مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ دیت کا بیان ۔ حدیث 658

قتل خطاء کی دیت

راوی:

وعن خشف بن مالك عن ابن مسعود قال : قضى رسول الله صلى الله عليه و سلم في دية الخطأ عشرين بنت مخاض وعشرين ابن مخاض ذكور وعشرين بنت لبون وعشرين جذعة وعشرين حقة " . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي والصحيح أنه موقوف على ابن مسعود وخشف مجهول لا يعرف إلا بهذا الحديث وروى في شرح السنة أن النبي صلى الله عليه و سلم ودى قتيل خيبر بمائة من إبل الصدقة وليس في أسنان إبل الصدقة ابن مخاض إنما فيها ابن لبون

اور حضرت خشف ابن مالک ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ کہا " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاء کی دیت یہ مقرر فرمائی کہ بیس اونٹنیاں وہ ہوں جو دوسرے سال میں لگی ہوں اور بیس اونٹ وہ ہوں جو دوسرے سال میں لگے ہوں ، اور بیس اونٹنیاں وہ ہوں جو تیسرے سال میں لگی ہوں اور بیس اونٹنیاں وہ ہوں جو پانچویں سال میں لگی ہوں ۔ (ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی )
اس حدیث کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ حضرت ابن مسعود پر موقوف ہے یعنی ان کا اپنا قول ہے اور (اس کے راوی ) خشف ایک غیر معروف راوی ہیں جو صرف اس حدیث کے ذریعہ پہنچانے جاتے ہیں (یعنی اس کے علاوہ اور کوئی روایت ان سے منقول ہی نہیں ) بغوی نے شرح السنۃ میں یوں نقل کیا ہے کہ " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی دیت میں کہ جو خیبر میں قتل کر دیا گیا تھا (اور جس کا تفصیلی واقعہ باب القسامت میں بیان ہوگا ) زکوۃ میں آئے ہوئے اونٹوں میں سے سو اونٹ دیئے تھے اور زکوۃ کے ان اونٹوں میں کوئی اونٹ ایک سال کا نہیں تھا بلکہ دو دو سال کے تھے ۔ "

تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قتل خطاء کی دیت میں جو سو اونٹ دیئے جائیں وہ پانچ طرح کے ہونے چاہئیں ، چنانچہ اس بارے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن ان کی تقسیم میں البتہ اختلاف ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک میں تو وہ سو اونٹ اس طرح کے دیئے جاتے ہیں جس طرح اس حدیث میں مذکور ہیں ، لیکن امام شافعی کے مسلک میں اتنا سا فرق ہے کہ بیس ابن مخاض (پورے ایک سال کے بیس اونٹ ) کی بجائے بیس ابن لبون (پورے دو سال کے بیس اونٹ ) ہیں ۔ اس اعتبار سے یہ حدیث حضرت امام شافعی کے خلاف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی دلیل ہے چنانچہ شوافع کی طرف سے اس حدیث میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس کا جواب ملا علی قاری نے بڑی عمدگی سے دیا ہے اہل علم ان کی کتاب " مرقات " میں دیکھ سکتے ہیں ، ان کے جوابات کے خلاصہ کے طور پر یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ شخص کی جو دیت دی تھی وہ بطریق وجوب یا بطور حکم نہیں تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض از راہ احسان دی تھی ۔
آخر میں بغوی کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس کا مقصود پہلی روایت کی تردید ہے جس میں ابن مخاض کا اثبات ہے اور بغوی کی روایت میں ابن لبون کا اثبات ہے اور گویا یہ حضرت امام شافعی کے مسلک کی دلیل ہے ، ملاعلی قاری اس کا جواب بھی بڑی عمدگی کے ساتھ لکھا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں