مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جن بیوع سے منع کیا گیا ہے ان کا بیان ۔ حدیث 73

جن بیوع سے منع کیا گیا ہے ان کا بیان

راوی:

شریعت اسلامی نے خرید وفروخت کے بعض معاملات اور لین دین کی کچھ صورتوں سے منع کیا ہے اسی طرح کچھ چیزیں اور اشیاء ایسی ہیں جن کی خرید وفروخت شرعی نقطہ نظر سے ممنوع ہے پھر بعض معاملات اور بعض چیزوں کی ممانعت ونہی بطریق حرمت (یعنی ان معاملات اور ان چیزوں کے حرام ہونے کی وجہ سے ہے جیسے بیع باطل اور بیع فاسد کی ممانعت اور بعض ممانعت کا تعلق محض کراہت سے ہے جیسے جمعہ کی اذان کے وقت خرید وفروخت کا معاملہ کرنے کی ممانعت۔
چنانچہ خرید وفروخت کے جن معاملات یا جن چیزوں کی خرید وفروخت کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ وہ معاملات یا وہ چیزیں شریعت کی نظر میں حرام ہیں ان کی حنفی مسلک کے مطابق دو قسمیں ہیں
1بیع فاسد 2 بیع باطل
بیع فاسد : خرید وفروخت اور لین دین کے اس معاملہ کو کہتے ہیں جو اصول بیع کے پائے جانے کی وجہ سے تو یہ صحیح ہو جاتا ہے مگر بیع کے صحیح ہونے کی جو شرائط ہیں ان میں سے بعض شرطوں کے فوت ہو جانے کی وجہ سے وہ معاملہ جائز نہیں رہتا اس لئے ایسے معاملہ کو ختم کر دینا ہی ضروری ہوتا ہے اسی کو فقہاء کی اصطلاح میں مشروع بنفسہ اور ممنوع بوصفہ کہا جاتا ہے یعنی ایسی بیع باعتبار اصول مشروع و صحیح ہے اور باعتبار مشروط و اوصاف ممنوع ہے۔
بیع باطل : خرید وفروخت اور لین دین کے اس معاملہ کو کہتے ہیں جو شرعی نقطہ نظر سے کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ وہ معاملہ نہ تو اصول بیع کے اعتبار سے صحیح ہوتا ہے اور نہ باعتبار شروط واوصاف جائز ہوتا ہے۔
مناسب ہے کہ اس ضمن میں کچھ مسائل ذکر کر دئے جائیں جن سے نہ صرف مذکورہ بالا اقسام کی تعریفات سمجھنے میں آسانی ہوگی بلکہ باب کے موضوع کے اعتبار سے ان کا جاننا بھی ضروری ہے۔
اگر مبیع (یعن بیچی اور خریدی جانیوالی چیز) شرعی اعتبار سے مال نہ ہو جیسے خون مردار آزاد شخص ام الولد مکاتب پیشاب اور بالکل نکمی چیز تو ایسی کسی بھی چیز کی بیع باطل ہے اسی طرح مبیع مال تو ہو مگر متقوم نہ ہو جیسے شراب اور سور (خنزیر) تو اس کی بیع اس صورت میں تو باطل ہوگی جبکہ اسے روپے کے عوض فروخت کیا جائے اور اگر اس کی بیع اسباب کے عوض کی جائے گی تو اس صورت میں اسباب کی بیع تو فاسد ہوگی اور اس مال غیر متقوم کی بیع باطل ہوگی۔
بیع باطل اور بیع فاسد میں فرق یہ ہے کہ بیع باطل میں تو بیع (بیچی جانیوالی چیز) شرعی نقطہ نظر سے مشتری (خریدنے والا) یعنی خریدار کی ملکیت میں سرے سے آتی ہیں نہیں جبکہ بیع فاسد میں بیع قبل قبضہ تو کوئی حکم نہیں رکھتی مگر بعد قبضہ بطور حرام مشتری (خریدنے والا) کی ملیکت میں آجاتی ہے اور نقود سے اس کی قیمت کی ادائیگی اس کے ذمہ ضروری ہوتی ہے لیکن قبضہ کے بعد بھی اس بیع کو فسخ کر دینا واجب ہوتا ہے بشرطیکہ مبیع بعینہ خریدار کے پاس موجود ہے۔
