مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ حدود کا بیان ۔ حدیث 716

شادی شدہ زانی اور زاینہ کو سنگسار کیا جائے ۔

راوی:

وعن عبادة بن الصامت أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " خذوا عني خذوا عني قد جعل الله لهن سبيلا : البكر بالبكر جلد مائة ووتغريب عام والثيب بالثيب جلد مائة والرجم "
(2/309)

2559 – [ 5 ] ( متفق عليه )
وعن عبد الله بن عمر : أن اليهود جاؤوا إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فذكروا له أن رجلا منهم وامرأة زنيا فقال لهم رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما تجدون في التوراة في شأن الرجم ؟ " قالوا : نفضحهم ويجلدون قال عبد الله بن سلام : كذبتم إن فيها الرجم فأتوا بالتوراة فنشروها فوضع أحدهم يده على آية الرجم فقرأ ما قبلها وما بعدها فقال عبد الله بن سلام : ارفع يدك فرفع فإذا فيها آية الرجم . فقالوا : صدق يا محمد فيها آية الرجم . فأمر بهما النبي صلى الله عليه و سلم فرجما . وفي رواية : قال : ارفع يدك فرفع فإذا فيها آية الرجم تلوح فقال : يا محمد إن فيها آية الرجم ولكنا نتكاتمه بيننا فأمر بهما فرجما

اور حضرت عبادہ ابن صامت راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زانیہ کے بارے میں مجھ سے یہ حکم حاصل کرو ، مجھ سے یہ حکم حاصل کرو کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے راہ مقرر کر دی ہے ، جو غیر محصن مرد کسی غیر محصنہ عورت سے زنا کرے تو سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کر دیا جائے ۔ اور جو محصن مرد کسی محصنہ عورت سے زنا کرے تو سو کوڑے مارے جائیں اور سنگسار کیا جائے ۔ " (مسلم)

تشریح :
اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے راہ مقر کر دی ہے " یہ دراصل اس آیت کریمہ (اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا) 4۔ النساء : 15) کی وضاحت ہے ۔
علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد اس وقت فرمایا تھا جب زانی اور زانیہ کے لئے " حد " مشروع ہوئی تھی ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں " راہ سے مراد حد ہے جو اس سے پہلے تک مشروع نہیں تھی بلکہ اس بارے میں وہ حکم مشروع تھا جو آیت کریمہ میں مذکور ہے "
(وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَا ى ِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا)۔ 4۔ النساء : 15)
تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کو گواہ کر لو ، سو اگر وہ گواہی دے دیں تو تم ان کو گھروں کے اندر مقید رکھو ۔ یہاں تک کہ موت ان کا خاتمہ کر دے ، یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی راہ مقرر کر دے ۔"
حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا تھا کہ اگر عورتیں زنا کی مرتکب ہوں اور گواہوں کے ذریعہ ان کا یہ جرم ثابت ہو جائے تو ان کو گھر میں قید کر دیا جائے یا تاآنکہ اسی قید کی حالت میں مر جائیں یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے کوئی راہ یعنی حد مقرر کی جائے ۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے " حد " کا حکم نازل فرمایا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے یہ راہ یعنی حد مقرر فرما دی ہے اور پھر اس کے بعد آپ نے " حد " کی وضاحت فرمائی ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی محصن (شادی شدہ ) زنا کا ارتکاب کرے تو اس کو سو کوڑے بھی مارے جائیں اور سنگسار بھی کیا جائے ، چنانچہ علماء ظواہر نے اور صحابہ وتابعین میں سے بعض نے اس پر عمل کیا ہے جب کہ جمہور علماء کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ جو زانی سنگسار کا مستوجب قرار پا چکا ہو اس کے حق میں سو کوڑے مارے جانے کا سزا کالعدم ہوگی یعنی اس کو صرف سنگسار کیا جائے گا ۔ سو کوڑے نہیں مارے جائیں گے ، کیونکہ یہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص ماعز کو جو شادی شدہ ہونے کی باوجود زنا کے مرتکب قرار دئیے گئے تھے صرف سنگسار کیا تھا ان کو سو کوڑے مارنے کا حکم نہیں تھا ، اسی طرح آگے آنے والی ایک حدیث میں ایک غامدیہ عورت کا جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے یا حضرت انیس کی جو حدیث پیچھے گذری ہے ان سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے ۔

اور حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ایک دن یہودیوں کی ایک جماعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بیان کیا کہ ان کی قوم میں سے ایک عورت اور ایک مرد نے جو دونوں محصن (یعنی شادی شدہ تھے) نے زنا کیا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے تورات میں رجم کے بارے میں کیا پڑھا ہے ؟ یہودیوں نے کہا کہ ہم زنا کرنے والوں کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں اور ان کو کوڑے مارے جاتے ہیں ان کی یہ بات سن کر حضرت عبداللہ ابن سلام نے کہا کہ تم لوگ جھوٹ بولتے ہو ، تورات میں بھی رجم کا حکم مذکور ہے تورات لاؤ میں تمہیں رجم کا حکم دکھاتا ہوں چنانچہ جب تورات لائی گئی اور اس کو کھولا گیا تو یہودیوں میں سے ایک شخص نے جھٹ سے اس جگہ اپنا ہاتھ رکھ دیا جہاں رجم کے بارے میں آیت تھی یعنی اس نے اپنے ہاتھوں سے رجم کی آیت کو چھپانے کی کوشش کی اور اس کے آگے پیچھے کی آیتیں پڑھنے لگا یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن سلام نے اس سے کہا کہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو دیکھا گیا کہ وہاں رجم کی آیت موجود تھی ، اس آیت کو چھپانے والے نے کہا کہ اے محمد ! تورات میں رجم کی آیت موجود ہے مگر ہم آپس میں اس کو ظاہر نہیں کرتے ، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور وہ دونوں سنگسار کر دیئے گئے ۔
ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام نے اس شخص سے (کہ جس نے رجم کی آیت کو اپنے ہاتھ کے نیچے چھپانے کی کوشش کی تھی ) کہا کہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ ، اور پھر جب اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو دیکھا گیا کہ وہاں رجم کی آیت موجود تھی ، اس آیت کے نیچے کو چھپانے والے نے کہا کہ " اے محمد ! تورات میں رجم کی آیت موجود ہے مگر ہم آپس میں آپس میں اس کو ظاہر نہیں کرتے ۔" اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور سنگسار کر دیئے گئے ۔" (بخاری ومسلم )

تشریح :
حضرت عبداللہ بن سلام پہلے یہودی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو راہ ہدایت پر گامزن کیا اور وہ مسلمان ہو گئے ان کا شمار بڑے اونچے درجہ کے علماء یہود میں ہوتا تھا تورات پر عبور رکھتے تھے ، چنانچہ مجلس نبوی میں جب یہودیوں نے اپنی روایتی تلبیس وتحریف سے کام لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا کہ تورات میں زنا کے مرتکب کو سنگسار کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ ہم نے تورات میں یہ پڑھا ہے کہ جو شخص زنا کا ارتکاب کرے اس کو تعزیر کے ذریعہ ذلیل و رسوا کیا جائے اور کوڑے مارے جائیں تو حضرت عبداللہ ابن اسلام نے اس کی تکذیب کی اور یہ بتایا کہ تم یہ بات کہہ رہے ہو وہ سراسر تحریف ہے تورات میں رجم کا حکم موجود نہیں ہے اور پھر جب انہوں نے تورات منگائی اس میں مذکور رجم کی آیت دکھانی چاہی تو اس موقع پر بھی یہودیوں نے اپنی عیاری و مکاری دکھانی چاہی اور ان میں سے ایک شخص نے ایک روایت کے مطابق جس کا نام عبداللہ ابن صوریا تھا ، اس جگہ اپنا ہاتھ رکھ دیا جہاں رجم کی آیت مذکور تھی ۔ اور اس کے آگے پیچھے کی آیتیں پڑھنے لگا ! مگر عبداللہ بن سلام نے ان کی اس عیاری کا راز بھی طشت از بام کر دیا ۔
اگر یہاں یہ اشکال پیدا ہو کہ رجم (سنگساری ) کا سزاوار ہونے کے لئے محصن شادی شدہ ہونا شرط ہے اور محصن ہونے کے لئے مسلمان ہونا شرط ہے یعنی سنگساری کی سزا اسی زانی کو دی جا سکتی ہے جو محصن ہو اور محصن اطلاق اسی شخص پر ہو سکتا ہے جو مسلمان ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں کو جو مسلمان نہیں تھے رجم کا حکم کیوں دیا ؟
اس کا جواب ہے یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہود کو رجم کا جو حکم دیا وہ تورات کے حکم کے تحت تھا اور یہودیوں کے مذہب میں رجم کے سزاوار کے لئے محصن ہونا شرط نہیں تھا ، پھر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں پہلے تورات کے حکم پر عمل کرتے تھے مگر جب قرآن میں اس کا حکم نازل ہو گیا تو تورات کا حکم منسوخ ہوگیا ۔
اس موقع پر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک محصن ہونے کے لئے مسلمان ہونا شرط نہیں ہے یعنی ان کے مسلک کے مطابق " محصن " کا اطلاق اس شادی شدہ آدمی پر بھی ہو سکتا ہے جو مسلمان نہ ہو نیز حنیفہ میں سے حضرت امام ابویوسف کا بھی ایک قول یہی ہے ۔
ایک اشکال یہ بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محض یہودیوں کے کہنے پر ان دونوں کو کیسے سنگسار کرا دیا کیونکہ یہودیوں کی گواہی سرے سے معتبر ہی نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کیا ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان یہودیوں کے کہنے پر ہی حکم نافذ کیا ہو ، بلکہ بظاہر یہی مفہوم ہوتا ہے کہ یا تو خود ان دونوں نے زنا کا اقرار کیا ہوگا یا ان کے زنا کی چار مسلمانوں نے گواہی دی ہوگی اور اسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو سنگسار کرایا ہوگا ۔
اس موقع پر ملا علی قاری نے بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے یہاں اس کا خلاصہ نقل کیا گیا ہے اہل علم ان کی کتاب " مرقات " سے مراجعت کر سکتے ہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں