مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان ۔ حدیث 691

مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان

راوی:

وہ موجبات کفر جن کا تعلق نماز روزہ اور زکوۃ سے ہے
کسی نے کسی بیمار سے کہا کہ تو نماز پڑھ لے اس نے اس کے جواب میں کہا اللہ کی قسم میں کبھی نماز نہیں پڑھوں گا اور اس نے پھر کبھی نماز پڑھی بھی نہیں یہاں تک کہ مر گیا تو وہ کافر کہا جائے گا ، اور اگر صرف یہ کہا کہ نہیں پڑھوں گا تو اس کے اس کہنے میں چار احتمال ہیں ۔
(١) ایک تو یہ کہ نماز نہیں پڑھتا اس لئے کہ پڑھ چکا ۔
(٢) دوسرے یہ کہ نماز نہیں پڑھتا یعنی تیرے حکم سے نہیں پڑھتا اس لئے تجھ سے جو بہتر ہے وہ حکم کر چکا ہے ۔
(٣) تیسرے یہ کہ نہیں پڑھتا یعنی بے باکی اور فسق کے طور پر کہا ، ان تینوں صورتوں میں وہ کافر نہیں ہوگا ۔
(٤) چوتھے یہ کہ نماز نہیں پڑھتا اس وجہ سے کہ مجھ پر نماز واجب نہیں ہے اور نہ مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے ، اس چوتھی صورت میں وہ کافر ہو جائے گا ، اور اگر اس نے جواب میں مطقًا یہ کہا کہ میں نماز نہیں پڑھتا تو وہ ان وجوہ کی وجہ سے کافر نہیں ہوگا ۔ کسی سے کہا گیا کہ نماز پڑھ لے اس نے جواب میں کہا کہ میں پاگل ہوں جو نماز پڑھوں اور اپنے اوپر کام بڑھاؤں یا اس طرح کی مدت گزری کہ میں نے بیگار نہیں کی ، یا یہ کہا کہ وہ کام کون آخر تک پورا کر سکتا ہے ، یا یہ کہ عقل مند کو ایسے کام میں نہ پڑنا چاہئے جس کو آخر تک نباہ نہ سکے ، یا یہ کہا کہ میرے واسطے اور لوگ کر لیتے ہیں یا یہ کہا کہ نماز پڑھنے سے مجھے کوئی سرفرازی نہیں مل جاتی ہے ، یا یہ کہ تو نے نماز پڑھ لی تو کیا سر بلندی حاصل کر لی ، یا کہا کہ میں نماز کس لئے پڑھوں میرے ماں باپ تو مر چکے ہیں ، یا کہا کہ نماز پڑھنی نہ پڑھنی دونوں برابر ہے یا کہا کہ اس قدر نماز پڑھ چکا کہ دل اکتا گیا ، یا کہا کہ نماز ایسی چیز نہیں ہے کہ وہ باقی رہے گی تو سڑ جائے گی ۔ یہ تمام جوابات کفریہ ہیں ۔
اسی طرح ایک شخص نے کسی سے کہا کہ آؤ فلاں کام کے لئے نماز پڑھیں ، اس نے کہا میں نے بہت نماز پڑھی میری کوئی حاجت پوری نہیں ہوئی اور جواب میں یہ بات بطور طنز واستخفاف کہی تو اس سے وہ کافر ہو جائے گا ، ایک فاسق نمازیوں کو مخاطب کر کے کہے آؤ مسلمانی دیکھو اور اس کے بعد وہ فسق کی مجلس کی طرف اشارہ کرے تو وہ کافر ہو جائے گا ، اور اگر کسی نے کہا کہ بے نماز ہونا کیا ہی بہتر ہے تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا ، ایک شخص نے کسی سے کہا کہ نماز پڑھو تا کہ تمہیں بندگی کا مٹھاس حاصل ہو ، یا فارسی میں کہے نماز بخوان تا حلاوت نمازیابی۔ اس کے جواب میں اس نے کہا کہ " تو مکن کہ حلاوت بے نمازی بہ بینی " یعنی تم نماز نہ پڑھو تا کہ نماز نہ پڑھنے کی لذت محسوس کر سکو تو اس کہنے سے وہ کافر ہوجائے گا ۔
