مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان ۔ حدیث 692

مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان

راوی:

اگر کوئی شخص حرام مال کسی فقیر کو ثواب کی نیت سے دے اور ثواب کی امید رکھے تو وہ کافر ہو جاتا ہے ، اور اگر فقیر کو یہ معلوم تھا کہ یہ مال حرام ہے اور کے باوجود اس نے وہ مال لے لیا اور دینے والے کو دعا دی اور اس دینے والے نے آمین کہی ، تو وہ کافر ہوگا ۔ ایک شخص سے کہا گیا کہ " حلال مال کھاؤ " اس نے کہا کہ " مجھے تو حرام مال بہت پیارا ہے " تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اور اگر اس کے جواب میں یہ کہا کہ " اس دنیا میں کسی ایک حلال کھانے والے کو لاؤ تاکہ میں اسے سجدہ کروں " تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا ، کسی نے ایک شخص سے کہا کہ " حلال کھایا کرو " جواب میں اس نے کہا کہ " مجھے تو حرام چاہئے " تو وہ کافر ہوگیا ۔
کسی فاسق کے لڑکے نے شراب پی ۔ پھر اس کے عزیز و اقا رب آ کر اس پر روپے نچھاور کرنے لگے تو وہ سب کافر ہوگئے ، اور اگر نچھاور نہیں کیا بلکہ کہا کہ " تمہیں مبارک ہو" تو بھی کافر ہو جائیں گے ۔ اگر کسی نے کہا کہ شراب کی حرمت قرآن سے نہیں ثابت ہوتی تو وہ کافر ہوجائے گا ۔
کسی نے شراب پینے والے سے کہا کہ قرآن سے شراب کی حرمت ثابت ہے پھر تو شراب کیوں پیتے ہو توبہ کیوں نہیں کرتے ؟ تو اس کے جواب میں شرابی نے کہا کہ " ازشیرمادر شکید " یعنی کیا ماں کے دودھ سے صبر ہو سکتا ہے ؟ تو وہ اس کے کہنے سے کافر نہیں ہوگا ، اس وجہ سے کہ یا تو یہ استفہام ہے یا شراب اور دودھ میں شغف کے اندر برابری ظاہر کرنا ہے ۔
اگر کوئی حالت حیض میں اپنی بیوی سے جماع (صحبت ) کو حلال سمجھے گا تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اسی طرح وہ بھی کافر سمجھا جائے گا جو اپنی بیوی سے اغلام (لواطت ) کو جائز جانے اور نوارد میں امام محمد سے روایت ہے کہ ان دونوں صورتوں میں کافر نہیں ہوتا اور اس حکم کو صحیح قرار دیا گیا ہے ۔
ایک شخص نے شراب پی اور پھر کہا کہ " جو شخص ہمارے اس کیف میں ہمارا شریک مسرت ہے اصل مسرت اسی کی ہے اور جو شخص ہمارے اس کیف ومسرت سے ناراض ہے وہ گھاٹے میں ہے " تو وہ کافر ہوگیا ۔ اسی طرح وہ شراب پینے میں مشغول تھا تو اس نے کہا کہ مسلمان ہونے کو آشکارا کر رہا ہوں یا مسلمان ہونا ظاہر ہو رہا ہے تو اس سے کافر ہو جائے گا ۔ اگر بدکار اور شرابی نے یہ کہا کہ اگر شراب کا کوئی قطرہ گر جائے گا ۔ تو جبرائیل علیہ السلام اپنے پیروں سے اٹھائیں گے تو اس سے وہ کافر ہو جائے گا ۔
ایک فاسق سے کسی نے کہا کہ تو ہر دن اس طرح صبح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور مخلوق اللہ کو تکلیف دیتا ہے ، اس نے کہا خوب کرتا ہوں تو وہ کافر ہو جائے گا ۔ گنا ہوں کے متعلق کسی نے کہا کہ یہ بھی ایک مذہب ہے تو وہ اس کی وجہ سے کافر ہو جائے گا ۔ محیط میں ایسا ہی ہے اور تجنیس ناطقی میں ہے کہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ کہنے والا کافر نہیں ہوتا ،
اسی طرح وہ بھی کافر ہوگا جو تسبیح وتہلیل کے وقت یہ جملے کہے ۔ ایک شخص نے سبحان اللہ کہا ، دوسرے نے کہا کہ تو نے سبحان اللہ کی رونق ختم کر دی ، یا کہا کہ تو نے اس کی کھال ادھیڑ دی تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ کسی سے کہا گیا کہ تم لا الٰہ الا اللہ نہیں کہتا تو وہ کافر ہوگا اور بعضوں نے کہا کہ مطلقًا کافر ہوجائے گا اور اگر جواب میں یہ کہا کہ تو نے یہ کلمہ پڑھ کر کیا بلندی حاصل کر لی کہ میں کہوں ، تو بھی کافر ہوجائے گا ، ایک بادشاہ کو چھینک آئی ، اس کی چھینک پر کسی نے کہا (یرحمک اللہ) ۔ دوسرے نے یرحمک اللہ کہنے والے سے کہا کہ بادشاہ کے لئے اس طرح مت کہو تو یہ کہنے والا کافر ہوجائے گا ۔
وہ موجبات کفر جن کا تعلق یوم قیامت اور قیامت سے متعلق چیزوں سے ہے
جو کوئی قیامت یا جنت دوزخ یا میزان وپل صراط اور نامہ اعمال کا انکار کر دے تو وہ کافر ہوجائے گا ، اسی طرح کوئی مرنے کے بعد پھر جی اٹھنے کا انکار کر دے تو وہ بھی کافر ہے ۔
