عمد اور قتل خطاء کا مرتکب سرے سے قصاص کا سزاوار ہوتا ہی نہیں بلکہ اس پر صرف دیت واجب ہوتی ہے ۔ دیت اونٹ کے ذریعہ بھی ادا کی جا سکتی ہے اور جن کے پاس سونا ہو وہ ایک ہزار دینار اور جن کے پاس چاندی ہو وہ دس ہزار درہم کے ذریعہ بھی دیت کی ادائیگی کر سکتے ہیں ۔ لیکن یہاں قیاس پر اکتفا کرتے ہوئے چاندی کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جس کا مطلب قطعًا نہیں کہ اگر اونٹ اور سونے کے علاوہ چاندی کے ذریعہ دیت دی جائے تو وہ مقبول ومحسوب نہیں ہوگی بلکہ مراد یہ ہے کہ مقتول کے روثاء اور قاتل کے درمیان جس چیز پر اتفاق ہو جائے اسی کو بطور دیت لیا دیا جائے جس کے پاس اونٹ ہوں اور وہ اونٹ دینا چاہے اس سے اونٹ لے لئے جائیں اور جو زر نقد دینا چاہے اس سے زر نقد لے لیا جائے ۔
اس سلسلہ میں جہاں تک فقہی مسئلہ کا تعلق ہے تو درہم اور دینار کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آیا دیت میں درہم ودینار قبول کئے جا سکتے ہیں یا نہیں ؟ چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد کا قول یہ ہے کہ اگر دینے والے کے پاس اونٹ موجود ہوں لیکن وہ زر نقد کی صورت میں دیت ادا کرنا چاہتا ہو تو اس سے زر نقد لینا جائز ہے لیکن حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ اونٹوں کی موجودگی میں زر نقد دے کر اونٹوں سے عدول نہ کیا جائے ہاں اگر طرفیں راضی ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں ۔
" اور دونوں آنکھوں کو پھوڑنے کی بھی پوری دیت ہے " ملحوظ رہے کہ قطع اعضاء (اعضاء جسم کو کاٹنے یا نقصان پہنچانے کی دیت کے سلسلہ میں اصل ضابطہ یہ ہے کہ اگر اعضاء جسم کی جنس منفعت بالکل ختم کر دی جائے یا اس کی موزونیت اور خوبصورتی کو بالکل زائل کر دیا جائے جو جسم انسانی میں مقصود ہے تو ایسی صورت میں پوری دیت واجب ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک طرح کا جانی نقصان ہے جسے انسانی عظمت کی وجہ سے مکمل جانی کا درجہ دیا جاتا ہے ، اس سے بڑھ کر اصل یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مخصوص اعضاء کی کہ جن کی نقصان سے انسان کے جمال وکمال میں فرق آ جاتا ہے اور آدمی کی عظمت تخلیق مجروح ہوتی ہے ، جیسے ناک ، زبان اور آنکھیں وغیرہ ان کی پوری دیت دینے کا حکم فرمایا ہے ، پھر اس اصل سے اور بہت سے فروعی مسائل کا استنباط کیا جاتا ہے ۔ منقول ہے کہ حضرت عمر نے ایک ایسے شخص پر چار دیتیں واجب کی تھیں جس نے ایک شخص کو اگرچہ ایک ہی زخم پہنچایا تھا مگر اس ایک زخم کی وجہ سے اس کی عقل ، اس کی سماعت ، اس کی بصارت اور اس کی بول چال یعنی چاروں چیزیں زائل ہو گئی تھیں ، نیز یہ مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی داڑھی مونڈ ڈالے اور پھر وہ اس کی وجہ سے مونڈنے والے پر دیت لازم ہوگی کیونکہ اس نے اپنی اس حرکت سے چہرہ انسانی کے جمال وموزونیت کو ختم کر دیا ، اسی طرح سر کے بال کا بھی یہی مسئلہ ہے ۔

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ایسے زخموں کی دیت جس میں ہڈی ظاہر ہو جائے پانچ پانچ اونٹ ہیں اور دانتوں کی (یعنی ہر ہر دانت ) کی دیت بھی پانچ پانچ اونٹ ہیں۔ (ابو داؤد ، نسائی ، دارمی) ترمذی اور ابن ماجہ نے (اس حدیث کا ) پہلا جزو (یعنی جس میں زخموں کی دیت بیان کی گئی ہے ) نقل کیا ہے ۔"

تشریح :
اگر یہ سوال پیدا ہو کہ جب سب دانتوں کی پوری دیت سو اونٹ ہیں تو ایک دانت کی دیت پانچ اونٹ کیسے ہوئے کیونکہ سب دانتوں کی تعداد بتیس یا اٹھائیس ہوتی ہے اور اس اعتبار سے ایک دانت کی دیت تو کچھ زیادہ تین اونٹ ہونی چاہئے ؟ اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ شارع نے جتنے احکام نافذ کئے ہیں عقل ان سب کا ادراک واحاطہ کر لے بہت سے احکام ایسے ہیں جن میں عقل کے دخل کا کام نہیں ، چنانچہ یہ مسئلہ بھی ایسا ہی ہے کہ جو حکم شارع کے بھی مطابق ہیں اور عقلی بھی ہیں جیسے آنکھوں کی دیت کا معاملہ ہے کہ دونوں آنکھوں کی دیت پوری ہے اور ایک آنکھ کی دیت آدھی ہے حاصل یہ کہ ہر حکم اور ہر مسئلہ کی بنیاد بس شارع کا حکم ہے جو بھی حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرنا ہی عقل کا سب سے بڑا تقاضہ ہونا چاہئے ۔

یہ حدیث شیئر کریں