غلام سے کسی نے کہا کہ نماز پڑھ اس نے کہا میں نہیں پڑھتا اس لئے کہ اس کا ثواب میرے آقا کو حاصل ہوگا وہ اس کہنے سے کافر ہو جائے گا ۔ ایک شخص سے کسی نے کہا کہ نماز پڑھ لے اس نے جواب میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے مال میں نقصان دیا لہٰذا میں اس کے حق میں نقصان کروں گا تو یہ جواب کفر ہے۔
ایک شخص نے صرف رمضان میں نماز پڑھتا ہے پھر بعد میں نہیں پڑھتا اور کہتا ہے کہ یہی بہت ہے ، یا کہتا ہے یہی بہت زیادہ ہوگی اس لئے کہ رمضان کی ہر نماز ستر نمازوں کے برابر ہے تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا ، کوئی جان بوجھ کر قبلہ کے سوا کسی اور طرف منہ کر کے نماز پڑھے مگر اتفاق سے وہ قبلہ نکل گیا تو امام اعظم فرماتے ہیں کہ وہ کافر ہوگیا اور اسی پر فقیہ ابواللیث نے عمل کیا ہے ۔
اسی طرح اگر کوئی نماز بغیر وضو پڑھے یا ناپاک کپڑوں میں پڑھے تو کافر ہوجائے گا ، اور اگر کوئی جان بوجھ کر اس طرح نماز پڑھا کرتا ہے تو وہ بھی کافر ہے ، ایک شخص کو قبلہ کا پتہ نہیں چلا اس نے تحری کی یعنی نماز پڑھی ، امام ابوحنیفہ ایسے شخص کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں اس کے حق میں کفر کا خوف رکھتا ہوں اس لئے کہ اس نے قبلہ سے اعراض کیا اور دوسرے مشائخ کا اس کے کفر میں اختلاف ہے شمس الائمہ حلوائی فرماتے ہیں کہ جب اس نے قبلہ چھوڑ کر بطور استہزاء واہانت دوسری طرف نماز پڑھی تو ظاہریہ ہے کہ وہ کافر ہوجائے گا ۔
اور اگر کوئی ایسی صورت میں کسی وجہ سے مبتلا ہو گیا مثلًا چند لوگوں کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ اسے حدث ہو گیا اور شرم کی وجہ سے اس نے سوچا کہ ظاہر نہ ہونے پائے چنانچہ چھپانے کے لئے بغیر وضو نماز پڑھتا رہا یا دشمن کے پاس تھا اور کھڑے ہو کر اس حالت میں نماز پڑھی کہ وہ پاک نہ تھا ، بعض مشائخ نے یہ کہا ہے کہ اس صورت میں وہ کافر نہیں ہوگا اس لئے کہ اس نے استہزاء کے طور پر نہیں کیا ہے لیکن اگر کوئی ضرورت یا حیاء کی وجہ سے ایسی صورت میں مبتلا ہو جائے تو اس کو چاہئے کہ اپنے اس قیام سے نماز کے قیام کا ارادہ نہ کرے اور نہ کچھ پڑھے اور جب ان کے ساتھ رکوع میں جائے تو وہ رکوع کا قصد نہ کرے اور نہ تسبیح پڑھے تاکہ وہ کسی کے نزدیک کافر نہ ہونے پائے اور ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھنے سے بعض علماء کہتے ہیں کہ کافر نہیں ہوتا ۔
کسی نے کہا کہ نماز فرض ہے لیکن رکوع سجدہ فرض نہیں تو اس کہنے سے کافر نہ ہوگا ، اس لئے اس کو تاویل کی گنجائش ہے کہ نماز سے میری مراد جنازہ کی نماز تھی جس میں رکوع سجدے فرض نہیں ہیں ۔ اگر کوئی رکوع اور سجدوں کی فرضیت کا بالکلیہ انکار کرے گا تو وہ کافر ہوجائے گا حتی کہ اگر صرف دوسرے سجدے کی فرضیت کا بھی انکار کرے گا تو وہ کافر ہوگا اس لئے کہ اس نے اجماع اور تواتر کا رد کیا ۔