کوئی شخص یہ کہے " میں یہ نہیں جانتا کہ یہود وانصاری قیامت میں جب اٹھائے جائیں گے تو وہ آگ کے عذاب کے مبتلا کئے جائیں گے یا نہیں تو اس کہنے سے وہ کافر ہوجائے گا ۔ اسی طرح وہ شخص بھی کافر ہو جاتا ہے جو جنت میں داخل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے دیدار کا انکار کر دے ۔ یا مرنے کے بعد عذاب قبر کا انکار کرے یا انسان کے حشرونشر کا انکار کر لے ، لیکن انسان کے علاوہ دوسری مخلوق کے حشر کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہوتا اسی طرح وہ بھی کافر نہیں ہوتا جو یہ کہے کہ عذاب اور ثواب کا تعلق صرف روح سے مخصوص ہے ۔
ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ گناہ نہ کرو اس لئے کہ ایک دوسری دنیا بھی ہے جہاں حساب وکتاب ہوگا اس نے جواب دیا کہ اس دنیا کی کس کو خبر ہے تو وہ کافر ہو جائے گا ۔ ایک شخص کا دوسرے کے ذمہ قرض باقی تھا ، اس نے اس کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر یہاں تم نہیں دیتے ہو تو قیامت میں تم سے وصول کر لوں گا اس نے جواب میں کہا جی ہاں قیامت قائم ہوگی ؟ تو اگر اس نے قیامت کی توہین کے ارادہ سے ایسا کہا تو کافر ہو جائے گا ۔
ایک شخص نے دوسرے پر ظلم وستم ڈھایا ، اس پر مظلوم نے کہا آخر قیامت کا دن آنے والا ہے اس لئے ڈرو اس نے جواب میں کہا فلاں گدھا قیامت میں ہوگا تو اس سے کافر ہوجائے گا ایک شخص نے اپنے قرضدار سے کہا میرے روپے دنیا میں دیدے قیامت میں روپیہ نہ ہوگا اس نے کہا کہ اچھا دس روپے اور دیدو اس دنیا میں لے لینا یا میں تمہیں وہاں دے دوں گا تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا کسی نے کہا کہ مجھے حشر سے کیا کام ہے ، یا یہ کہا کہ میں قیامت سے نہیں ڈرتا تو وہ کافر ہوجائے گا ۔
کسی نے اپنے دشمن سے کہا کہ میں اپنا حق تجھ سے قیامت میں وصول کر لوں گا اس نے کہا اس دن اس بھیڑ میں مجھے کہاں پائے گا ؟ مشائخ کو اس کے کفر میں اختلاف ہے فقیہ اللیث کہتے ہیں کہ وہ اس کہنے سے کافر نہ ہوگا ۔
کسی نے کہا اس دنیا میں سب اچھا رہنا چاہے اس دنیا میں جو ہوگا سو ہوگا تو وہ کافر ہو جائے گا ۔ ایک شخص سے کہا گیا کہ تم آخرت کے پیش نظر دنیا سے گریز کرو اس نے کہا کہ نقد چھوڑ کر ادھار پر کون بھروسہ کرے ؟ تو وہ کافر ہوجائے گا ۔
کسی نے کہا کہ جو اس دنیا میں بے عقل وخرد ہوگا وہ اس دنیا میں اس شخص کی طرح ہوگا جس کی تھیلی پھٹی ہوئی ہے یعنی ناکارہ ہوگا امام ابوبکر محمد بن الفضل نے کہا کہ اگر اس سے اس کا منشا آخرت کے ساتھ تمسخر اور طنز ہے تو یہ باعث تکفیر ہوگا ۔ کسی نے کسی سے کہا کہ میں تیرے ساتھ دوزخ میں جاؤں گا لیکن اندر نہیں آ سکتا تو وہ کافر ہوجائے گا ۔
اگر کسی نے کہا کہ جب تک تم رضوان جنت کے لئے کچھ نہیں لے جاؤ گے تو وہ جنت کا دروازہ نہیں کھولے گا تو اس کہنے سے کافر ہوجائے گا ۔ کسی نے بھلائی کا حکم دینے والوں سے کہا کہ یہ کیا ہنگامہ مچا رکھا ہم اگر یہ انکار و رد کے طور پر کہا ہے تو اس کے کافر ہو جانے کا خوف ہے کسی نے ایک شخص سے کہا کہ فلاں کے گھر جا کر بھلی بات کا حکم کرو ، جواب میں کہا کہ اس نے میرے ساتھ کیا کیا ہے یا مجھے اس کو اذیت دینے کی کیا وجہ ہے ؟ یا کہا میں الگ تھلگ ہوں اس فضول کام سے کیا واسطہ ؟ تو یہ سب کفریہ الفاظ ہیں ۔
کسی نے ایک شخص سے تعزیت کرتے ہوئے کہا جو اس کی جان سے کم ہوا وہ تم پر زیادہ ہو تو اس سے بھی کفر کا خوف ہے ۔ یا کہا کہ تم پر زیادہ کیا جائے تو یہ جہالت اور غلطی ہے یہ کہا کہ فلاں کی جان کم ہو کر تیری جان پر آ گیا ، تو یہ بھی جہالت ہے اور اگر یہ کہا کہ وہ مر گیا لیکن اپنی جان تیرے سپرد کر گیا تو کافر ہو جائے گا ۔ ایک شخص بیمار تھا وہ اچھا ہوا دوسرے نے اس سے کہا فلاں گدھا پھر بھیج دیا تو یہ بھی کفر ہے ۔
ایک شخص بیمار ہوا اور اس کی بیماری بہت بڑھ گئی اور اس نے طول کھینچا بیمار نے اکتا کر اللہ کو خطاب کر کے کہا کہ خواہ تو حالت اسلام پر موت دے یا حالت کفر پر تو یہ بھی باعث کفر ہے ۔

وہ موجبات کفر جن کا تعلق تلقین کفر وارتداد وغیرہ سے ہے
