مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ حدود کا بیان ۔ حدیث 717

زنا کے اقراری مجرم کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ رجم

راوی:

وعن أبي هريرة قال : أتى النبي صلى الله عليه و سلم رجل وهو في المسجد فناداه : يا رسول الله إني زنيت فأعرض عنه النبي صلى الله عليه و سلم فتنحى لشق وجهه الذي أعرض قبله فقال : إني زنيت فأعرض عنه النبي صلى الله عليه و سلم فلما شهد أربع شهادات دعاه النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " أبك جنون ؟ " قال : لا فقال : " أحصنت ؟ " قال : نعم يا رسول الله قال : " اذهبوا به فارجموه " قال ابن شهاب : فأخبرني من سمع جابر بن عبد الله يقول : فرجمناه بالمدينة فلما أذلقته الحجارة هرب حتى أدركناه بالحرة فرجمناه حتى مات
وفي رواية للبخاري : عن جابر بعد قوله : قال : نعم فأمر به فرجم بالمصلى فلما أذلقته الحجارة فر فأدرك فرجم حتى مات . فقال له النبي صلى الله عليه و سلم خيرا وصلى عليه

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی تشریف فرما تھے ، اس شخص نے آواز دی " یا رسول اللہ ! مجھ سے زنا کا ارتکاب ہوگیا ہے " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اپنا منہ اس کی طرف سے پھیر لیا وہ شخص پھر اس سمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا جدھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ پھیرا تھا اور کہا کہ مجھ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنا منہ اس کی طرف سے پھیر لیا ، یہاں تک کہ جب اس نے اس طرح چار مرتبہ اپنے جرم کا اقرار کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ کیا تو دیوانہ ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تو محصن ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں یا رسول اللہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اس شخص کو لے جاؤ اور اس کو سنگسار کر دو ۔ اس حدیث کے ایک راوی ابن شہاب کا بیان ہے کہ جس شخص نے اس حدیث کو حضرت جابر ابن عبداللہ سے سنا تھا ، اس نے مجھے بتایا کہ حضرت جابر نے کہا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کے بعد اس شخص کو مدینہ میں سنگسار کیا چنانچہ جب ہم نے اس کو پتھر مارنے شروع کئے اور اس کو پتھر لگنے لگے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ ہم نے اس کو " حرہ " میں جا کر پکڑا مدینہ کا وہ مضافاتی علاقہ جو کالے پتھروں والا تھا حرہ کہلاتا تھا اور پھر اس کو سنگسار کیا تا آنکہ وہ مر گیا ۔" (بخاری ومسلم )
اور امام بخاری کی ایک اور روایت میں جو حضرت جابر سے منقول ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر کہ کیا تو محصن ہے ؟ اس شخص کے جواب " ہاں " کے بعد یہ الفاظ ہیں کہ اس کے بعد آپ نے اس شخص کو سنگسار کئے جانے کا حکم دیا چنانچہ اس کو عید گاہ میں سنگسار کیا گیا جب اس کو پتھر لگنے لگے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا مگر پھر پکڑ لیا گیا اور سنگسار کیا گیا یہاں تک کہ مر گیا اس کے مرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھلائی بیان کی یعنی اس کی تعریف و توصیف کی اور اس کی نماز جنازہ پڑھی یا (وصلی علیہ) کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لئے دعا کی ۔