کسی نے کہا کہ اگر کعبہ مکرمہ قبلہ نہ ہوتا اور اس کی جگہ بیت المقدس قبلہ ہوتا تو بھی میں کعبہ ہی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا اور بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نہ پڑھتا ، یا اس طرح کہا کہ اگر فلاں قبلہ ہوتا تو اس کی طرف میں منہ نہ کرتا ، یا یوں کہا کہ اگر فلاں جانب کعبہ ہوتا تو میں اس طرف منہ نہ کرتا ، یا یہ کہا کہ قبلے دو ہیں ایک کعبہ ، دوسرا بیت المقدس ، تو ان تمام صورتوں میں وہ کافر ہوجائے گا ۔
ابراہیم بن یوسف نے کہا ہے کہ اگر کسی نے دکھلانے کے لئے نماز پڑھی تو اس کو ثواب نہیں ملے گا بلکہ اس کے نامہ اعمال میں گناہ لکھا جائے گا ۔ اور بعضوں نے کہا ہے کہ اس سے کافر ہو جاتا ہے اور بعضوں نے کہا کہ اس صورت میں اس پر نہ گناہ ہے اور نہ اس کے لئے ثواب ہی ہے اور وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے نماز نہیں پڑھی ۔
ایک شخص کسی کافر کے پاس آیا اور ایک دو وقت کی نماز چھوڑ دی نہیں پڑھی ، اگر اس نے ایسا اس کافر کی تعظیم کی وجہ سے کیا ہے تو کافر ہوگا اور اس پر ان نمازوں کی قضا نہیں ہے ، اور اگر ایسا فسق وفجور کی وجہ سے کیا ہے تو کافر نہ ہوگا اور اس کو ان نمازوں کی قضاء کرنی ہوگی ۔ ایک شخص نے دار السلام میں اسلام قبول کیا ایک ماہ کے بعد اس سے پنچ وقتہ نماز کے متعلق سوال کیا گیا ، اس نے جواب میں کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ مجھ پر فرض ہے تو اس سے وہ کافر ہوجائے گا ، ہاں اگر وہ نو مسلموں میں رہتا ہے تو کافر نہ ہوگا ۔
اگر کوئی مؤذن سے اذان دیتے وقت کہے کہ تو نے جھوٹ کہا تو وہ کافر ہوجائے گا ، اگر کوئی اذان سن کر یہ کہے کہ گھنٹے کی آواز ہے تو وہ کافر ہے ایک شخص سے کہا گیا تم زکوۃ ادا کروں ، اس نے یہ سن کر کہا کہ میں ادا نہیں کرتا تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا ، بعض حضرات علماء نے کہا کہ مطقاً اس جواب سے کافر ہوجائے گا ، اور بعض کہتے ہیں کہ احوال ظاہرہ میں اس جواب سے کافر ہوگا لیکن احوال باطنہ میں اس جواب سے کافر نہ ہوگا ، اور مناسب یہ ہے کہ یہاں بھی نماز کی طرح چار احتمال ہونے چاہئیں اور تین صورتوں میں کافر نہ ہوگا اور ایک صورت میں کافر ہو جائے گا ، اگر کوئی کہے کہ کاش رمضان فرض نہ ہوتا تو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ کہنے والے کی نیت پر موقوف ہوگا ۔ اگر اس نیت سے یہ کہا کہ رمضان کے حقوق اس سے ادا نہیں ہو سکتے تو کافر نہ ہوگا ، اگر کوئی رمضان آتے وقت یہ کہے کہ بھاری مہینہ یا بھاری مہمان آیا ہے تو کافر ہوگا ، جب رجب کا مہینہ آیا اور کسی نے کہا کہ اس کے بعد خرابی میں مبتلا ہوں گے تو اگر اس نے یہ محترم مہینوں کے لئے حقارت کے طور پر کہا ہے تو کافر ہوگا اور اگر اپنے نفس پر گرانی کو ظاہر کرنے کے لئے کہا ہے تو کافر نہ ہوگا اور اس سے پہلے مسئلہ میں بھی جواب اسی تفصیل کے ساتھ ہونا چاہئے ۔