جب کوئی کسی کو کلمہ کفر کی تلقین کرے گا تو وہ کافر ہوجائے گا ۔خواہ یہ کھیل کود اور ہنسی مذاق ہی کے طور پر کیوں نہ ہو اسی طرح وہ بھی کافر ہوجائے گا جو کسی کی بیوی کو حکم دے کہ تو مرتد ہو جا اور اس طرح اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرلے ، امام اعظم اور امام ابویوسف سے یہی روایت ہے ایک شخص نے کسی کو حکم دیا کہ تو کافر ہو جا تو حکم دینے والا کافر ہوجائے گا خواہ جس کو حکم دیا گیا ہے وہ کافر ہو یا نہ ہو ۔ امام ابواللیث فرماتے ہیں کہ جس وقت کوئی شخص کسی کو کلمہ کفر کی تعلیم دے گا وہ کافر ہوجائے گا ۔ اسی طرح اگر کسی مرد یا عورت کو مرتد ہونے کا حکم دے گا تو بھی وہ کافر ہوگا ۔
امام محمد فرماتے ہیں کہ ایک شخص کو مجبور کیا گیا کہ وہ کفر زبان سے نکالے ورنہ اس کے ساتھ ایسا ایسا کرے گا یعنی جان یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی دی گئی اس نے خوف سے کلمہ کفر زبان سے کہدیا تو اس کی چند صورتیں ہوگی اگر اس نے کلمہ کفر اس طرح زبان سے ادا کیا کہ اس کا دل ایمان پر بالکل مطمئن ہے دل میں کفر کا کھٹکا تک بھی نہیں گذرا صرف زبان سے کلمہ کفر سرزد ہوا ہے تو اس صورت میں نہ قضاء اس کی تکفیر کی جائے گی اور نہ وہ عند اللہ کافر ہوگا ، اور اگر کلمہ کفر زبان سے کہنے والا کہے کہ میں نے یہ سوچا تھا کہ اپنے بارے میں زمانہ ماضی میں کفر کی جھوٹی خبر دے کر چھٹکارا حاصل کر لوں میں نے مستقل کفر کا ارادہ نہیں کیا تھا تو اس صورت میں قضا یعنی قانونًا اس کے کفر کا فیصلہ دیا جائے گا اور قاضی اس میں اور اس کی بیوی میں تفریق کر دے گا اور اگر وہ یہ کہے کہ کلمہ کفر کہتے وقت میرے دل میں یہ بات گذری کہ گذرے کہ زمانہ میں کفر کی جھوٹی خبر دے دوں لیکن زمانہ میں جھوٹے کفر کا میں نے ارادہ نہیں کیا بلکہ ایام مستقبل میں ارادہ کیا تو اس صورت میں اللہ کے نزدیک بھی کافر ہوجائے گا اور دنیا کے حکم میں بھی ۔
ایک شخص کو مجبور کیا گیا کہ وہ صلیب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے چنانچہ اس نے پڑھی تو اس کی تین صورتیں ہوں گی ۔
(١) اگر وہ یہ کہتا ہے کہ زبردستی کی وجہ سے صلیب کی طرف نماز پڑھ لی ہے لیکن دل میں کوئی وہم اس کی عقیدت کا نہیں گذرا ہے تو وہ کافر نہیں ہوگا نہ قضاءً اور نہ فی ما بینہ وبین اللہ ۔
(٢) اگر وہ یہ کہتا ہے کہ میرے دل میں یہ بات گذری کہ اللہ تعالیٰ کے لئے نماز پڑھ رہا ہوں نہ کہ صلیب کے لئے تو اس صورت میں بھی وہ کافر نہ ہوگا ۔
(٣) اگر وہ یہ کہتا ہے کہ میرے دل میں یہ بات گذری کہ میں اللہ کے لئے نماز پڑھوں لیکن میں اس کو چھوڑ دیا اور صلیب کے لئے نماز پڑھی تو اس صورت میں وہ قضاءً بھی کافر ہوگا اور فی ما بینہ وبین اللہ بھی ۔

ایک مسلمان سے کہا گیا کہ تم بادشاہ کو سجدہ کرو ورنہ ہم تمہیں قتل کر ڈالیں گے تو افضل یہ ہے کہ سجدہ نہ کرے ایک شخص نے کلمہ کفر زبان سے جان بوجھ کر نکالا لیکن کفر کا اعتقاد پیدا نہیں ہوا تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ کافر نہیں ہوگا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ کافر ہوجائے گا اور یہی صحیح ہے ۔ ایک شخص نے کلمہ کفر زبان سے ادا کیا لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کفر کا کلمہ ہے مگر اس نے یہ اپنے اختیار سے کہا ہے کہ تمام علماء کے نزدیک ہوجائے گا ۔ اور جہالت عذر شمار نہ ہوگی اور بعض لوگوں نے کہا کہ کافر نہیں ہوگا مذاق کرنے والا یا ٹھٹھا کرنے والا جب کلمہ کفر استخفاف کے طور پر بالذات آفرینی کے طور پر بکے گا تو وہ تمام کے نزدیک کافر قرار دیا جائے گا اگرچہ اس کا اعتقاد اس کے خلاف ہو ۔
ایک شخص کی زبان سے کلمہ کفر غلطی سے جاری ہوگیا اس طرح کہ وہ دوسرا کلمہ بولنا چاہئے تھا لیکن آگیا کفر کا کلمہ تو وہ کافر نہیں ہوگا مجوسیوں کی ٹوپی سر پر رکھنے سے مسلمان کافر ہو جاتا ہے البتہ گرمی یا سردی سے بچنے کے لئے ایسا کرے تو کافر نہ ہوگا زنار یعنی حینؤ پہننے سے مسلمان کافر ہو جاتا ہے لیکن اگر لڑائی میں جاسوسی کے لئے ایسا کرے تو کافر نہ ہوگا ۔
