مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ حدود کا بیان ۔ حدیث 719

اقامت حد گناہ کو ساقط کردیتی ہے

راوی:

وعن بريدة قال : جاء ماعز بن مالك إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : يا رسول الله طهرني فقال : " ويحك ارجع فاستغفر الله وتب إليه " . فقال : فرجع غير بعيد ثم جاء فقال : يا رسول الله طهرني . فقال النبي صلى الله عليه و سلم مثل ذلك حتى إذا كانت الرابعة قاله له رسول الله صلى الله عليه و سلم : " فيم أطهرك ؟ " قال : من الزنا قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أبه جنون ؟ " فأخبر أنه ليس بمجنون فقال : " أشرب خمرا ؟ " فقام رجل فاستنكهه فلم يجد منه ريح خمر فقال : " أزنيت ؟ " قال : نعم فأمر به فرجم فلبثوا يومين أو ثلاثة ثم جاء رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " استغفروا لماعز بن مالك لقد تاب توبة لو قسمت بين أمة لوسعتهم " ثم جاءته امرأة من غامد من الأزد فقالت : يا رسول الله طهرني فقال : " ويحك ارجعي فاستغفري الله وتوبي إليه " فقالت : تريد أن ترددني كما رددت ماعز بن مالك : إنها حبلى من الزنا فقال : " أنت ؟ " قالت : نعم قال لها : " حتى تضعي ما في بطنك " قال : فكفلها رجل من الأنصار حتى وضعت فأتى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : قد وضعت الغامدية فقال : " إذا لا نرجمها وندع ولدها صغيرا ليس له من يرضعه " فقام رجل من الأنصار فقال : إلي رضاعه يا نبي الله قال : فرجمها . وفي رواية : أنه قال لها : " اذهبي حتى تلدي " فلما ولدت قال : " اذهبي فأرضعيه حتى تفطميه " فلما فطمته أتته بالصبي في يده كسرة خبز فقالت : هذا يا نبي الله قد فطمته وقد أكل الطعام فدفع الصبي إلى رجل من المسلمين ثم أمر بها فحفر لها إلى صدرها وأمر الناس فرجموها فيقبل خالد بن الوليد بحجر فرمى رأسها فتنضح الدم على وجه خالد فسبها فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " مهلا يا خالد فو الذي نفسي بيده لقد تابت توبة لو تابها صاحب مكس لغفر له " ثم أمر بها فصلى عليها ودفنت . رواه مسلم

اور حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ماعز ابن مالک آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے یعنی (مجھ سے جو گناہ سر زد ہو گیا ہے اس کی حد جاری کر کے میرے گناہ کی معافی کا سبب بن جائے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے واپس جا یعنی زبان کے ذریعہ استغفار کر اور دل سے توبہ کر راوی کہتے ہیں وہ چلا گیا اور تھوڑی دور جا کر پھر واپس آ گیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! مجھے پاک کر دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی الفاظ فرمائے جو پہلے فرمائے تھے ، چار مرتبہ اسی طرح ہوا اور (جب چوتھی بار ماعز نے کہا کہ یا رسول اللہ ! مجھے پاک کر دیجئے ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ میں تجھے کس چیز سے اور کس وجہ سے پاک کروں ؟ اس نے کہا کہ (حد جاری کر کے ) زنا کے گناہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا اس نے شراب پی رکھی ہے ؟ (یہ سن کر ایک شخص نے کھڑے ہو کر اس کا منہ سونگھا تا کہ معلوم ہو جائے کہ اس نے شراب پی رکھی ہے یا نہیں ) لیکن شراب کی بو نہیں پائی گئی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ماعز سے پوچھا کہ کیا (واقعی ) تو نے زنا کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں ! اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سنگسار کئے جانے کا حکم دیا چنانچہ اس کو سنگسار کر دیا گیا دو یا تین روز اسی طرح گذر گئے یعنی مجلس نبوی میں ماعز کی سنگساری کے بارے میں دو تین دن تک کوئی ذکر نہیں ہوا پھر (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا کہ تم لوگ ماعز کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کرو بلا شبہ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس کے ثواب کو پوری امت پر تقسیم کیا جائے تو وہ سب کے لئے کافر ہو جائے ، پھر اس کے بعد (ایک دن ) ایک عورت جو قبیلہ ازد کے خاندان غامد میں سے تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے پاک کر دیجئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھ پر افسوس ہے ، واپس جا اور اللہ تعالیٰ سے استغفار توبہ کر ۔ اس عورت نے عرض کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز ابن مالک کو پہلی دفعہ واپس کر دیا تھا اسی طرح مجھ کو بھی واپس کر دیں ؟ اور درا نحالیکہ (میں) وہ عورت (ہوں جو ) زنا کے ذریعہ حاملہ ہے لہٰذا اس اقرار کے بعد میرے انکار کی گنجائش تھی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو ! (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرح سے اپنے تغافل کو ظاہر کرنے اور اس کو اقرار زنا سے رجوع کرنے کا ایک اور موقع دینے کے لئے فرمایا کہ یہ تو کیا کہہ رہی ہے ؟ کیا زنا کے ذریعہ حاملہ ہے !) اس عورت نے اس کے باوجود اپنے اقرار پر اصرار کیا اور کہا کہ " ہاں " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تو اس وقت تک انتظار کر جب تک تو اپنے بچہ کی ولادت سے فارغ نہ ہو جائے ۔ راوی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد ایک انصاری نے اس عورت کی خبر گیری اور کفالت کا اس وقت تک کے لئے ذمہ لے لیا جب تک کہ وہ ولادت سے فارغ نہ ہو جائے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ وہ غامدیہ عورت ولادت سے فارغ ہوگئی ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم ابھی اس کو سنگسار نہیں کریں گے اور اس کمسن بچے کو اس حالت میں نہیں چھوڑیں گے کہ کوئی اس کو دودھ پلانے والا نہ ہو ۔ یعنی اگر ہم نے اس کو ابھی سنگسار کر دیا تو اس کا بچہ جو شیر خوار اور بہت چھوٹا ہے ہلاک ہو جائے گا ، کیونکہ اس کی ماں کے بعد اس کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں ہے اس لئے ابھی اس کو سنگسار کرنا مناسب نہیں ہے ) ایک اور انصاری (یہ سن کر ) کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! اس بچہ کے دودھ پلانے اور اس کی خبر گیری کا میں ذمہ دار ہوں " راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو سنگسار کئے جانے کا حکم دیا اور وہ سنگسار کی گئی ) ۔ ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا کہ جا جب تک کہ تو ولادت سے فارغ نہ ہو جائے (انتظار کر ) پھر جب وہ ولادت سے فارغ ہو گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا جا اس بچہ کو دودھ پلا تا آنکہ تو اس کا دودھ چھڑائے اور پھر جب اس نے بچہ کا دودھ بھی چھڑا دیا تو اس بچہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئی اس وقت اس کے بچہ کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا ، اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے اس بچہ کا دودھ چھڑا دیا ہے یہ اب روٹی کھانے لگا ہے ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچہ کو ایک مسلمان کے حوالے کیا اور اس عورت کے لئے حکم فرمایا کہ ایک گڑھا کھودا جائے جو اس کے سینہ تک کھودا جائے جب اس کے سینہ تک گڑھا کھود دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور اس کو سنگسار کیا گیا اس کی سنگساری کے دوران جب حضرت خالد ابن ولید نے ایک پتھر اس کے سر پر مارا اور اس کے سر کا خون حضرت خالد کے منہ پر آکر پڑا تو حضرت خالد اس کو برا بھلا کہنے لگے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خالد ! اس کی بخشش ہو چکی ہے اس کو برا بھلا مت کہو ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر توبہ (ناروا ) ٹیکس لینے والا کرے تو اس کی مغفرت وبخشش ہوجائے ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیا چنانچہ پڑھی گئی اور وہ دفن کی گئی ۔" (مسلم )