جانور کے تھن میں دودھ کی بیع باطل ہے کیونکہ وہ مشکوک الوجود ہوتا ہے ہو سکتا ہے کہ جانور کے تھن کی ظاہری حالت دیکھ کر اس میں دودھ کی موجودگی کا یقین کرایا جائے اور اس دودھ کی بیع کر دی جائے مگر بعد میں پتہ لے کہ تھن میں سرے سے دودھ تھا ہی نہیں بلکہ ہوا وغیرہ کی وجہ سے تھن پھولا ہوا تھا ایسی صورت میں یہ فریب اور دھوکہ دھی کا معاملہ ہو جائے گا ۔
ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے بھی بیچنا جائز نہیں ہیں بشرطیکہ وہ جانور ایسا نہ ہو جو لوٹ پھر کر آ جاتا ہو جیسے کبوتر تو اس کو ہوا میں اڑتے ہوئے بھی بیچنا درست ہے اسی طرح اس مچھلی کی بیع بھی ناجائز ہے جو ابھی پکڑی نہ گئی ہو بلکہ پانی مثلا دریا وغیرہ ہی میں ہو یا پکڑی جا چکی ہو مگر پھر اسے کسی ایسے حوض وغیرہ میں ڈال دیا گیا ہو جس میں سے اسے بغیر جال وغیرہ کے پکڑنا ممکن نہ ہو ایسے ہی لونڈی یا جانور کا حمل وہ موتی جو سیپ میں ہو اور جانور کے ذبح ہونے اور کٹھنے سے پہلے اس کے گوشت کی بیع کرنا جائز نہیں ہے سو (خنزیر) کے بالوں کی بیع کرنا بھی جائز نہیں ہے البتہ ان بالوں سے فائدہ اٹھانا مثلا گون یعنی غلہ وغیرہ بھر کر جانور کی پیٹھ پر لادے جانیوالے تھیلے اور بورے کو سینے کے مصرف میں لانا جائز ہے لیکن آدمی کے بالوں کی بیع بھی ناجائز ہے اور ان سے فائدہ اٹھانا بھی ناجائز ہے۔
جو بیع آپس کے نزاع کا باعث بنتی ہو وہ فاسد ہے جیسے بکری وغیرہ کی پیٹھ پر اس کی پشم کی بیع یا چھت میں لگی ہوئی لکڑی کی بیع یا ایک بڑے کپڑے میں ایک گز کپڑے کی بیع یا ایسی بیع کرنا جس میں ادائیگی قیمت کی مدت کو مجہول رکھا جائے مثلا یوں کہے کہ جس روز بارش بر سے گی یا جس روز تیز ہوا چلے گی اس روز اس کی قیمت ادا کروں گا لیکن اگر ان تمام صورتوں میں خریدار نے یع کو فسخ نہ کیا اور بیچنے والے نے خریدار کو دینے کے لئے چھت میں کڑی کو جدا کر دیا یا بڑے کپڑے میں سے گز بھر کپڑا جدا کر دیا خریدار نے ادائیگی قیمت کی مدت مجہول کو موقوف کر دیا تو بیع صحیح ہو جائے گی۔
شرط فاسد کے ساتھ کی جانیوالی بیع فاسد ہوتی ہے اور شرط فاسد اسے کہتے ہیں جو اقتضائے عقد کے خلاف ہو اور اس میں یا بیچنے والے کا فائدہ ہو جیسے بیچنے والا یہ شرط عائد کرے کہ میں نے یہ مکان بیچا مگر ایک ماہ تک میں اسی مکان میں رہوں گا یا خریدار کا فائدہ ہو جیسے خریدار یہ شرط عائد کرے کہ میں نے یہ کپڑا خرید لیا لیکن یہ کپڑا مجھے سی کر دے مبیع کا فائدہ ہو جب کہ انسان یعنی غلام ولونڈی ہو اور وہ نفع کا مستحق ہو جیسے بیچنے والا خریدار سے کہے کہ اس غلام کو آزاد کر دینا یا اس غلام کا نکاح کر دینا اس قسم کی شرطیں فاسد ہیں ان کی وجہ سے بیع بھی فاسد ہو جاتی ہے۔
خریدار کی ملکیت کی شرط کرنا چونکہ اقتضائے عقد کے خلاف نہیں ہے اس لئے فاسد نہیں اسی طرح اگر کوئی تاجر مثلا کوئی کپڑا بیچتے ہوئے خریدار پر یہ شرط عائد کرے کہ اس کپڑے کو فروخت نہ کرنا تو یہ شرط اگرچہ اقتضائے عقد کے خلاف ہے لیکن چونکہ اس شرط میں کسی کی بھی منفعت نہیں ہے اس لئے یہ شرط فاسد نہیں ہوگی نیز گھوڑا بیچنے والا اگر خریدار پر یہ شرط عائد کرے کہ اس گھوڑے کو فربہ کرنا اگرچہ اس شرط میں مبیع کی منفعت ہے لکین مبیع چونکہ انسان نہیں کہ وہ نفع کا مستحق ہو اس لئے یہ شرط بھی فاسد نہیں یہ شرط لغو وساقط ہوگی اور بیع صحیح ہو جائے گی۔