کسی نے کہا کہ تو جو کچھ کر رہا ہے اس سے بہتر کفر کرنے والا ہے ، اگر اس سے نیت کفر کا اچھا جاننا ہے تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اور بعض علماء جیسے فقیہ ابواللیث کہتے ہیں کہ صرف اس جملہ سے آدمی کافر ہو جاتا ہے خواہ اس کی نیت کچھ بھی ہو ۔ مجوس نو روز کے دن جو کچھ کرتے ہیں اگر مسلمان اس کی موافقت میں ان کے ساتھ نکلے گا تو کافر ہوجائے گا ، کھانے پینے اور ضروریات زندگی کی چیز خریدنے سے کافر نہیں ہوگا ، اس دن اگر کوئی مسلمان مشرکوں کو اس دن کی تعظیم کے اظہار کے لئے کوئی تحفہ بھیجے خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو تو وہ کافر ہوجائے گا ہاں اگر ان کے بچوں کی رسم مونڈن میں دعوت قبول کرے تو اس سے کافر نہ ہوگا ۔
کفار کی باتوں اور معاملہ کو اچھاجاننے والا کافر ہوجاتا ہے مثلاً یہ کہے کہ کھانے کے وقت مجوس کا یہ مذہب بہتر ہے کہ اس وقت گفتگو نہ کی جائے یا مجوس کی یہاں یہ اچھا ہے کہ حالت حیض میں بیوی کو ساتھ لیٹنے بھی نہ دیا جائے ، اس کہنے سے کافر ہوجائے گا کسی نے کسی شخص کی عزت وجاہ کی وجہ سے اس کے جوڑے پہننے کے وقت جانور ذبح کیا تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اور یہ ذبیحہ مردار ہے اس کا کھانا جائز نہیں ۔ اسی طرح غیر اللہ کی عظمت کے اظہار کے لئے گائے ، اونٹ یا کسی جانور کا ذبح کرنا یا غازیوں اور حاجیوں کی واپسی پر اس کی عظمت کے اظہار کے لئے ایسا کرنا باعث کفر ہے ۔
جو جانور کسی دیوی دیوتا یا بزرگ کے نام پر چھوڑا گیا اور نامزد کر کے اس کو شہرت دیدی گئی جسے اور بدعقیدہ لوگ کوئی جانور مثلا بکرا چھوڑا دیتے ہیں اور کہتے پھرتے ہیں کہ یہ بکرا شیخ سدو کے نام پر ہے یا یہ گائے احمد کبیر کی ہے یا یہ مرغا مدار صاحب کا ہے وغیرہ وغیرہ یا کسی غیر اللہ کے نام کی عظمت اور تقریب کے لئے کیا گیا تو یہ سب کفر کی باتیں ہیں ، اسی طرح بزرگوں کی قبر پر یا دریا کے کنارے جانور ذبح کرنا یا کسی دیوی دیوتا کو بھوگ دینا یہ سب کام ایسے ہیں کہ ان کی وجہ سے آدمی کافر ہو جاتا ہے اور ایسا ذبیح مردار کے حکم میں ہے اس کا کھانا درست نہیں اس سے کوئی فرق نہیں ہوتا کہ ان مواقع پر جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو دونوں صورتوں میں وہ حرام ہے کیونکہ جب غیر اللہ کے نام پر نامزد ہو چکا ہے تو بسم اللہ پڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ایسا ہی الاشباہ النظائر ، تنویر الابصار ، درمختار ، منح الغفار ، فتاوٰی عالمگیری اور مطالب المؤمنین وغیرہ کتابوں میں مذکور ہے ۔
ان میں سے بعض کتابوں میں یہ بھی صراحت ہے کہ ایسے غیر اللہ کے نام پر چھوڑے ہوئے جانوروں کا ذبح کرنے والا کافر ہے اور یہ ذبیحہ حرام ہے علماء میں ابوحصص کبیر ابوعلی دقاق ، عبداللہ کاتب ، عبد الواحد ، اور ابوالحسن نووی وغیرہ مشہور علماء نے یہی لکھا ہے۔ اور اس کو صحیح کہا ہے اور تفسیر نیشاپوری میں ہے کہ تمام علماء کا اس مسئلہ میں اتفاق ہے کہ جو مسلمان کسی جانور کو اللہ کے سوا کسی اور کے تقرب وتعظیم کے لئے ذبح کرے وہ مرتد ہے اور اس کے ذبح کئے ہوئے جانور کا وہی حکم ہے جو ایک مرتد کے ذبح کئے ہوئے جانور کا ہے اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ وہ شخص معلون ہے جو غیر اللہ کے تقرب وتعظیم کے لئے جانور ذبح کرے جیسا کہ حدیث کی مشہور کتاب مشکوٰۃ شریف میں ہے اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے اپنی کتاب تفسیر عزیزی میں آیت ( وَمَا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِه ) 16۔ النحل : 115) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ جانور جو غیر اللہ کے نام کے ساتھ شہرت دیا گیا ہے وہ خنزیر سے بدتر اور مردار ہے جن حضرات کو تفصیل مطلوب ہو ان کو چاہیے کہ وہ تفسیر عزیزی کے مطالعہ کریں انشاء اللہ اس کے مطالعہ سے یہ مسئلہ منقع ہو کر ان کے ذہن نشین ہوجائے گا ۔
ایک عورت نے اپنی کمر پر رسی باندھ کر کہا کہ یہ زنار (جینؤ) ہے تو وہ کافر ہوگئی ایک شخص نے اس طرح کہا کہ خیانت کرنے سے بہتر کافر ہی ہے تو اکثر علماء کہتے ہیں کہ وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا اس اور اسی پر ابوالقاسم صغار کا فتویٰ ہے ایک شخص نے عورت کو مارا اس عورت نے کہا تو مسلمان نہیں ہے تو مرد نے یہ سن کر کہا ہاں میں مسلمان نہیں ہوں تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا ایک شخص نے کہا کیا تو مسلمان نہیں ہے اس نے کہا نہیں تو یہ بھی کافر ہے ایک عورت نے اپنے شوہر سے کہا کہ تمہارے اندر دینی حمیت اور اسلامی غیرت نہیں کہ تم اسے پسند کرتے ہو کہ میں اجنبی مردوں کے ساتھ خلوت کروں ؟ خاوند نے جواب میں کہا ہاں مجھ میں دینی حمیت اور اسلامی غیرت نہیں ہے تو وہ اس سے کافر ہوجائے گا ۔
ایک مرد نے کہا اپنی بیوی کو اس طرح مخاطب کیا اے یہودیہ ، اے مجوسیہ اے کافرہ ! عورت نے یہ سن کر کہا کہ میں ایسی ہی ہوں یا کہا ایسی ہوں تو مجھے طلاق دے دو یا یہ کہا کہ اگر ایسی ہوتی تو تمہارے ساتھ کیسی رہتی یا نہ رہتی یا یہ کہا کہ اگر ایسی نہ ہوتی تو تمہارے ساتھ صحبت نہ کرتی یا تم مجھے نہ رکھتے تو اس کہنے سے وہ عورت کافر ہوجائے گی ، اور اگر اس کے جواب میں یہ کہا کہ اگر میں ایسی ہوں تو تم مجھے نہ رکھو تو اس سے کافر نہ ہوگی ، اور اگر کسی بیوی نے اپنے شوہر کو مخاطب کیا اے کافر اے یہودی ، اے مجوسی ،! پس شوہر نے اس کے جواب میں کہا اگر ایسا نہ ہوتا تو تم کو نہ رکھتا تو وہ اسی کیوجہ سے کافر ہوگیا ، اور اگر کہا کہ اگر میں ایسا ہوں تو تم میرے ساتھ نہ رہو تو اس صورت میں وہ کافر نہ ہوگا ۔
اور اگر کسی اجنبی سے کہا اے کافر یہودی ! اس نے کہا کہ میں ایسا ہی ہوں میرے ساتھ تم مت رہو یا کہا اگر ایسا نہ ہوتا تو تمہارے ساتھ نہ رہتا یا اسی طرح کا کوئی جملہ کہا تو وہ کافر ہوجائے گا ایک شخص نے ایک کام کا ارادہ کیا اس کی بیوی نے اس سے کہا کہ اگر تم یہ کام کرو گے تو کافر ہو جاؤ گے اس شوہر نے وہ کام کیا اور عورت کی بات پر توجہ نہ دی تو وہ شوہر کافر نہ ہوگا ۔ اپنی بیوی کو کسی نے مخاطب کر کے کہا اے کافرہ !بیوی نے کہا میں نہیں تم ہو ، کسی عورت نے اپنے شوہر سے کہا اے کافر ! شوہر نے کہا کہ میں نہیں بلکہ تو کافرہ ہو تو اس سے میاں بیوی میں جدائی واقع نہیں ہوگی اور اگر کسی اجنبی مسلمان سے کہا اے کافر یا اجنبی عورت کو کہا اے کافرہ اور مخاطب مرد وعورت نے جواب میں کچھ نہیں کہا یا کسی شوہر نے اپنی بیوی کو کہا اے کافرہ ! اور عورت نے کچھ جواب نہ دیا یا بیوی نے اپنے شوہر کو کافر کے ساتھ خطاب کیا اور شوہر نے کچھ جواب نہ دیا تو اس صورت میں ابوبکر اعمش بلخی کا قول ہے کہ کہنے والا کافر ہے اور بقیہ دوسرے علماء بلخ کہتے ہیں کہ وہ کافر نہیں ہوتا ، اور صحیح جواب یہ ہے کہ اگر کہنے والے کا ارادہ صرف برا بھلا کہنا مقصد ہے تو وہ کافر نہیں ہوتا اور اگر وہ اعتقاد بھی یہ ہی رکھتا ہے کہ یہ مسلمان کافر ہے اور پھر اس کو کافر سے خطاب کرتا ہے تو البتہ وہ اس کی وجہ سے کافر ہوجائے گا ۔
اگر کوئی عورت اپنے بچے کو کافر بچہ کے ساتھ خطاب کرے تو یہ باعث کفر نہیں ہے اور بعضوں نے کہا ہے کہ یہ کفر ہے اسی طرح کوئی مرد اپنے بچہ کو ان الفاظ سے خطاب کرے تو وہ بھی کافر نہیں ہے اور اگر اپنے جانور کو کہا اے کافر تو اس سے کافر نہ ہوگا اور کسی شخص نے کسی مسلمان کو اے کافر اے یہودی یا اے مجوسی کہہ کر خطاب کیا اور اس مسلمان نے جواب میں لبیک کہا تو وہ کافر ہوگا ۔ اگر یوں کہے کہ میں ڈر گیا کہ کہیں کافر نہ ہو جاؤں تو اس سے کافر نہ ہوگا اگر کسی نے کسی سے کہا کہ تو نے مجھے اتنا ستایا کہ میرا جی چاہا کہ کافر ہو جاؤں تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ کسی نے کہا کہ یہ زمانہ مسلمان رہنے کا نہیں بلکہ یہ زمانہ کافری کا ہے ۔ بعضوں نے کہا اس سے کافر ہو جائے گا اور صاحب محیط نے لکھا ہے کہ میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ وہ کافر نہ ہوگا ۔
ایک مجوسی اور ایک مسلمان ایک جگہ ساتھ ساتھ تھے ایک شخص نے مجوسی کو پکارا کہ اے مجوسی اب اگر مسلمان نے یہ سمجھ کر جواب دیا کہ مجھے پکار رہا ہے تو وہ کافر نہیں ہوگا بشرطیکہ وہ دونوں اس پکارنے والے کے کسی ایک کام میں مشغول تھے ، اور اگر دونوں کسی ایک کام میں مشغول نہ تھے بلکہ الگ الگ کاموں میں مشغول تھے تو اس پر کفر کا خوف ہے ۔ اگر مسلمان کہے کہ میں ملحد ہوں تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اور اگر وہ کہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس جملہ سے آدمی کافر ہو جاتا ہے تو اسے اس کی وجہ سے معذور قرار نہیں دیا جائے گا ایک شخص نے ایک جملہ زبان سے نکالا جسے لوگوں نے کفریہ کلمہ سمجھا حالانکہ درحقیقت وہ کلمہ کفر نہ تھا مگر اس سے ان لوگوں نے کہا کہ تو کافر ہوگیا اور تیری بیوی کے درمیان جدائی واقع ہوگئی ، اس کے جواب میں اس نے کہا کافر شدہ گیر، وزن طلاق شدہ گیر ، تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اور اس کی بیوی اور اس کے درمیان جدائی واقع ہوجائے گی ۔
ایک شخص نے کہا کہ میں فرعون ہوں یا کہا کہ میں ابلیس ہوں تو اس سے وہ کافر ہوجائے گا ایک شخص نے ایک بدکار کو نصیحت کی اور توبہ کی ترغیب دی اس کے جواب میں اس نے کہا از پس ایں ہمہ کلاہ مغاں پرسر نہم تو وہ اس سے کافر ہوجائے گا ایک عورت نے اپنے شوہر سے کہتا کہ تمہارے ساتھ رہنے سے کافر ہونا بہتر ہے تو وہ کافر ہوجائے گی ۔ ایک عورت نے کہا کہ اگر میں ایسا کام کروں تو کافر ہوں ابوبکر محمد بن الفضل کہتے ہیں کہ اس کہنے سے وہ عورت کافر ہوگئی اور اس کا نکاح ٹوٹ گیا اور قاضی علی السعدی کا کہنا ہے کہ یہ جملہ تعلیق ویمین ہے کفر نہیں ہے ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا کہ تم اس کے بعد مجھ پر ظلم کرو گے یا یہ کہا کہ اگر تم میرے لئے ایسی چیز نہ خریدو گے تو میں کافر ہو جاؤ نگی تو وہ فوراً یہ کہتے ہی کافر ہوگئی ۔
ایک شخص نے تمثیل کے طور پر کہا کہ میں مجوسی تھا مگر مسلمان ہوگیا یہ صرف زبان سے بطور حکایت کہا اعتقادًا نہ کہا تو بھی وہ کافر ہوجائے گا اگر کوئی مسلمان کسی آدمی کو سجدہ تحیتہ کرے گا تو وہ اس سے کافر نہ ہوگا ایک شخص نے کسی مسلمان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تم سے تمہارا ایمان چھین لے اس نے اس کے جواب میں آمین کہا تو وہ دونوں کافر ہو جائیں گے کسی شخص نے کسی کو تکلیف دی اس نے کہا کہ مجھے مت ستاؤ میں مسلمان ہوں ستانے والے نے جواب دیا چاہے مسلمان رہو چاہے کافر تو وہ ایذاء دینے والا کافر ہوجائے گا یا کہا کہ اگر تو کافر بھی ہو جائے تو میرا کیا نقصان تو اس سے بھی کافر ہوجائے گا ۔
ایک کافر نے اسلام قبول کیا لوگوں نے اس کو تحفے ہدئیے دیئے ایک مسلمان نے یہ دیکھ کر کہا کہ کاش میں بھی کافر ہوتا اور پھر مسلمان ہوتا تو لوگ مجھ کو بھی تحفے ہدیئے دیتے یا اس نے یہ بات کہی نہیں لیکن دل میں آرزو کی تو وہ کافر ہوگیا ۔ ایک شخص نے آرزو کی کہ اللہ تعالیٰ شراب کو حرام نہ کرتا تو اس سے وہ کافر نہ ہوگا ۔ اور اگر کسی نے یہ آرزو کی کہ اللہ تعالیٰ ظلم وزنا کو حرام نہ کرتا یا ناحق قتل وخون ریزی کو حرام نہ کرتا تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اس لئے کہ یہ وہ چیزیں ہیں کہ کبھی بھی حلال نہ رہیں گویا پہلی صورت میں ایسی چیز کی آرزو کی جو محال نہیں اور دوسری میں ایسی چیز کی آرزو کی جو محال ہے اسی طرح اگر کوئی آرزو کرے کہ بھائی بہن کے درمیان نکاح حرام نہ ہوتا تو اس سے کافر نہ ہوگا ۔ اس لئے کہ یہ شروع میں حلال رہ چکا ہے لہٰذا محال نہیں کہا جائے گا ۔ ماحصل یہ ہوا کہ جو چیز کبھی حلال تھی اور بعد میں حرام ہوگئی اس کے حلال ہونے کی تمنا کرنا موجب کفر نہیں ہے ۔
ایک مسلمان نے کسی خوبصورت گداز بدن عیسائی عورت کو دیکھ کر آرزو کی کہ کاش میں عیسائی ہوتا کہ اس سے بیاہ کر سکتا ، تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ ایک شخص نے کسی سے کہا حق بات پر میری مدد کرو اس نے کہا کہ کہیں مدد حق پر کی جاتی ہے میں ناحق پر البتہ تیری مدد کروں گا تو وہ اس کی وجہ سے کافر ہوجائے گا ۔
اگر کوئی یہ کہے کہ میں نے اس درخت کو پیدا کیا ہے تو وہ اس کہنے سے کافر نہیں ہوا اس لئے کہ اس کی مراد درخت لگانا سمجھی جائے گی ہاں اگر کوئی حقیقتًا پیدا کرنا مراد لے تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ ایک شخص نے کہا کہ جب تک میرے یہ بازو موجود ہیں میری روزی کم نہ ہوگی تو بعض مشائخ نے کہا کہ اس کی وجہ سے وہ کافر ہوجائے گا اور بعضوں نے کہا ہے کہ اس پر کفر کا خوف ہے ! اگر کوئی یہ کہے کہ درویشی یا تصوف بدبختی ہے تو یہ بہت بری بات ہے ۔
