مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان ۔ حدیث 693

مرتد کی سزا قتل ہے

راوی:

عن عكرمة قال : أتي علي بزنادقة فأحرقهم فبلغ ذلك ابن عباس فقال : لو كنت أنا لم أحرقهم لنهي رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا تعذبوا بعذاب الله " ولقتلتهم لقول رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من بدل دينه فاقتلوه " . رواه البخاري

حضرت عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ زندیق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں لائے گئے تو انہوں نے ان کو جلا ڈالا پھر جب اس بات کی خبر حضرت ابن عباس کو ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں ہوتا تو ان کو نہ جلاتا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ممانعت فرمائی ہے کہ کسی شخص کو ایسے عذاب میں مبتلا نہ کرو جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح ہو جیسے کسی کو آگ میں جلانا بلکہ میں ان کو قتل کر دیتا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنا دین بدل ڈالے اس کو قتل کر دو ۔" (بخاری')

تشریح :
اصل میں " زندیق " مجوسیوں کی ایک قوم کا نام ہے جو زردشت مجوس کی اختراع کی ہوئی کتاب زند کے پیروکار ہیں لیکن اصطلاح عام میں ہر ملحد فی الدین کو زندیق کہا جاتا ہے ، چنانچہ یہاں بھی زندیق سے وہ لوگ مراد ہیں جو دین اسلام چھوڑ کر مرتد ہو گئے تھے ۔ بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں جن لوگوں کو زندیق کہا گیا ہے وہ دراصل عبداللہ ابن سبا کی قوم میں سے کچھ لوگ تھے جو حدود اسلام میں فتنہ وفساد برپا کرنے اور امت کو گمراہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے اور حضرت علی کے بارے میں خدائی کا دعویٰ کرتے تھے ، چنانچہ حضرت علی نے ان کے اس عظیم فتنہ کا سر کچلنے کے لئے ان سب کو پکڑوا بلایا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ سب توبہ کریں اور یہ فتنہ پھیلانے سے باز رہیں لیکن جب انہوں نے اس سے انکار کر دیا تو حضرت علی نے ایک گڑھا کھدوا کر اس میں آگ جلوائی اور ان سب کو آگ کے اس گڑھے میں ڈلوا دیا ۔
منقول ہے کہ جب حضرت ابن عباس کا مذکورہ قول حضرت علی تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ بیشک ابن عباس نے سچ کہا اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی نے اس مسئلہ میں اپنے اجتہاد پر عمل کیا اور اس مصلحت کے پیش نظر ان سب کو جلوا دیا کہ یہی لوگ نہیں بلکہ ان کا عبرتناک انجام دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس قسم کی مفسدہ پردازی سے باز رہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں