مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان ۔ حدیث 690

مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان

راوی:

وہ موجبات کفر جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے ہے
وہ شخص کافر ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی ایسے وصف کی نسبت کرے جو اس کی شان کے لائق نہیں ، یا کسی کو اس کا شریک یا بیٹا اور یا بیوی ٹھہرائے ، یا اس کی طرف جہل کی یا عجز کی یا کسی اور خرابی کی نسبت کرے ۔ یہ کہنے والا بھی کافر ہے کہ " یہ جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا کام کرے جس میں کوئی حکمت نہ ہو" جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ کفر پر راضی ہوتا ہے تو وہ کافر ہے ۔ اور کوئی شخص یوں کہے کہ " اگر اللہ تعالیٰ مجھے یہ کام کرنے کا حکم دے تو میں جب بھی یہ کام کروں " تو وہ کافر ہو جائے گا ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی طرف جو " ید " اور" وجہ " کی نسبت کی گئی ہے درآنحالیکہ وہ جارحہ نہیں ، تو کیا کسی دوسری زبان میں ان چیزوں کا اطلاق جائز ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں بعض علماء نے فرمایا کہ جائز ہے بشرطیکہ ان چیزوں سے (ان کے حقیقی مفہوم یعنی ) اعضاء مردانہ ہوں ، اور اکثر علماء یہ فرماتے ہیں کہ جائز نہیں اور یہی معتمد علیہ قول ہے ۔
اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ " فلاں شخص میری آنکھ میں ایسا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں یہودی ، تو جمہور علماء کے نزدیک وہ شخص کافر ہو جائے گا (کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف آنکھ کے اصل معنی یعنی ایک انسانی عضو کی نسبت کی ہے ) لیکن بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اگر اس جملہ سے کہنے والے کی مراد اس فلاں شخص کے افعال کی برائی کو ظاہر کرنا مقصود ہو تو کافر نہیں ہوگا ۔
ایک انسان کی وفات ہوگئی ایک دوسرے شخص نے کہا کہ اللہ کو ایسا نہیں چاہئے تھا ۔ تو یہ کفر ہے ۔
ایک شخص نے اپنے دشمن سے کہا کہ " میں اللہ کے حکم سے تیرے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہوں " دشمن نے جواب میں کہا کہ " میں اللہ کا حکم نہیں جانتا یا یہ کہا کہ اس جگہ اللہ کا حکم نہیں چلتا یا یہ کہا کہ ۔ اس جگہ کوئی حکم نہیں ۔ یا یہ کہا کہ اللہ حکم کرنے کے لائق نہیں ہے یا یہ کہا کہ اس جگہ تو دیودہی کا حکم چلے گا یہ سب جملے کفر کو لازم کرتے ہیں ۔
حاکم عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو یہ کہے کہ " فلاں کام رواج کے مطابق کررہا ہوں اللہ کے حکم سے نہیں کرتا " تو کیا ایسا شخص کافر ہوجائے گا ؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر اس جملہ سے اس مراد صرف فساد حق ، ترک شریعت ، اور اتباع رسم ہے نہ کہ اس کا مقصد اللہ کے حکم کو رد کرنا ہے تو وہ کافر نہیں ہوگا ۔
اگر کوئی شخص کسی ایسے آدمی کے بارے میں جو کبھی بیمار نہ ہوتا ہو یہ کہے کہ " اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھول گیا ہے " یا یہ کہا کہ یہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ بھول گیا ہے " تو یہ کفر ہے جائے گا کسی شخص نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ " تم تو اللہ تعالیٰ سے زیادہ محبوب ہو" تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ یہ کہنا کہ " فلاں شخص بری تقدیر میں پھنس گیا ہے " خطائے عظیم ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے لئے مکان کو ثابت کرنا کفر ہے چنانچہ اگر کوئی شخص یوں کہے کہ " اللہ تعالیٰ سے کوئی مکان خالی نہیں ہے " تو وہ کافر ہو جائے گا ۔ اور اگر کسی نے یوں کہا کہ " اللہ تعالیٰ آسمان پر ہے " تو دیکھا جائے گا کہ یہ بات اس نے کس مقصد سے کہی ہے ، اگر اس کا مقصد اس چیز کی حکایت کرنا ہے جو ظاہری طور پر منقول ہے تو کافر نہیں ہوگا اور اگر اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنا ہے تو پھر وہ کافر ہو جائے گا ۔ اور اکثر علماء کے نزدیک اگر اس کی نیت کچھ بھی نہ ہو تو بھی کافر ہو جائے گا ۔ اسی طرح یہ کہنے والا بھی کافر ہو جائے گا ۔ کہ " اللہ تعالیٰ انصاف کے لئے بیٹھا یا اللہ تعالیٰ انصاف کے لئے کھڑا ہوا " کیونکہ اس جملہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف فوق اور تحت کی نسبت کی گئی ہے ۔ یہ کہنا بھی کفر ہے کہ " (میرا حامی ومددگار ) آسمان پر اللہ ہے اور زمین پر فلاں شخص ہے ۔