کسی نے چاند کے گرد کوئی دائرہ دیکھا اور دعوی کیا کہ بارش ہوگی اور اس طرح اس نے غیب کا دعوی کیا تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ ایک نجومی نے کسی سے کہا کہ تیری بیوی حاملہ ہے اور اس نے اس پر اعتقاد جما لیا تو وہ کافر ہوگیا ۔ ایک شخص نے الو کی آواز سنی اور پھر کسی سے کہا کہ بیمار مر جائے گا یا کوئی مصیبت آئے گی یا اسی طرح کوا بولا اور اس کی آواز سن کر کسی نے کہا کہ کوئی سفر سے آ رہا ہے تو ایسے شخص کے کفر میں مشائخ کے اختلافی اقوال ہیں ۔ کسی نے کوئی ناجائز بات کہی دوسرے نے اس سے کہا کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اس کہنے سے تم کافر ہو جاؤ گے! اس نے کہا کہ پھر میں کیا کروں کافر ہوتا ہوں گا تو ہو جاؤں گا تو وہ کافر ہوجائے گا ۔
ایک شخص نے قرأت کے دوران حرف ضاد کی جگہ زا پڑھا یا اصحاب الجنۃ کی جگہ اصحاب النار پڑھا تو ایسے شخص کی امامت جائز نہیں ہے اگر کوئی قصدًا ایسا پڑھے گا تو وہ کافر ہوجائے گا ۔۔ جو شخص کہے قسم ہے تیری زندگانی کی یا میری زندگانی کی یا اسی طرح کی کوئی اور قسم کھائے تو اس پر کفر کا خوف ہے ۔ ایک شخص نے کہا کہ رزق تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے مگر وہ بندے سے حرکت چاہتا ہے تو بعضوں نے کہا یہ شرک ہے ایک شخص نے کہا کہ میں ثواب وعذاب سے بری ہوں تو کہا گیا کہ اس سے کافر ہو جائے گا ۔ اگر کسی نے کہا کہ فلاں شخص جو کچھ بھی کہے گا میں کروں گا اگرچہ وہ کفر ہی کیوں نہ ہو تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اگر کوئی کہے کہ میں مسلمان ہونے سے بیزار ہوں تو وہ کافر ہوجائے گا ۔
مامون رشید کے زمانے کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ خلیفہ وقت نے ایک فقیہ سے اس شخص کے متعلق سوال کیا جس نے کسی کپڑا بننے والے کو قتل کر دیا تھا کہ اس قاتل پر کیا واجب ہوگا فقیہ نے کہا تعزیر واجب ہے مامون نے حکم دیا کہ فقیہ کو پیٹا جائے چنانچہ اسے پیٹا گیا یہاں تک کہ وہ مر گیا ، پھر مامون نے کہا کہ میں نے یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ اس نے شریعت کے ساتھ استہزا کیا اور شریعت کے ساتھ اس طرح کا مذاق کفر ہے ایک فقیر کالی کملی اوڑھے ہوئے تھا کسی نے اس کو دیکھ کر مدثر کہا تو یہ کفر ہے ۔
جو ظالم بادشاہ کو عادل کہے وہ کافر ہے اور بعضوں نے کہا کہ وہ کافر نہیں ہوتا ہے اگر کوئی کسی ظالم کو اے اللہ سے خطاب کرے گا تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اور اگر کہے اے بار اللہ تو اکثر مشائخ کہتے ہیں اس سے کافر نہیں ہوگا ایک عالم صغار نامی سے ان خطیبوں کے متعلق سوال کیا گیا جو جمعہ کے دن منبروں پر خطبہ پڑھتے ہیں اور سلطان کو العادل الاعظم یا شہنشاہ الاعظم یا مالک رقاب الامم یا سلطان ارض اللہ یا مالک بلاد اللہ یا معین خلیفۃ اللہ کے لقب سے یاد کرتے ہیں کیا بادشاہوں کو خطبہ میں ان القاب کے ساتھ یاد کرنا جائز ہے یا ناجائز ؟ تحقیق اس مسئلہ میں کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ ان القاب کے بعض الفاظ کفر ہیں اور بعض معصیت اور کذب ہیں ۔ اور شہنشاہ کا لفظ بغیر اعظم کی صفت کے اللہ تعالیٰ کے اسماء کے لئے مخصوص ہے اس کے ساتھ بندوں کی صفت بیان کرنا جائز نہیں ہے اور مالک رقاب الامم کا جملہ بادشاہ کے لئے صریح جھوٹ ہے اسی طرح بادشاہ کو سلطان ارض اللہ یا اس طرح کے لقب سے یاد کرنا بھی جھوٹ ہے ۔
امام ابومنصور نے کہا کہ اگر کوئی کسی کے آگے زمین بوسی کرے یا اس کے سامنے جھکے ، یا اپنا سر جھکائے تو وہ کافر نہیں ہوگا ۔ اس لئے کہ اس کا منشا تعظیم وتکریم ہے عبادت نہیں ہے اور دوسرے مشائخ نے کہا کہ جابروں کے سامنے سجدہ ریز ہونا گناہ کبیرہ ہے اور بعض عالموں نے کہا کہ اس سے وہ مطلقاً کافر ہو جاتا ہے اور بعضوں نے کہ اس میں تفصیل ہے اگر عبادت کا ارادہ کیا تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اور اگر تعظیم کا ارادہ کیا تو کافر نہ ہوگا مگر اس کا یہ فعل حرام ہوگا اور اگر کوئی ارادہ سرے سے پایا ہی نہ جائے تو بھی اکثر کے نزدیک کافر ہوگا زمین چومنا سجدہ کرنے کے برابر ہے ہاں زمین پر پیشانی یا رخسار رکھنے سے ہلکا جرم ہے ، اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ خراج ، سلطان کی ملکیت ہے تو یہ کفر ہے ! اگر کوئی کسی کے ساتھ برائی سے پیش آئے اور وہ یہ کہے کہ یہ سب تیری لائی ہوئی مصیبت ہے اللہ کو اس میں دخل نہیں ہے تو یہ بھی کفر ہے اگر کوئی بادشاہ کے خلعت زبیب تن کرتے وقت اس کی خوشنودی اور مبارکبادی کے لئے قربانی کرے گا تو کافر ہوگا اور یہ قربانی مردار کے حکم میں ہوگی اور اس کا کھانا درست نہ ہوگا ۔