تشریح :
اور اس نے چار مرتبہ اقرار کیا یعنی اس شخص نے چاروں طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر اپنے جرم کا اقرار کر کے اور گویا ہر دفعہ میں تبدیل مجلس کر کے اس طرح چار مجلسوں میں چار مرتبہ اپنے جرم کا اقرار کیا ۔ چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کے سامنے چاروں طرف سے آکر اقرار کرنے سے یہ استدلال کیا ہے کہ زنا کے ثبوت جرم کے لئے ملزم کا چار مجلسوں میں چار بار اقرار کرنا شرط ہے ۔
" کیا تو دیوانہ ہے؟" یعنی کیا تم پر دیوانگی طاری ہے کہ تم اپنے گناہ کا خود افشاء کر رہے ہو اور سنگساری کے ذریعہ خود اپنی ہلاکت کا باعث بن رہے ہو حالانکہ چاہئے تو یہ کہ تم اللہ سے توبہ استغفار کرو اور آئندہ کے لئے ہر برائی سے بچنے کا پختہ عہد وعزم کرو ۔ نووی فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مقصد اس شخص کے حال کی تحقیق تھا کیونکہ عام طور پر کوئی بھی انسان اپنے کسی بھی ایسے جرم و گناہ کے اقرار پر مصر نہیں ہوتا جس کی سزا میں اس کو موت کا منہ دیکھنا پڑے بلکہ وہ اسی میں اپنی راہ نجات دیکھتا ہے کہ اپنے جرم و گناہ پر شرمسار ونادم ہو کر اللہ سے توبہ استغفار کرے اور اس کے ذریعہ اپنے گناہ کو ختم کرائے ۔
حاصل یہ کہ یہ ارشاد جہاں اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ایسے معاملات میں مسلمان کی حالت کی تحقیق وتفتیش میں پوری پوری سعی کرنی چاہئے تا کہ فیصلہ میں کسی قسم کا کوئی اشتباہ نہ رہے وہیں اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ کسی جرم کی سزا میں ایک مسلمان کی جان بچانے کے لئے اس کو جو بھی قانونی فائدہ پہنچایا جا سکتا ہو اس سے صرف نظر نہ کیا جائے ، نیز یہ جملہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر کوئی دیوانہ یہ کہے کہ میں نے زنا کیا ہے تو اس کا اقرار کا اعتبار نہیں ہوگا اور نہ اس پر حد جاری کی جائے گی ۔
" کیا تو محصن ہے ؟" امام نووی فرماتے ہیں کہ اس جملہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ امام وقت یا قاضی پر لازم ہے کہ وہ ان چیزوں کے بارے میں تحقیق کر لے جو سزائے رجم (سنگساری) کے نفاذ کے لئے شرط ہیں جیسے محصن ہونا وغیرہ ، خواہ زنا کا جرم خود اس کے اقرار سے ثابت ہو چکا ہو یا گواہوں کے ذریعہ ثابت کیا گیا ہو ، نیز اس ارشاد سے کنایۃ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایسا شخص اپنے اقرار سے رجوع کر لے تو اس کو معافی دے کر زنا کی حد ساقط کر دی جائے ۔
" وہ بھاگ کھڑا ہوا ۔" ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر کسی مرد کو کسی بھی حد یا تعزیر میں مارا جائے تو کھڑا کر کے مارا جائے لٹکا کر نہ مارا جائے اور عورت کو بٹھا کر مارا جائے بلکہ اگر کسی عورت کو رجم کی سزا دی جا رہی ہو تو بہتر ہے کہ ایک گڑھا کھود کر اس میں اس کو (سینہ تک ') گاڑ کر سنگسار کیا جائے کیونکہ اس میں اس کے ستر (پردہ پوشی ) کی زیادہ رعایت ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غامدیہ کے لئے گڑھا کھدوایا تھا ۔
" یہاں تک کہ ہم نے اس کو حرہ میں جا کر پکڑا " اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر سنگسار کیا جانے والا سنگساری کے دوران بھاگ کھڑا ہو تو اس کا پیچھا نہ کیا جائے بشرطیکہ اس کے جرم زنا خود اس کے اقرار سے ثابت ہوا ہو اور اگر اس کا جرم زنا گواہوں کے ذریعہ ثابت ہوا ہو تو پھر اس کا پیچھا کیا جائے اور اس کو سنگسار کیا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے کیونکہ اس کا بھاگنا دراصل اس کے رجوع (جرم سے انکار ) کو ظاہر کرتا ہے اور یہ رجوع کار آمد نہیں ہوگا ۔
نووی کہتے ہیں کہ علماء نے لکھا ہے کہ اس جملہ (فرجم بالمصلی) (چنانچہ اس کو عید گاہ میں سنگسار کیا گیا ) میں مصلی سے مراد وہ جگہ ہے جہاں جنازے کی نماز پڑھی جاتی تھی ، چنانچہ ایک روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔
بخاری وغیرہ کہتے ہیں کہ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس جگہ جنازے اور عیدین کی نماز پڑھی جاتی ہو اگر اس کو مسجد قرار نہ دیا گیا ہو تو وہ جگہ مسجد کے حکم میں نہیں ہوتی کیونکہ جنازہ یا عیدین کی نماز پڑھنے کی جگہ کا وہی حکم ہوتا جو مسجد کا ہوتا ہم تو اس جگہ کو خون سے آلودہ ہونے سے بچانے کے لئے اور اس کی تقدیس واحترام کے پیش نظر وہاں زانی کو سنگسار نہ کیا جاتا ۔
مساجد میں حد و تعزیر جاری نہ کی جائیں
علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ مسجد میں کسی پر کوئی حد جاری کی جائے اور نہ کسی کو کوئی تعزیر دی جائے کیونکہ اس پر تمام علماء کا اجماع واتفاق ہے اور اس کی بنیاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے ۔
حدیث (قال جنبوا مساجد صبیانکم و مجانینکم ورفع اصواتکم وشرائکم وبیع واقامۃ حدودکم وجمروہا فی جمعکم وضعوا علی ابوابہا المطاہر )۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنی مسجدوں کو اپنے بچوں سے ، دیوانوں سے ، شور مچانے سے ، خرید وفروخت کرنے سے ، اور حد قائم کرنے سے بچائے رکھو، اور جمعہ کے دن مسجدوں کو اگر کی دھونی دو نیز مسجدوں کے دروازوں پر طہارت (وضو) کی جگہ بناؤ ۔"

یہ حدیث شیئر کریں