مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ دیت کا بیان ۔ حدیث 668

پیٹ کے بچہ کی دیت

راوی:

وعن سعيد بن المسيب : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قضى في الجنين يقتل في بطن أمه بغرة عبد أو وليدة . فقال الذي قضى عليه : كيف أغرم من لا شرب ولا أكل ولا نطق ولا استهل ومثل ذلك يطل . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إنما هذا من أخوان الكهان " . رواه مالك والنسائي مرسلا

اور حضرت سعید ابن مسیب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ کے بچہ کی دیت جو مارا جائے ایک غرہ یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی مقرر فرمائی ۔" جس شخص پر یہ دیت واجب کی گئی تھی اس نے عرض کیا کہ اس شخص کا تاوان کس طرح بھروں جس نے کوئی چیز پی اور نہ کھائی ہو اور نہ بولا نہ چلایا ، اس قسم کا قتل تو ساقط کیا جاتا ہے " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس شخص کی یہ بات سن کر حاضرین سے ) فرمایا کہ " اس کے علاوہ اور کیا کہا جائے کہ یہ شخص کاہنوں کا بھائی ہے " ۔ (امام مالک اور امام نسائی نے تو اس روایت کو بطریق ارسال (یعنی راوی صحابی کا ذکر کئے بغیر ) نقل کیا ہے لیکن ابوداؤد نے حضرت سعید سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بطریق اتصال نقل کیا ہے ۔"

تشریح :
" کاہن " اس شخص کو کہتے ہیں جو غیب دانی کا دعوی کرتا ہے اور لوگوں کی غیب کی باتیں بتاتا ہے اور وہ لوگوں کو فریفتہ کرنے کے لئے اپنی جھوٹی اور غلط سلط باتوں کو مسجع اور مقفی عبارتوں کے ساتھ بیان کرتا ہے ۔ حدیث میں مذکورہ شخص نے بھی چونکہ اپنے ایک غلط خیال کو بڑے مسجع اور مقفی الفاظ کے ذریعہ پیش کیا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مناسبت سے اس کو کاہنوں کا بھائی فرمایا ورنہ تو جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے مطلق مسجع ومقفی عبارتیں بذات خود مذموم نہیں ہیں بلکہ انسان کے کلام کی فصاحت وبلاغت اور قابلیت کا پر تو ہوتی ہیں چنانچہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز بیان اور آپ کا کلام بڑی مسجع ومقفی عبارتوں سے مزین ہوتا تھا ۔ بطور خاص آپ سے جو دعائیں منقول ہیں ان کے الفاظ کی جامعیت مسجع ومقفی عبارتوں کی بہترین مثال ہیں جیسے یہ دعا ہے (اللہم انی اعوذ بک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع) الخ اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس علم سے جو نافع نہ ہو اور اس قلب سے جو ترساں نہ ہو الخ حاصل یہ کہ وہ مسجع عبارت مذموم ہے جو بہ تکلف زبان وقلم سے ادا ہو اور جس کا مقصد باطل کو رواج دینا ہو جیسا کہ مذکورہ شخص نے کہا ۔
شمنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ مسئلہ کے بارے میں فقہی مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی حاملہ کے پیٹ پر مارے اور اس کی وجہ سے اس کے پیٹ کا بچہ مردہ ہو کر باہر آ جائے تو اس کی دیت میں غرہ یعنی پانچ سو درہم مارنے والے کے عاقلہ پر واجب ہوں گے وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء نے " غرہ " سے مراد پانچ سو درہم لئے ہیں اور وہ اس لئے اکثر روایتوں میں غرہ کی توضیح یہی کی گئی ہے اور اگر حاملہ کے پیٹ مارنے کی وجہ سے زندہ بچہ باہر آ جائے اور پھر مر جائے تو اس صورت میں پوری دیت واجب ہو گئی ۔

یہ حدیث شیئر کریں