بیع فاسد وباطل کی مزید تفصیل فقہ کی کتابوں میں درج ہے ان کو جاننا چاہئے تاکہ خرید وفروخت کے ان معاملات سے جو شریعت کی نظر میں ناقابل اعتبار ہیں اور جن کا آج کل بہت رواج ہے اجتناب کیا جا سکے اس موقع پر چند دیگر مسائل کی وضاحت بھی ضروری ہے مثلا :
بیچنے والے کی طرف سے بیع کے ناپ تول میں کمی یا خریدار کی طرف سے قیمت میں کٹوتی حرام ہے جس طرح بیچنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ بیع کو پورا پورا ناپ تول کر دے اسی طرح خریدار کے لئے بھی ضروری ہے کہ جو قیمت طے ہو چکی ہے اس میں ادائیگی کے وقت کمی نہ کرے جو لوگ اس کے خلاف کرتے ہیں ان کے بارے میں قرآن کریم نے یوں تنبیہ کی ہے
ا یت (ویل للمطففین) (بڑی خرابی ہیں ناپ تول میں کمی کرنیوالوں کیلئے)
مبیع کی قیمت دیون معجلۃ اور مزدوروں کی ادائیگی میں بلا عذر تاخیر کرنا حرام ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ غنی صاحب استطاعت کی طرف سے ادائیگی مطالبہ میں تاخیر ظلم ہے لہذا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دیدو ۔
منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کا دین ادا کرتے تو مقدار واجب سے زیادہ ادا فرماتے مقدار واجب اگر آدھا وسق ہوتی تو اس کی بجائے ایک وسق دیتے اور اگر ایک وسق واجب ہوتا تو اس کی بجائے دو وسق عطا کرتے اور یہ فرماتے کہ یہ تو تمہارا حق ہے اور اس قدر مزید میری طرف سے عطاء ہے لیکن یہ ذہن میں رہے کہ اس طرح مقدار واجب سے زیادہ دینا سود کے حکم میں داخل نہیں ہے کیونکہ سود تو اس وقت ہوتا ہے جب اس زیادتی کو پہلے سے مشروط کر دیا گیا ہو بغیر شرط زیادہ دینا جائز بلکہ مستحب ہے۔
معاملات میں عہد شکنی مکروفریب اور جھوٹ کی آمیزش کسب حلال کو بھی حرام کر دیتی ہے لہذا ان سے اجتناب ضروری ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منقول ہے کہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بازار میں ایک دکان پر رکھے ہوئے گیہوں کے ایک ڈھیر کو دیکھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ڈھیر میں اپنا دست مبارک ڈالا تو اندر سے گیہوں تر معلوم ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکاندار سے پوچھا یہ کیا ہے اس نے کہا کہ ان گیہوں تک بارش کا پانی پہنچ گیا تھا جس کی وجہ سے یہ اندر کی جانب سے گیلے ہو گئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو پھر تم نے ان گیلے گیہوں کو ڈھیر کے اوپر کیوں نہیں رکھا (تاکہ کوئی لاعلم شخص ان کی وجہ سے دھوکہ نہ کھائے یاد رکھو جو شخص مسلمانوں کو فریب دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
بیع مرابحت (قیمت خرید پر نفع لے کر بیچنے کی صورت) اور بیع تولیت ( قیمت خرید پر بلانفع بیچنے کی صورت) میں خریدار کے سامنے پہلی قیمت (یعنی جس قیمت پر خود بیچنے والے نے خریدا ہو ) کو بلاکم وبیش ظاہر کر دینا واجب ہے اگر بیچنے والے نے بیع پر قیمت کے علاوہ کچھ اور مثلا مزدوری ڈھلائی اور چنگی وغیرہ کا خرچ برداشت کیا ہو تو اس کو بھی قیمت کے ساتھ ملا لے اور خریدار سے یوں کہے کہ اس چیز پر میرے اتنے روپے خرچ ہوئے ہیں یہ نہ کہے کہ میں نے یہ چیز اتنے روپے میں خریدی ہے تاکہ جھوٹا نہ بنے۔