ایک شخص نے کہا کہ " رمضان کا روزہ جلد گزر جائے " تو بعض کہتے ہیں کہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا اور بعض کہتے ہیں کہ کافر نہیں ہوگا ، اور اگر کوئی کہے کہ چند ازیں روزہ کہ مرا دل بہ گرفت یعنی اتنے روزے کب تک ؟ میرا تو اس سے دل اکتا گیا تو اس کا یہ کہنا کفر ہے ، اور اسی طرح کوئی کہے کہ " اللہ تعالیٰ نے طاعات کو فرض نہ کرتا تو ہمارے لئے عذاب بنا دیا ہے " اس جملہ کی اگر تاویل کی تو کافر نہ ہوگا ، یا اسی طرح یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ اگر ان طاعات کو فرض نہ کرتا تو ہمارے لئے بہتر ہوتا ، اگر اس جملہ کی کوئی تاویل کرے تو کافر نہ ہوگا ۔
کوئی کہے کہ " نماز میرے لائق نہیں ہے " یا " حلال میرے مناسب نہیں ہے " یا یہ کہا کہ " کس لئے نماز پڑھوں بیوی بچے تو میں رکھتا ہی نہیں " یا اس طرح کہا کہ " نماز کو میں نے طاق پر رکھ دیا " تو اس ان تمام صورتوں میں کافر ہوجائے گا ۔

وہ موجبات کفر جن کا تعلق علم اور علماء سے ہے
اگر کوئی بغیر کسی ظاہر سبب کے کسی عالم دین سے بغض رکھے تو اس کے کافر ہوجانے کا بھی خوف ہے ، اور اس پر بھی کفر کا خوف ہے جو کسی عالم یا فقیہ کو بغیر سبب برا کہے ، اور وہ کافر ہو جاتا ہے جو کسی کو اس طرح کہے کہ " تیرے علم کے مقعد میں گدھے کا ذکر " اور اس علم سے اس کی مراد علم دین ہو ۔
ایک جاہل نے علم سیکھنے والے کو اس طرح کہا کہ " یہ جو کچھ سیکھتے ہیں وہ کہانیاں اور داستانیں ہیں " یا یہ کہا کہ یہ سب فریب ہے یا یہ کہا کہ میں علم حیلہ کا منکر ہوں ۔ واضح رہے کہ یہ سب جملے کفریہ ہیں ۔
ایک اونچی جگہ پر بیٹھ جائے اور پھر لوگ اس سے بطور مذاق اور استہزاء مسائل پوچھنے لگیں اور اس کے بعد اس کو تکیوں سے مارنے لگیں اور سب ہنسنے لگیں تو وہ سب اس فعل کی وجہ سے کافر ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح اگر کوئی علم کی مجلس میں واپس آ رہا تھا اس کو کسی نے کہا کہ تو بت خانہ سے آ رہا ہے تو وہ اس کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے ، یا اسی طرح یہ کہا کہ مجھے علم کی مجلس سے کیا کام ، یا یہ کہا کون شخص ان چیزوں کے ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہے جو علماء کہتے ہیں تو وہ کافر ہوگا ۔
اگر کوئی کہے کہ علم کو کا سہ اور کیسہ میں نہیں رکھ سکتے یعنی یہ علم نہ کھانے کے پیالہ میں رکھنے کے لائق ہے اور نہ روپے کی تھیلی میں اور ضرورت انہی دونوں کی ہے ، یا یہ کہا کہ علم کا کیا کروں گا مجھے جیب میں چاندی چاہئے تو اس کہنے سے وہ کافر ہوجائے گا ۔ اگر کوئی کہے کہ مجھے بال بچوں کی اتنی مصروفیات ہے کہ علم کی مجلس میں نہیں پہنچ سکتا اور اس نے اس سے علم کی اہانت کا ارادہ کیا تو اس جملہ سے بھی کفر کا خطرہ ہے ۔
کوئی عالم فقیہ ، علم کا تذکرہ کر رہا تھا یا کوئی صحیح حدیث بیان کر رہا تھا کسی نے اسے سن کر کہا کہ یہ کچھ نہیں ہے اور اسے رد کر دیا یا کہا کہ یہ بات کیا کام آوے گی روپیہ چاہئے ، کہ آج اسی کو عظمت حاصل ہے علم کیا کام آتا ہے ، تو یہ کفر ہے ۔