اکثر علماء کے نزدیک یہ کہنا بھی کفر ہے کہ " اللہ آسمان پر سے نیچے دیکھ رہا ہے " یا صرف یہ کہا کہ " اللہ آسمان پر سے دیکھ رہا ہے ۔ یا یہ کہا کہ " اللہ عرش پر سے دیکھ رہا ہے" ۔
جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی طرف ظلم کی نسبت کی وہ کافر ہو گیا ۔ اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ " اے اللہ !یہ ظلم مت پسند کر " تو بعض علماء کے نزدیک وہ کافر ہو جائے گا ۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص سے یوں کہا کہ " اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے انصاف کیا تو مجھے تم سے انصاف ملے گا " تو وہ کافر ہو جائے گا ۔ ہاں لفظ " اگر " کی بجائے " جس وقت " کہا تو وہ کافر نہیں ہوگا ۔ اور اگر کسی سے یوں کہا کہ " اگر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن حق اور عدل کے ساتھ حکم کیا تو میں تم سے اپنا حق لے لوں گا " کافر ہو جائے گا ۔
اگر کسی نے یوں کہا کہ " اے اللہ ! جب ایک ظالم ظلم کرتا ہے تو اس کا ظلم قبول مت کر، اگر تو نے اس کا ظلم قبول کیا تو میں قبول نہیں کروں گا " یہ کفر ہے کیونکہ اس شخص نے گویا یہ کہا کہ اے اللہ ! اگر تو اس کے ظلم پر راضی ہوگا تو میں راضی نہیں ہونگا ۔
ایک شخص نے کسی سے کہا کہ " جھوٹ مت کہو " اس شخص نے جواب میں کہا کہ " جھوٹ کس لئے ہے ، کہنے ہی کے لئے تو ہے " یہ کفر ہے ۔
کسی شخص سے کہا گیا کہ " اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرو " اس نے کہا کہ " مجھے نہیں چاہئے " یا کسی نے کہا کہ " اگر اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کرے ، غارت کروں " یا کسی سے کہا گیا کہ " اللہ تعالیٰ کی نافرمانی مت کرو کیونکہ اگر تم نافرمانی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دوزخ میں داخل کرے گا " اس نے کہا کہ " میں دوزخ سے نہیں ڈرتا " یا کسی سے یہ کہا کہ " زیادہ مت کھاؤ ، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہیں دوست نہیں رکھے گا " اس نے کہا کہ " میں تو کھاؤں گا چاہے دشمن رکھے چاہے دوست رکھے " یہ باتیں کفر کو لازم کرتی ہیں ۔ اسی طرح اگر کسی سے یہ کہا گیا کہ " زیادہ مت ہنسو ۔ یا زیادہ مت سوؤ " اس کے جواب میں اس نے کہا کہ" میں اتنا کھاؤں گا ، اتنا سوؤں گا اور اتنا ہنسوں گا کہ جتنا چاہوں گا " یہ کفر ہے ۔
ایک شخص سے یہ کہا کہ " گناہ مت کرو کیونکہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے " اس نے کہا کہ " میں عذاب کو ایک ہاتھ پر اٹھا لوں گا " یہ کفر ہے ۔
اگر کسی شخص سے یہ کہا گیا کہ " اپنے ماں باپ کو مت ستاؤ " اس نے کہا کہ " ان کا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے " یہ اگرچہ کفر نہیں ہے لیکن سخت گناہ کی بات ہے ۔ ایک شخص نے ابلیس لعین سے کہا کہ " اے ابلیس ! تو میرا فلاں کام کر دے تا کہ میں تیرا کہنا مانوں اور اپنے ماں باپ کو ستاؤں اور تو جس چیز سے منع کرے اس سے باز رہوں " یہ کفر ہے ۔
اگر کسی شخص نے کسی سے یہ کہا کہ " اگر اللہ یہ دونوں جہاں نہ بناتا تو میں تم سے اپنا حق لے لیتا " یہ کفر ہے ۔ ایک شخص نے کوئی جھوٹی بات کہیں اور ایک سننے والے نے کہا کہ " میرا اللہ تمہارے اس جھوٹ کو سچ کر دے۔ یا یہ کہا کہ تمہارے اس جھوٹ کے ساتھ برکت دے ۔ " تو یہ کفر کے قریب ہے اسی طرح ایک شخص نے جھوٹ بولا اور سننے والے نے کہا کہ " اللہ تمہارے جھوٹ میں برکت دے " تو وہ کافر ہوگیا ۔
ایک شخص نے کسی سے کہا کہ " فلاں شخص تمہارے ساتھ سیدھا نہیں چلتا " اس نے جواب میں کہا کہ " اس کے ساتھ تو اللہ بھی سیدھا نہیں چلے گا " تو یہ کہنے والا کافر ہوگیا ۔
اگر کسی نے یہ کہا کہ " اللہ تعالیٰ زر کو محبوب رکھتا ہے اس لئے مجھے زر نہیں دیا " تو وہ کافر ہو جائے گا ۔ بشرطیکہ اس کے کہنے سے اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف بخل کی نسبت کرنا ہو۔ ہاں صرف اتنا کہنا کفر کو لازم نہیں کرتا کہ " اللہ تعالیٰ زر کو پسند نہیں کرتا ہے " ۔