کہیں کہیں یہ جو ہندوانہ رواج ہے کہ جب کسی کو چیچک نکلتی ہے تو عورتیں کسی پتھر کا نام چیچک رکھ دیتی ہیں اور اس کی پوجا کر کے بچوں کی چیچک سے شفا چاہتی ہیں اور اعتقاد رکھتی ہیں کہ اس سے بچہ اچھا ہو جائے گا یہ باعث کفر ہے اور وہ عورتیں کافر ہو جاتی ہیں اور اگر ان کے شوہر بھی اسے پسند کریں تو وہ بھی کافر ہیں۔ اسی طرح دریا کے کنارے جا کر پانی کو پوجنا اور وہاں بکری وغیرہ ذبح کرنا بھی خالص مشرکانہ رسم ہے اور باعث تکفیر ہے اور وہ بکری مردار کے حکم میں ہے اور اس کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے ایسے ہی گھر میں تصویر بنا کر رکھنا اور اس کی پرستش کرنا جیسا کہ آتش پرست کرتے ہیں ۔ یا بچہ پیدا ہونے کے وقت شنگرف سے نقشہ بنانا اور اس میں تیل ڈالنا اور پھر بھوانی بت کے نام سے اس کی پوجا کرنا یا اس طرح اور جو دوسرے کام کئے جاتے ہیں یہ سب مشرکانہ رسم اور کفر کا باعث ہیں چنانچہ جو عورتیں یہ سب کچھ کرتی ہیں وہ کافر ہو جاتی ہیں اور ان کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے ۔

اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ آجکل جب تک خیانت نہ کرو اور جھوٹ نہ بولو گزارہ نہیں ہو سکتا ہے کہ جب تک خرید وفروخت میں تم جھوٹ نہ بولو گے روٹی نہیں ملے گی ، یا کسی سے کوئی کہے کہ تم کیوں خیانت کرتے ہو ، یا کیوں جھوٹ بولتے ہو ، وہ جواب دے کہ اس کے علاوہ چارہ نہیں ہے تو ان الفاظ سے وہ کافر ہو جائے گا ! اگر کوئی کسی سے کہے کہ تم جھوٹ نہ بولا کرو اور وہ اس کے جواب میں کہے کہ یہ بات تو کلمہ (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) سے زیادہ درست ہے تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اگر کسی کو غصہ آئے اور دوسرا اس کا غصہ دیکھ کر کہے کہ غصہ سے بہتر تو کافر ہی ہے تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اگر کوئی شخص ایک ناجائز بات کہنے لگے دوسرا کہے یہ تم کیا کہہ رہے ہو اس سے تو تم پر کفر لازم آ رہا ہے وہ جواب میں کہے کہ اگر مجھ پر کفر آتا ہے تو تم کیا کرو گے ۔ تو وہ اس کی وجہ سے کافر ہوجائے گا کسی کے دل میں ایسی چیز کا خطرہ گذرا جو باعث کفر ہے اگر وہ اس کو اس حالت میں زبان پر لایا کہ وہ اسے برا جانتا ہے تو یہ ایمان کی علامت ہے اور اگر کفر کے ارادہ سے اس کو زبان پر لایا تو اسی وقت وہ کافر ہوجائے گا ۔ اگرچہ سو برس کے بعد کفر اختیار کرے اگر کوئی شخص بخوشی اپنی زبان پر کلمہ کفر لایا مگر اس کا دل ایمان پر قائم ہے تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ اور عند اللہ مؤمن باقی نہ رہے گا اور جو شخص بھول کر ایسے الفاظ زبان پر لائے جو باعث کفر نہیں ہیں تو وہ علی حالہ مؤمن ہے اور اس کو نہ توبہ کا حکم دیا جائے گا اور نہ تجدید نکاح کا اگر کسی شخص نے کوئی ایسی بات کہی یا کوئی ایسا عمل کیا جس میں کئی صورتیں کفر کی ہوں اور ایک صورت ایسی ہو کہ کفر لازم نہ آتا ہو تو مفتی پر لازم ہے کہ اسی عدم کفر کی طرف رجحان رکھے ہاں اگر وہ شخص صراحت کے ساتھ اس صورت کو اختیار کرے جو باعث کفر ہے تو اس وقت کوئی تاویل مفید نہیں ہوگی ، لیکن اگر کہنے والے کی نیت میں وہ صورت ہو جس سے آدمی کافر نہیں ہوتا ہے تو وہ مسلمان ہے اور اگر وہ صورت اختیار کرے جو باعث کفر ہے تو کسی قسم کا فتویٰ اس کے لئے کارآمد نہ ہوگا اور اسے حکم دیا جائے گا کہ وہ توبہ کرے اور اس سے رجوع کرے اور اپنی بیوی سے دوبارہ نکاح کرے ۔
مسلمان کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ صبح وشام ذیل کی دعا پڑھتا رہے انشاء اللہ وہ کفر وشرک کی ہر صورت سے محفوظ رہے گا اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا ہے وہ دعا یہ ہے (اللہم انی اعوذ بک من ان اشرک بک شیأ وانا اعلم بہ واستغفرک لما لا اعلم بہ) فتاوٰی عالمگیری سے موجبات کفر کی جو بحث نقل کی جا رہی تھی الحمد للہ وہ پوری ہوئی ۔

یہ حدیث شیئر کریں