تشریح :
بلاشبہ ماعز نے توبہ کی اس ارشاد کے ذریعہ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز کی سعادت اور اس کی توبہ کی فضیلت کو ظاہر فرمایا کہ اس نے ایسی توبہ کی ہے جو اس مغفرت اور رحمت کو لازم کرتی ہے جس کا دامن ، مخلوق اللہ کی ایک بہت بڑی جماعت پر سایہ فگن ہو سکتا ہے یہاں اقامت حد (حد کی قائم ہونے ) کو توبہ اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ جس طرح توبہ کے ذریعہ گناہ دھل جاتے ہیں اسی طرح حد جاری ہونے سے بھی گناہ ختم ہو جاتا ہے ۔
جب تک کہ تو اپنے بچہ کی ولادت سے فارغ نہ ہو جائے " ابن مالک " کہتے ہیں کہ اس ارشاد سے یہ معلوم ہوا کہ حاملہ جب تک کہ ولادت سے فارغ نہ ہو جائے اس پر حد قائم نہ کی جائے تا کہ ایک بے گناہ کو جو اس کے پیٹ میں ہے ہلاک کرنا لازم نہ آئے ۔
میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ زانیہ کو سنگسار کرنے میں اس وقت تک کی مہلت دی جائے جب تک کہ اس کا وہ بچہ جو اس کے زنا کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے اس سے مستغنی نہ ہو جائے بشرطیکہ اس کی پرورش اور دیکھ بھال کرنے والا اور کوئی نہ ہو ، چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے ۔
اگر ایسی توبہ (ناورا ) ٹیکس لینے والا کرے اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ غیر شرعی طور پر اور نامناسب طریقوں سے لوگوں سے محصول ٹیکس وصول کرتے ہیں وہ بڑے گناہگار ہیں کیونکہ اس طرح کے محصول وٹیکس وصول کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کا مال زور زبر دستی سے اور ظلم کر کے چھین لیا جائے ۔
حدیث کے آخری جملہ میں لفظ صلی مسلم کے تمام راویوں سے صاد اور لام کے زبر یعنی صیغہ معروف کے ساتھ منقول ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کی نماز جنازہ پڑھی تھی جب کہ طبری کے نزدیک اور ابن ابی شیبہ اور ابوداؤد کی روایت میں یہ لفظ صاد کے پیش اور لام کے زیر یعنی صیغہ مجہول کے ساتھ منقول ہے ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کی نماز جنازہ دوسرے لوگوں نے پڑھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھی چنانچہ ابوداؤد کی روایت میں تو صراحت کے ساتھ یہ منقول ہے کہ (لم یصل علیہا) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیا ، اسی وجہ سے ائمہ کے ہاں سنگسار کئے جانے والے کی نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں ۔ چنانچہ امام مالک کے ہاں اس کی نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے اور حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ امام وقت اور اہل فضل نہ پڑھیں دوسرے لوگ پڑھ سکتے ہیں لیکن حضرت امام شافعی اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے بلکہ ہر اس شخص کی نماز جنازہ پڑھی جائے جو کلمہ گو اور ااہل قبلہ ہو اگرچہ وہ فاسق وفاجر ہو یا اس پر حد قائم کی گئی ہو نیز ایک روایت میں امام احمد سے بھی یہی منقول ہے ۔
قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ صحیح مسلم کے تمام راویوں نے لفظ " صلی " کو صاد اور لام کے زبر یعنی صیغہ معروف کے ساتھ نقل کیا ہے جب کہ طبری کے نزدیک یہ لفظ صاد کے پیش یعنی صیغہ مجہول کے ساتھ ہے نیز ابی شیبہ ابوداؤد اور امام نووی نے بھی اس طرح نقل کیا ہے لہٰذا اس بارے میں یہ بات کہنی زیادہ مناسب ہے کہ یہ لفظ اصل میں تو صیغہ معروف ہی کے ساتھ ہے البتہ ماقبل کے الفاظ (ثم امربہا) اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس عورت کے جنازہ کو نہلانے کفنانے اور نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ لانے کا حکم دیا ، چنانچہ اس کی تائید اس عبارت سے ہوتی ہے جو مسلم کی روایت میں ہے کہ حدیث (امربہا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فرجمت ثم صلی علیہا فقال لہ عمر تصلی علیہا یا نبی اللہ وقد زنت) یہ روایت صراحت کے ساتھ یہ ثابت کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازہ کی نماز پڑھی تھی ۔ اور ابوداؤد کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حدیث (ثم امرہم یصلوا علیہا) (یعنی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے قاضی عیاض نے بھی وضاحت کی ہے کہ اگرچہ مسلم نے اپنی روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معاذ ابن مالک کے جنازے کی نماز پڑھنا ذکر نہیں کیا ہے لیکن بخاری نے اس کو ذکر کیا ہے ۔
اب رہی یہ بات کہ جب مسلم کے اکثر راویوں نے لفظ " صلی " صیغہ معروف کے ساتھ نقل کیا تو یہاں صاحب مشکوٰۃ نے اس لفظ کو صیغہ مجہول کے ساتھ کیوں نقل کیا ؟ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اگرچہ اثبات ، نفی پر مقدم ہوتا ہے اس اعتبار سے صاحب مشکوٰۃ کو یہ لفظ صیغہ معروف کے ساتھ کر کے اثبات کو ترجیح دینا چاہئے تھا لیکن جب انہوں نے معتمد صحیح نسخوں میں دیکھا کہ اس بارے میں مختلف روایات ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے جنازے کی نماز پڑھی یا نہیں پڑھی تو انہوں نے لفظ صلی کو صیغہ مجہول کے ساتھ نقل کرنے کو ترجیح دی تا کہ اس صورت میں دونوں ہی احتمال ملحوظ رہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ صورت ابہام سے خالی نہیں ہے اس لئے اس بارے میں اولیٰ اور بہتر یہی ہے کہ جمہور کی متابعت اور نقل مشہور کی موافقت کے پیش نظر اس لفظ کو صیغہ معروف ہی کے ساتھ قبول کیا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی تھی ۔
بہرکیف یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حد ، اس گناہ کو ختم کر دیتی ہے جس کی سزا میں اس کا نفاذ اجراء ہوتا ہے مثلا اگر زید زنا کا مرتکب ہوا اور اس کے اس جرم کی سزا میں اس پر حد جاری کی جائے تو وہ زنا کے گناہ سے بری ہو جائے گا اور آخرت میں اس سے اس زنا پر کوئی مؤ اخذہ نہیں ہوگا ۔
ایک بات اور نووی کہتے ہیں کہ (یہاں اس عورت کے بارے میں دو روایتیں نقل کی گئی ہیں اور ) بظاہر دوسری روایت پہلی روایت کے مخالف ہے کیونکہ دوسری روایت سے تو صراحۃ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت کو اس وقت سنگسار کیا گیا جب اس عورت نے اپنے بچے کا دودھ چھڑا دیا تھا اور وہ روٹی کھانے لگا تھا لیکن پہلی روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس بچے کی ولادت کے بعد ہی سنگسار کر دیا گیا تھا ، لہٰذا دوسری دوسری روایت کے صریح مفہوم کے پیش نظر پہلی روایت کی تاویل کرنی ضروری ہوئی تاکہ دونوں روایتوں کا مفہوم یکساں ہو جائے کیونکہ دونوں روایتوں کا تعلق ایک ہی واقعہ سے ہے اور دونوں ہی روایتیں صحیح ہیں ، پس تاویل یہ ہے کہ پہلی روایت میں جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک انصاری نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں اس بچے کو دودھ پلانے کا ذمہ دار ہوں تو انہوں نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب کہ اس عورت نے اپنے بچے کا دودھ چھڑا دیا تھا ، اور دودھ پلانے کا ذمہ دار ہونے سے اس کی مراد یہ تھی کہ میں اس بچہ کی کفالت اور پرورش کی ذمہ داری لیتا ہوں اور اپنے اس مفہوم کو انہوں نے مجازاً دودھ پلانے سے تعبیر کیا ۔

یہ حدیث شیئر کریں