ایک شخص نے کسی سے کہا کہ " انشاء اللہ تم یہ فلاں کام کرو " اس نے جواب دیا کہ " میں ان شاء اللہ کے بغیر یہ کام کروں گا " تو یہ کفر ہے ۔
ایک مظلوم نے کہا کہ " (میرے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ) تقدیر الہٰی کے مطابق ہے " ظالم نے یہ سن کر کہا کہ " میں جو کچھ کر رہا ہوں تقدیر الہٰی کے بغیر کر رہا ہوں " یہ کفر ہے ۔ اگر کسی نے یہ کہا کہ " اے اللہ ! مجھ پر رحمت کرنے سے دریغ نہ کیجئے " تو یہ کفر یہ الفاظ میں سے ہے ۔
میاں بیوی آپس میں گفتگو کر رہے تھے (بیوی کی طرف سے ) جب گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا تو میاں نے کہا کہ " اللہ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو " بیوی نے جواب میں کہا کہ " میں اللہ سے نہیں ڈرتی " یہ کہنے سے بیوی مرتد ہو جائے گی ۔ اور ان دونوں (میاں بیوی ) کے درمیان جدائی واقع ہو جائے گی ۔ بشرطیکہ میاں نے بیوی کو اس کی کسی صریح معصیت پر ٹوکا ہو اور اس کو اللہ سے ڈرایا ہو اور اس کے جواب میں بیوی نے مذکورہ جملہ کہا ہو ، ہاں اگر میاں نے بیوی کو اس کی کسی اسی بات پر ٹوکا ہو جس میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا کوئی موقع نہ ہو (یعنی بیوی نے کوئی معصیت نہ کی ہو ) تو اس صورت میں وہ کافر نہیں ہوگی ۔ البتہ اگر اس صورت میں بھی اس جملہ سے بیوی کا مقصد خوف اللہ اور تقویٰ کی اہانت ہو تو دونوں کے درمیان جدائی واقع ہو جائے گی ۔
ایک شخص نے کسی کو مارنے کا ارادہ کیا اور اس سے کہا کہ " تم اللہ سے نہیں ڈرتے " اس نے مارنے والے سے کہا کہ " نہیں " یہ کفر نہیں ہے کیونکہ اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کہے کہ اللہ سے ڈرنے کا سوال تو اس چیز میں پیدا ہوتا ہے جس کو میں کروں ۔
ایک شخص کسی گناہ کا ارتکاب کر رہا تھا کہ کسی نے اس کو ٹوکا اور کہا کہ " کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے " اس نے جواب دیا کہ " نہیں " وہ کافر ہو جائے گا کیونکہ اس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہے ، اسی طرح کسی اور شخص سے کہا گیا کہ " کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے " اور اس نے غصہ کی حالت میں جواب دیا کہ " نہیں " تو وہ کافر ہوگیا ۔
اگر کوئی شخص اللہ کے کسی حکم کو یا پیغمبر کی شریعت کو پسند نہ کرے مثلا زید سے بکر نے کہا کہ اللہ نے چار بیویاں حلال کی ہیں اور زید کہے کہ میں اس حکم کو پسند نہیں کرتا تو یہ کفر ہے ۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ " صرف اللہ کا وجود ہونا چاہئے اور کسی چیز کا وجود نہیں ہونا چاہئے " تو وہ کافر ہو جائے گا ۔ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ " میرے حق میں تمام نیکیاں اللہ نے پیدا کی ہیں اور برائی کا خالق میں ہوں " تو وہ کافر ہو جائے گا ۔
ایک شخص سے کہا گیا کہ " یار تم اپنی بیوی کے بس میں نہیں آئے " اس نے جواب دیا کہ " عورتوں کے بس میں اللہ بھی نہیں آتا میں کیونکر بس میں آجاؤں گا " یہ کفر ہے ۔
اگر کسی شخص نے کسی سے یہ کہا کہ " اللہ کی طرف سے دیکھتا ہوں اور تمہاری طرف سے دیکھتا ہوں (یعنی جو چیز مجھے ملی ہے وہ اللہ کی جانب سے ہے اور تمہاری جانب سے ہے ) یا یہ کہا کہ " میں اللہ سے امید رکھتا ہوں اور تم سے امید رکھتا ہوں " تو یہ برا ہے ہاں اگر یوں کہے کہ " میں اللہ کی طرف سے دیکھتا ہوں اور اس کا ظاہری سبب تمہیں سمجھتا ہوں " تو یہ ایک اچھی بات ہے ۔
ایک شخص نے اپنے کسی مخالف سے کسی بات میں قسم کھلوانی چاہی ، اس مخالف نے کہا کہ " میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں " لیکن قسم کھلوانے والے نے کہا کہ " میں اللہ کی قسم نہیں چاہتا بلکہ طلاق یا عتاق کی قسم لینا چاہتا ہوں " تو وہ بعض علماء کے نزدیک کافر ہو جائے گا لیکن اکثر علماء کے نزدیک کافر نہیں ہوگا اور یہی قول زیادہ صحیح ہے ۔
اگر کسی شخص نے بطور ہنسی مذاق فارسی میں کہ " من خدایم " یعنی اس کا مطلب یہ کہنا تھا کہ اللہ آئیم تو وہ کافر ہو جائے گا ۔
ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ " تمہیں ہمسایہ کے حق کی پرواہ نہیں " بیوی نے کہا " نہیں " شوہر نے کہا " تمہیں خاوند کے حق کی پرواہ نہیں ، بیوی نے کہا " نہیں " ! پھر شوہر نے کہا " تمہیں اللہ کے حق کی پرواہ نہیں " بیوی نے اس کے جواب میں بھی کہا " نہیں " تو وہ کافر ہو جائے گی ۔
اگر کسی شخص نے اپنی بیماری سے پریشان ہو کر تنگی معاش کے ابتلاء کی وجہ سے کہا کہ " نہ معلوم اللہ نے مجھے پیدا کیوں کیا ہے جب کہ دنیا کی لذتوں اور راحتوں سے میں محروم ہوں " تو اس کے بارے میں بعض علماء تو یہ کہتے ہیں کہ وہ کافر نہیں ہوگا لیکن اس کی یہ بات ایک خطائے عظیم ہے ۔
ایک شخص نے کسی سے کہا کہ " تم نے جو برائیاں کی ہیں ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب میں مبتلا کرے گا " اس نے جواب میں کہا کہ " کیا اللہ تم نے مقرر کر رکھا ہے کہ اللہ وہی کرے گا جو تم کہو" وہ کافر ہوجائے گا ۔
اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ " اللہ دوزخ بنانے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے " تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی بدنما جانور یا بدنما انسان کو دیکھ کر کہا کہ " کیا کوئی اللہ کا کار پرداز نہیں ہے کہ اس نے اس قسم کا جانور یا انسان پیدا کیا تو وہ کافر ہوجائے گا ۔
ایک مفلس نے شدت افلاس میں کہا کہ " فلاں شخص بھی اللہ کا بندہ ہے اور اس کو اس قدر نعمتیں حاصل ہیں اور میں بھی اللہ کا بندہ ہوں اور اتنے رنج وآلام میں مبتلا ہوں ، کیا یہ انصاف ہے " یہ کہنے سے وہ کافر ہوگیا ۔ اسی طرح ایک شخص سے کہا گیا کہ اللہ سے ڈرو ، اس نے جواب دیا کہ " اللہ کہاں ہے " تو وہ کافر ہوگیا ۔ نیز اگر کسی نے یہ کہا کہ " پیغمبر اپنی قبر میں نہیں ہیں " یا یہ کہا کہ " اللہ کا علم قدیم نہیں ہے" یا یہ کہا کہ " معدوم کا علم اللہ کو نہیں ہے " تو وہ کافر ہوگیا ۔
اگر کسی شخص کا نام عبداللہ ہو اور ایک اور شخص اس کو پکارتے وقت لفظ اللہ کے بجائے حرف کاف کا اضافہ کر دے تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ بشرطیکہ وہ پکارنے والا عالم ہو۔ اسی طرح اگر کوئی عالم لفظ خالق کی عمداً تصغیر کرے تو وہ کافر ہوجائے گا ۔
اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ " تمہارے دل پر رحم کرے میرے دل پر نہیں " تو وہ کافر ہو جائے گا ۔ بشرطیکہ اس نے یہ بات رحمت الہٰی سے بے نیازی کے پیش نظر کہی ہو۔ اور اگر اس بات سے اس کا مطلب یہ ہو کہ میرا دل ثابت باثبات اللہ ہے مضطرب نہیں ہے تو وہ کافر نہیں ہوگا ۔
اگر کسی شخص نے یوں قسم کھائی کہ " اللہ کی قسم اور تیری خاک پاک کی قسم " تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ ہاں اگر کسی نے یوں قسم کھائی کہ اللہ کی قسم اور تیرے سر ، تیری جان کی قسم ، تو اس کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں ۔
وہ موجبات کفر جن کا تعلق انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہے
جو شخص انبیاء میں سے کسی بھی نبی کا اقرار نہیں کرے گا یا رسولوں میں سے کسی بھی رسول کی کسی بھی سنت پر ناراضگی یا عدم اعتقاد واطمینان کا اظہار کرے گا تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ ابن مقاتل سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو حضرت خضر یا حضرت ذی الکفل کی نبوت کا انکار کرے ۔ تو انہوں نے فرمایا کہ کسی ایسے نبی کی نبوت کا انکار کہ جس کی نبوت پر اس کی امت کے لوگ متفق نہ ہوئے ہوں ، نقصان دہ نہیں ہے ۔
اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ اگر فلاں نبی ہوتا تو میں اس پر ایمان لاتا تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اور حضرت جعفر سے منقول ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ " میں اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء پر ایمان لایا اور مجھے نہیں معلوم کہ آدم علیہ السلام نبی تھے یا نہیں " تو وہ کافر ہوجائے گا ۔
حضرت جعفر سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو انبیاء کی طرف فواحش کی نسبت کرے جیسے کسی نبی کی طرف عزم زنا کی نسبت کرنا یا اسی طرح کی کوئی اور بات کہنا جیسا کہ حشویہ (ایک باطل فرقہ ) حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں اس قسم کا اظہار کرتے ہیں ، تو انہوں نے فرمایا کہ ایسا شخص کافر ہے ، کیونکہ یہ انبیاء کے حق میں بد گوئی ہے اور ان کی اہانت کے مترادف ہے ۔