اگر کسی نے کہا کہ دانشمندی سے بہتر فساد برپا کرنا ہے تو یہ کفر ہے ، کوئی عورت جس کا شوہر عالم ہو اگر یوں کہے کہ عالم شوہر کے اوپر لعنت ہو تو وہ کافر ہوجائے گی کسی نے کہا کہ عالموں کا فعل وہی ہے جیسے کافروں کا تو وہ اس کہنے سے اس وقت کافر ہوجائے گا جب تمام افعال میں برابری ظاہر کرے کہ اس طرح حق وباطل میں اس نے برابری کو ظاہری کیا۔
ایک شخص کا کسی فقیہ سے کسی بات میں جھگڑا ہو گیا ، اس فقیہ نے اس کو کوئی شرعی وجہ بیان کی، اسے سن کر جھگڑنے والے نے کہا ، یہ عالمانہ پن نہ کر ، یہاں کچھ نہیں چل سکتی ، تو ایسے شخص پر کفر کا خوف ہے ، اگر کسی نے فقیہ سے کہا " اے دانشمندک " یا علویک " تو اس سے کافر نہ ہوگا اگر اس کی نیت اہانت دین کی نہیں ہے ۔
ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ایک فقیہ عالم نے اپنی کتاب ایک دکاندار کی دکان میں رکھ دی اور کسی کام سے چلا گیا پھر جب وہ دکان سے گزر تو دکاندار نے اس کو مخاطب کر کے کہا کہ تم بسولہ بھول گئے ، فقیہ نے کہا تیری دکان میں میری کتاب ہے بسولہ نہیں ، دکاندار نے کہا کہ بڑھئی بسولہ سے لکڑی کاٹتا ہے اور تم کتاب سے لوگوں کی گردن کاٹتے ہو۔ فقیہ نے شیخ امام ابوبکر محمد بن فضل سے اس واقعہ کا شکوہ کیا ۔ انہوں نے اس شخص کے قتل کا حکم کیا ۔
ایک شخص نے بیوی پر غصہ کیا اور کہا کہ تو اللہ کی اطاعت کر ، اور ساتھ ہی گناہ سے منع کیا ، بیوی نے جواب میں کہا میں اللہ اور علم کیا جانوں میں نے اپنے کو دوزخ میں رکھ چھوڑا ہے تو وہ اس کی وجہ سے کافر ہوگئی ، ایک شخص سے کہا گیا کہ علم دین کے طلب کرنے والے فرشتوں کے بازوؤں پر چلتے ہیں ، اس نے کہا یہ جھوٹ ہے تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اگر کوئی کہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قیاس صحیح نہیں تو وہ کافر ہو جائے گا ہوجائے گا اس لئے کہ اس نے مطلقاً قیاس کی صحت کا انکار کیا کسی نے کہا کہ ثرید پلاؤ کا پیالہ علم سے بہتر ہے تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اور کہا کہ پلاؤ کا پیالہ اللہ سے بہتر ہے تو وہ کافر نہ ہوگا ۔یہ اس وجہ سے کہ " اللہ سے " کا مطلب " اللہ کی طرف سے " ہو سکتا ہے اور علم میں یہ تاویل نہیں ہو سکتی ۔
ایک شخص نے اپنے دشمن سے کہا کہ " میرے ساتھ شریعت کی طرف چلو " اس نے کہا کہ کوئی سپاہی بلاؤ تو چلوں بے جبر و اکراہ نہیں جا سکتا تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا کیونکہ اس نے شریعت کا مقابلہ کیا ، اور اگر اس نے یہ کہا کہ میرے ساتھ قاضی کے پاس چل اور اس نے یہی جواب دیا تو کافر نہ ہوگا ، اور اگر اس نے یہ کہا کہ میرے ساتھ شریعت اور حیلہ مفید نہیں ہوگا، یا یہ کہا کہ " یہ پیش نہ جاویں گے ۔ یا یہ کہا کہ میرے لئے کھجور کا حلوہ ہے شریعت کیا کرونگا ، یہ ساری صورتیں کفر کی ہیں ، اور اگر یہ کہا کہ " جس وقت تو نے چاندی لی تھی اس وقت شریعت اور قاضی کہاں تھا " اس کی وجہ سے کافر ہو جائے گا ۔ اور علماء متاخرین میں سے بعض نے کہا کہ اگر اس نے قاضی سے شہر کے قاضی کو مراد لیا ہے ، تو کافر نہ ہوگا ۔