ابو ذر کہتے ہیں کہ جس شخص نے یہ کہا کہ " ہر نافرمانی کفر ہے " اور پھر یہ کہا کہ انبیاء علیہم السلام نے نافرمانی کی " تو وہ کافر ہے کیونکہ اس نے انبیاء کے حق میں بدگوئی کی ، اور یہ کہا کہ " انبیاء علیہم السلام نے کبھی کوئی نافرمانی نہیں کی نہ حالت نبوت میں اور نہ اس سے پہلے " تو وہ کافر ہے کیونکہ اس نے یہ بات کہہ کر گویا نصوص (قرآن کریم کی آیت (عصی ربہ الا) یۃ وغیرہ ) کی تردید کی ۔
بعض علماء سے یہ منقول ہے کہ " جس شخص نے یہ نہیں جانا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں ، وہ مسلمان نہیں ہے ، جو شخص اپنے قلب میں کسی بھی نبی کے بارے میں بغض رکھے وہ کافر ہے ۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ " اگر فلاں اللہ کا رسول ہوتا تو میں اس پر ایمان نہ لاتا " تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ جیسا کہ یہ کہنے والا کافر ہو جاتا ہے ۔ کہ اگر اللہ تعالیٰ بھی مجھے فلاں کام کا حکم دیتا تو میں نہ کرتا " ۔
اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ " میں اللہ کا رسول ہوں " یا فارسی میں کہا کہ " من پیغمبرم " اور اس سے اس کی مراد بھی یہ ہے کہ " میں اللہ کا پیغام پہنچانے والا ہوں " تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اور جس وقت اس نے یہ بات کہی اور کسی دوسرے شخص نے اس سے معجزہ طلب کرنے والے کا مقصد اس شخص کو ذلیل کرنا اور اسے عاجز کرنا ہے تو وہ کافر نہیں ہوگا ۔
اگر کسی شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کو " چھوٹا سا بال " کہا تو وہ بعض علماء کے نزدیک کافر ہو جائے گا اور بعض علماء کے نزدیک کافر نہیں ہوگا ۔ہاں اگر اس نے یہ بات اہانت کے طور پر کہی ہے تو ان کے نزدیک بھی کافر ہوجائے گا ۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ " میں نہیں جانتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم انسان تھے یا جن " تو وہ کافر ہو جائے گا ۔
اگر کسی نے یوں کہا کہ " اگر فلاں شخص پیغمبر ہے تو میں اس سے اپنا حق لوں گا " وہ کافر ہوجائے گا ۔ اور اگر کسی نے یہ کہا کہ محمد دریشک بود ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھوٹے فقیر تھے ) یا یہ کہا کہ " پیغمبر کا کپڑا بدبودار اور میلا کچیلا تھا۔ یا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ناخن بڑھ رہے تھے " تو بعض علماء کے نزدیک وہ بلا کسی قید کے کافر ہوجائے گا جب کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ وہ اس صورت میں کافر ہوگا جب کہ وہ اس صورت میں کافر ہوگا جب کہ وہ یہ بات بطریق امانت کہے ۔
اگر کسی نے کسی ایسے شخص کو گالی دی جس کا نام محمد یا احمد تھا یا اس کی کنیت ابوالقاسم تھی اور اس کو یوں مخاطب کیا کہ " اے زانیہ کی اولاد ، تو وہ کافر ہوگیا ، بشرطیکہ (اس کا مقصد ہر اس شخص کو یہ گالی دینا ہو جس کا نام محمد یا احمد اور اس کی کنیت ابوالقاسم ہو اور اس طرح ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بھی اس کے پیش نظر ہو۔
یہ کہنے سے کوئی کافر نہیں ہوتا کہ " ہر گناہ کبیرہ ہے لیکن انبیاء کے گناہ صغیرہ ہیں " اور اگر کسی نے یہ کہا کہ " ہر برائی کا کام جو قصدًا کیا جائے گناہ کبیرہ ہے اس کام کا کرنے والا فاسق ہے " اور پھر اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ " انبیاء کے معاصی قصدًا تھے" تو وہ کافر ہوگیا کیونکہ اس نے انبیاء کی شان میں بدگوئی کی ۔ ہاں اگر اس نے یہ کہا کہ " انبیاء کے معاصی قصدًا نہیں تھے " تو وہ کافر نہیں ہوگا ۔
جو رافضی حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کی شان میں بدزبانی کرے اور نعوذ باللہ ان پر لعنت بھیجے تو وہ کافر ہے ہاں اگر اس نے حضرت علی کو حضرت ابوبکر پر فضیلت دی تو وہ کافر نہیں ہوگا لیکن اس کو مبتدع کہا جائے گا ، معتزلی بھی مبتدع ہے لیکن اگر وہ یہ کہے کہ اللہ کا دیدار محال ہے تو وہ کافر ہوجائے گا ۔
حضرت عائشہ پر زنا کی تہمت لگانے والے اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا ہے ہاں اگر کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری ازواج مطہرات پر زنا کی تہمت لگائی تو وہ کافر نہیں ہوتا لیکن مستحق لعنت ہوتا ہے اسی طرح جو شخص یہ کہے کہ حضرت عمر حضرت عثمان اور حضرت علی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نہیں تھے تو وہ کافر نہیں ہوگا لیکن مستحق لعنت ہوگا ۔
حضرت ابوبکر کی امامت وخلافت کا انکار کرنے والا بعض علماء کے نزدیک تو کافر ہو جاتا ہے اور بعض علماء کے نزدیک کافر نہیں ہوتا بلکہ مبتدع ہوتا ہے لیکن صحیح قول یہی ہے کہ وہ کافر ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح حضرت عمر کی خلافت کا انکار کرنے والا بھی صحیح قول کے مطابق کافر ہو جاتا ہے ۔
جو لوگ حضرت عثمان حضرت علی حضرت طلحہ حضرت زبیر اور حضرت عائشہ کو نعوذ باللہ کافر کہیں ، خود ان کو کافر کہنا لازم ہے ، اسی طرح فرقہ زیدیہ کے تمام لوگوں کو بھی کافر کہنا واجب ہے کیونکہ وہ یہ باطل اعتقاد رکھتے ہیں کہ نعوذ باللہ کسی عجمی ملک میں ایک نبی کا ظہور ہوگا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو منسوخ کرے گا اور ہمارے سردار محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو کالعدم کرے گا ۔
ان روافض کو بھی کافر کہنا واجب ہے جو تناسخ ارواح کے قائل ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ مر جانے والا دوبارہ دنیا میں لوٹ آئے گا اور ائمہ میں اللہ تعالیٰ کی روح حلول کئے ہوئے ہے ، امام باطن کا ظہور ہوگا ، جب تک اس امام باطن کا ظہور نہ ہو اوامر و نواہی معطل ہیں اور یہ کہ جبرائیل علیہ السلام نے وحی لانے میں غلطی کی کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حضرت علی کے پاس لانی چاہئے تھی : یہ فرقہ ملت اسلامیہ سے خارج ہے اور جواحکام مرتدوں کے بارے میں ہیں وہی فرقہ کے لوگوں پر نافذ ہوتے ہیں ۔
جس شخص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بدزبانی کرنے پر مجبور کیا گیا ہو اس کی تین صورتیں ہیں ۔
(١) اگر وہ یہ اقرار کرے کہ میرے دل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی کا کوئی خطرہ بھی نہیں گزرا بلکہ میں نے اپنی زبان سے صرف وہی الفاظ ادا کئے جن کو ادا کرنے پر مجھے مجبور کیا گیا تھا درا نحالیکہ ان الفاظ کی ادائیگی بھی مجھ پر سخت شاق تھی ، تو وہ کافر نہیں ہوگا اور اس کی مثال اس شخص کی سی ہوگی جس کو اپنی زبان سے کلمہ کفر کی ادائیگی پر مجبور کیا گیا ہوں اور اس نے وہ کلمہ کفر اپنی زبان سے ادا کیا ہو مگر اس کا قلب ایمان پر ثابت ومطمئن رہا ہو۔
(٢) اگر وہ اقرار کرے کہ (جب مجھے محمد کو برا کہنے پر مجبور کیا گیا تو ) میرے دل میں اس عیسائی کا خیال آگیا جس کا نام محمد تھا چنانچہ جب میں نے اپنی زبان سے محمد کے بارے میں برے الفاظ کہے تو میری مراد وہی عیسائی تھا ، اس صورت میں بھی وہ کافر نہیں ہوگا ۔
(٣) اور اگر وہ یہ اقرار کرے کہ (جب محمد کے بارے میں برے الفاظ کہنے پر مجبور کیا گیا تو ) میرے دل میں اس عیسائی کا خیال آگیا جس کا نام محمد ہے لیکن میں نے اپنی زبان سے جو برے الفاظ ادا کئے وہ اس عیسائی کے بارے میں نہیں تھے بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تھے، اس صورت میں وہ کافر ہوجائے گا قانونًا بھی اور عند اللہ بھی ۔
جس شخص نے یہ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجنوں تھے ، وہ کافر ہے ، ہاں یہ کہنے والا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بیہوش ہوگئے تھے ، کافر نہیں ہوگا ۔
اگر کسی شخص نے کہا کہ " حضرت آدم علیہ السلام (جنت میں ) گیہوں نہ کھاتے تو ہم اشقیاء نہ ہوتے " تو وہ کافر ہوجائے گا ۔
جس شخص نے حدیث متواتر کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا ، جس شخص نے حدیث مشہور کا انکار کیا وہ بعض علماء کے مطابق تو کافر ہوگیا لیکن بعض علماء کے مطابق گمراہ ہوا کافر نہیں ہوا ، اور جس شخص نے خبر واحد کا انکار کیا وہ بھی کافر نہیں ہوتا مگر اس کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوتا ہے ۔