کسی شخص سے کہا گیا کہ " اس بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے " اس نے جواب دیا کہ " میں رسم پر عمل کرتا ہوں نہ کہ شریعت پر " تو اس کہنے سے بعض کے نزدیک کافر ہوجائے گا ، ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ " تو کیا کہتی ہے شریعت کا کیا حکم ہے " بیوی نے بلند آواز سے ڈکار لی اور کہا " اینک شرع را " تو وہ کافر ہوجائے گی ۔ اور اس کا نکاح جاتا رہے گا ۔ ایک شخص نے اپنے مخالف کے سامنے ائمہ کا فتویٰ پیش کیا ، اس نے اس فتویٰ کو رد کر دیا اور کہا " یہ فتوؤں کا انبار تو کیا لے آیا ہے ؟ " بعضوں نے کہا کہ وہ کافر ہوجائے گا اس لئے اس نے شریعت کا حکم رد کر دیا ۔ اسی طرح اگر اس فتویٰ کے بارے میں کچھ نہ کہا مگر فتویٰ لے کر زمین پر ڈال دیا اور کہا " یہ کیا شریعت ہے ؟ " تو بھی کافر ہوجائے گا ۔
ایک شخص نے ایک عالم سے اپنی بیوی کے متعلق کا مسئلہ دریافت کیا ، اس نے جواب دیا کہ تمہاری بیوی پر طلاق واقع ہو گئی پوچھنے والے نے کہا " میں طلاق ملاق کو کیا جانوں ماں بچے گھر میں ہونے چاہئیں " تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا ۔ دو شخصوں میں جھگڑا ہوا ، اس میں سے ایک دوسرے کے پاس علماء کا فتویٰ لے کر آیا اس نے کہا " ایسا نہیں جیسا کہ فتویٰ دیا " یا یہ کہا کہ میں اس پر عمل نہیں کرتا تو اس کو تعزیرًا (سزا ) دی جائے گی ۔
وہ موجبات کفر جن کا تعلق حلال وحرام اور فاسق و فاجر وغیرہ کے کلام سے ہے
جو کوئی حلال کے حرام ہونے کا یا حرام کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھے گا تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ لیکن اگر کوئی حرام وحلال اس لئے بتائے کہ یہ سامان رائج ہوجائے یا ایسا جہالت کی وجہ سے کیا تو وہ کافر نہ ہوگا ، لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ وہ حرام حرام لعینہ ہو ، اور وہ اس کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھے تب کافر ہوگا اور اگر حرام ، حرام لغیرہ ہو اور اس کو حلال بتائے تو کافر نہ ہوگا ، اور اس حرام لعینہ کو حلال سمجھنے میں کافر ہوگا جب اس کی لعینہ حرام کی حرمت دلیل قطعی سے ثابت ہو، لیکن اگر حرام لعینہ کی حرمت خبر احاد سے ثابت ہوگی تو اس کے حلال کا عقیدہ رکھنے میں کافر نہ ہوگا ۔
ایک شخص سے کہا گیا کہ ایک حلال تم کو زیادہ پسند ہے یا دو حرام ، اس نے کہا دونوں میں سے جو جلد پہنچ جائے ، تو اس کے بارے میں کفر کا خوف ہے ، اسی طرح اس وقت بھی خوف کفر ہے جب کہے کہ ہمیں مال چاہئے خواہ حلال ہو خواہ حرام ہو ، اور اگر یہ کہا کہ جب تک میں حرام پاؤں گا حلال کے پاس نہیں پھٹکوں گا تو اس کہنے سے کافر نہ ہوگا ۔

یہ حدیث شیئر کریں