اگر کوئی شخص کسی نبی کے بارے میں اپنی خواہش کا اظہار کرے کہ " وہ نبی نہ ہوتا " تو اس کے متعلق علماء کہتے ہیں کہ اگر اس کی مراد یہ ہو کہ اس نبی کا مبعوث ہونا خارج از حکمت نہ ہوتا تو وہ کافر ہوگا اور اگر اس کی مراد اس نبی کی توہین اور اپنے کسی بغض کا اظہار ہے تو وہ کافر ہو جائے گا ۔
ایک شخص نے کسی کے سامنے کہا کہ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فلاں چیز مثلا کدو کو بہت پسند فرماتے تھے " اگر سننے والے نے جواب میں کہا کہ " میں اس کو پسند نہیں کرتا " تو یہ کفر ہے ، حضرت امام ابویوسف سے بھی یہی منقول ہے لیکن بعض متاخرین علماء فرماتے ہیں کہ اگر اس نے یہ بات کہ " میں اس کو پسند نہیں کرتا " بطور اہانت کہی ہے تو وہ کافر ہوجائے گا ورنہ کافر نہیں ہوگا ۔
اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ " حضرت آدم علیہ السلام نے کپڑا بنا تھا اس لئے ہم سب جولاہے زادے ہیں " یہ کفر ہے ۔ ایک شخص نے کسی کے سامنے کہا کہ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانا کھاتے تھے تو اپنی تینوں انگلیاں چاٹ لیتے تھے " اگر سننے والے نے یہ کہا " یہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے " تو وہ کافر ہوگیا ۔
جس شخص نے یہ کہا کہ " گنواروں میں عجیب رواج ہے کہ کھانا کھاتے ہیں اور ہاتھ نہیں دھوتے " تو اگر اس نے یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی حقارت کے پیش نظر کہی ہے تو وہ کافر ہوگیا اسی طرح جس شخص نے یہ کہا کہ " موچھیں پست (ہلکی ') کرنے اور عمامہ (کا سرا یعنی شملہ ) گلے کے نیچے تک لٹکانے کا نہ معلوم کیسا رواج ہے ؟" تو اگر اس نے یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر طنز کے طور پر کہی تو وہ کافر ہو گیا۔
ایک شخص نے کوئی بات کہی اس پر دوسرے نے اس سے کہا کہ " جھوٹ کہتا ہے اگرچہ ساری بات پیغمبرانہ ہے" اس کہنے سے اس پر کفر لازم ہوجائے گا ایسے ہی اگر یہ کہا کہ میں اس کی بات نہیں مانوں گا اگرچہ اس کی ساری بات پیغمبرانہ ہے تو اس سے بھی کفر لازم آئے گا ۔
ایک شخص نے اپنے غلام کو مارنے پیٹنے کا ارادہ کیا ، اس سے دوسرے نے کہا کہ اسے مت مارو، اس نے کہا کہ تم تو تم ، اگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کہیں تو بھی نہیں چھوڑ سکتا ، یا یہ کہا کہ اگر آسمان سے آواز آئے کہ " اس کو مت مارو " تو بھی میں نہیں چھوڑ سکتا ، ماروں گا ۔ یہ کہنے سے اس پر کفر لازم آئے گا ۔
کسی نے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث پڑھی جس کو سن کر ایک شخص نے کہا کہ " ہمہ روز خلشہا خواند " یعنی ہر روز الجھن کی چیز پڑھتا ہے تو اگرچہ اس نے اس کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ کی ہو بلکہ پڑھنے والے کی طرف کی ہو لیکن وہ کافر ہوجائے گا بشرطیکہ اس حدیث کا تعلق احکام شریعت میں سے کسی حکم کے ساتھ ہو یا دین کے ساتھ ہو ، اور اگر وہ ایسی حدیث تھی کہ جس کا تعلق دین وشریعت سے نہیں تھا تو اس کی تکفیر نہیں ہوگی ، اور اس کے قول کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ وہ اس کا پڑھنا غیر اولی بتا رہا تھا ۔
اگر کسی نے کہا " بحرمت جوانک عربی " اور اس جملہ سے اس کی مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے تو اس کی تکفیر کی جائے گی کسی نے کہا کہ " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک وقت پیغمبر تھے ۔ اور ایک وقت ایسا تھا کہ پیغمبر نہ تھے " یا اس طرح کہا کہ " میں نہیں جانتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں مؤمن ہیں یا کافر " تو یہ کہنے سے کافر ہوجائے گا ۔
کسی نے اپنی بیوی سے کہا کہ " خلاف بات نہ کہو " اس عورت نے کہا کہ " پیغمبروں نے خلاف کہا ہے " تو اس کا یہ کہنا کفر ہے توبہ کرے اور پھر نکاح کی تجدید کرے ! کسی نے کسی سے کہا کہ مجھے تیرا دیکھنا گویا ملک الموت کا دیکھنا معلوم ہوتا ہے ، تو اس کا ایسا کہنا بہت بڑی غلطی ہے اور اس کے کفر میں مشائخ کا اختلاف ہے ۔ بعضوں نے کہا کہ کافر ہوجائے گا اور اکثر علماء کہتے ہیں کہ اس کہنے سے وہ کافر نہیں ہوگا ۔
اور فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہے کہ بعضوں نے یہ کہا ہے کہ اگر اس نے یہ جملہ ملک الموت سے عدوات کی بنیاد پر کہا تو وہ کافر ہوجائے گا اور اگر موت سے ناگواری کی بنا پر کہا ہے تو کافر نہیں ہوگا ، اور اگر یہ کہا کہ فلاں کے منہ کو ملک الموت کی طرح دشمن سمجھتا ہوں تو اکثر مشائخ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے وہ کافر ہوجائے گا ، کسی نے کہا کہ میں فلاں کی گواہی نہیں سنتا خواہ جبرائیل ومیکائیل ہو تو اس صورت میں اس کی تکفیر کی جائے گا ۔ اگر کسی نے فرشتوں میں سے کسی فرشتے کو عیب لگایا تو اس کی تکفیر کی جائے گا ، اگر کوئی کہے کہ میں فرشتہ ہوں تو اس کہنے سے وہ کافر نہیں ہوتا ، اور اگر یہ کہے کہ میں نبی ہوں تو اس کہنے سے وہ کافر ہوجائے گا ۔
ایک شخص نے ایک عورت سے بغیر کسی شخص کی موجودگی کے نکاح کیا اور کہا کہ میں نے اللہ اور رسول کو گواہ بنایا ، یا یہ کہا کہ اللہ اور فرشتہ کو گواہ بنایا تو اس صورت میں وہ کافر ہوجائے گا ، اور اگر کہا کہ دائیں اور بائیں والے فرشتوں کو گواہ بنایا تو اس صورت میں کافر نہ ہوگا ۔
وہ موجبات کفر جن کا تعلق قرآن پاک سے ہے
اگر کسی نے کہا کہ قرآن مخلوق ہے تو وہ کافر ہوجائے گا ، اسی طرح اگر کسی نے کسی آیت قرآنی کا انکار کیا یا اس کے ساتھ ٹھٹھا مخول کیا ، یا عیب لگایا تو ان صورتوں میں وہ کافر ہوجائے گا ۔ کسی نے دف کی تھاپ پر یا بانسری کی لے پر قرآن پڑھا تو اس نے کفر کیا ، ایک شخص قرآن پڑھ رہا تھا دوسرے نے سن کر کہا کہ " یہ کیا طوفان کی آواز ہے " تو اس کا یہ کہنا کفر ہے ، اور اگر کسی نے کہا کہ میں نے بہت قرآن پڑھا اور مجھ سے گناہ معاف نہیں کیا گیا تو اس کہنے سے وہ کافر ہو گیا ۔
کسی نے کسی سے کہا کہ تو نے آیت (قل ہو اللہ) کی کھال کھینچ لی ، یا یہ کہا کہ تو نے آیت (الم نشرح) کا گریبان پکڑ لیا ، یا اس شخص سے جو کسی بیمار کے پاس سورت یٰسین پڑھ رہا تھا کہا " یٰسین مردہ کے منہ میں مت رکھو " یا کسی سے کہا اے آیت (انا اعطینک الکوثر) سے بھی زیادہ کو تاہ ۔ یا ایک شخص قرآن پڑھ رہا تھا اور اس کو کوئی کلمہ یاد نہیں آرہا تھا اس سے کہا آیت (والتفت الساق بالساق) یا کسی کے پاس بھرا ہوا پیالہ لایا اور کہا آیت (کاسا دھاقا) یا کسی سے مذاق کے طور پر کہا آیت (فکانت سرابا) یا ناپ تول کے وقت مذاق کے پر کہا آیت (واذا کالوہم اووزنوہم یخسرون) یا کسی سے یہ کہا کہ تو نے (الم نشرح) کی پگڑی باندھ لی ہے اور اس کی مراد یہ تھی کہ تو نے علم کا اظہار کیا ہے یا کسی نے کسی جگہ کے لوگوں کو جمع کیا اور کہا (فجمعناہم جمیعا) یا یہ کہا آیت (وحشرناہم فلم نغادر منہم احدا) یا کسی سے کہا کہ تو (والنازعات نزعا) کیونکر پڑہتا ہے نون کے پیش کے ساتھ یا اسے زیر دے کر مراد اس کی طنز کرنا تھی ، یا کسی گنجے شخص سے میں تو تجھ کو اس لئے بڑا کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (کلا بل ران) یا کسی سے کہا گیا کہ نماز پڑھنے چلو یا جماعت کی نماز میں چلو ، اس نے جواب میں کہا کہ میں تنہا پڑھتا ہوں اللہ تعالیٰ کا قول ہے (ان الصلوۃ تنہا) تو ان تمام صورتوں میں کافر ہوگا ۔
ایک شخص نے کسی سے کہا کہ تو نے ایسا گھر پاک صاف کیا ہے کہ جیسے (والسماء والطارق) تو بعضوں نے کہا کہ اس کہنے سے وہ کافر ہوجائے گا ، اور امام ابوبکر اسحاق نے کہا کہ یہ کہنے والا اگر جاہل ہے تو کافر نہیں ہوگا ، اور اگر وہ عالم ہے تو کافر ہوگا ۔ اور اگر کسی نے کہا (قاعا صفا صفا) ہوگیا ہے تو اس جملہ میں بڑا خطرہ ہے کہ وہ کافر ہوجائے ، یا دیگ میں کچھ لگا رہ گیا اس وقت کہا (والباقیات الصالحات) تو یہ بھی بڑے خطرے کی چیز ہے ۔
اور جب کسی نے یہ کہا کہ قرآن عجمی ہے تو وہ کافر ہوگیا ، اور اگر یہ کہا کہ قرآن میں ایک کلمہ عجمی ہے تو اسے کافر کہنے میں عجلت نہ کرنی چاہئے یہ قابل غور ہے ، کسی سے کسی نے کہا تو قرآن پاک کیوں نہیں پڑھتا ہے ، اس نے جواب میں کہا کہ میں قرآن سے بیزار میں چکا تو اس کی تکفیر کی جائے گی ، ایک شخص کو قرآن پاک کی کوئی ایسی سورت یاد ہے جسے وہ بکثرت پڑھتا رہتا ہے ، دوسرے نے اس پڑھنے والے سے کہا کہ تو نے اس سورت کو کمزور وزبوں پا لیا ہے تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا ، اگر کسی نے قرآن پاک کو مثلًا فارسی میں نظم کیا ، تو اس کو قتل کیا جائے گا اس لئے کہ وہ کافر ہوگیا ۔

یہ حدیث شیئر کریں