اگر کسی شخص نے ایک کپڑا مثلًا دس روپے میں بیچا اور ہنوز خریدار نے بیچنے والے کو وہ دس روپے ادا نہیں کئے تھے کہ بیچنے والے نے پھر وہی کپڑا خریدار سے پانچ روپے میں خرید لیا یا اس کپڑے کو ایک اور کپڑے کے ساتھ دس درہم میں خریدا تو یہ بیع صحیح نہیں ہوگی ۔ کیونکہ یہ سود کے حکم میں آجائیگی بیع پر قبضے سے پہلے تصرف جبکہ مبیع منقول ہو حرام ہے چنانچہ منقول چیز کو قبضہ کرنے سے پہلے بیچنا جائز نہیں ہے۔
کسی شخص نے ایک کیلی چیز جو پیمانہ میں ناپ کر لی دی جاتی ہو) بشرطیکہ کیل خریدی اور بیچنے والے سے وہ چیز پیمانہ میں نپوا کر لے لی اور پھر اسی چیز کو اس نے کسی دوسرے کے ہاتھ بشرط کیل بیچی تو اب اس دوسرے خریدار کے لئے ضروری ہے کہ جب تک وہ خود بھی اس پہلے خریدار سے اس چیز کو پیمانہ میں نپوا نہ لے نہ تو اس چیز کو اپنے تصرف میں لائے اور نہ کسی اور کے ہاتھ یچے کیونکہ پہلا ناپ کافی نہیں ہے احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ اس کو پھر ناپ لیا جائے کہ مبادا وہ چیز پیمانہ میں کچھ زائد نکلے اور وہ بائع (بچنے والا) کا مال نہ ہو۔
اگر ایک مسلمان کسی چیز کی خرید وفروخت کا کوئی معاملہ کرتے ہوئے ایک نرخ متعین کرتا ہے یا ایک مسلمان نے کسی عورت سے نکاح کا پیغام دیا ہے تو تاوقتیکہ اس کا معاملہ طے یا موقوف نہ ہو جائے کسی دوسرے کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اس چیز کا معاملہ کرے یا اپنا پیغام بھیجے۔ بوقت اذان جمعہ خرید وفروخت کا کوئی معاملہ کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے سعی واجب یعنی نماز جمعہ کی ضروری تیاریوں میں خلل آتا ہے اگر متعدد مسجدوں میں جمعہ کی نماز ہوتی ہو تو جس مسجد میں نماز پڑھنے کا ارادا ہو اس کی اذان سے بیع ترک کرے۔
اگر دو بڑے چھوٹے غلام آپس میں محرمیت کی قرابت رکھتے ہوں تو ان کی علیحدہ علیحدہ بیع کرنا مکروہ وممنوع ہے اسی طرح اگر ایک ان میں سے چھوٹا ہو اور دوسرا بڑا تب بھی مکروہ وممنوع ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک تو یہ بیع ہی جائز نہیں ہوگی۔
مردار کی چربی بیچنا جائز نہیں ہے نجس کا تیل بیچنا حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں تو جائز ہے لیکن دوسرے ائمہ کے ہاں جائز نہیں ہے انسان کی غلاظت کی بیع جب کہ اس میں کچھ ملا نہ ہو حضرت حضرت امام اعظم کے نزدیک مکروہ ہے اور اگر راکھ غیر ملی ہوئی ہو تو جائز ہے حضرت امام اعظم کے ہاں گوبر کا بیچنا بھی جائز نہیں اس سے فائدہ اٹھانا بھی جائز نہیں ہے۔ بادشاہ وحاکم کے لئے یہ مکروہ ہے کہ وہ اشیاء کے نرخ متعین کر دیں ہاں اگر تاجر غلہ ودیگر اشیاء کی گرانی میں حد سے تجاوز کرنے لگیں اور عوام پریشانی میں مبتلا ہو جائیں تو پھر حاکم کے لئے جائز ہے کہ وہ تجربہ کار اور ماہرین کے مشورہ سے متعین کرے۔

یہ حدیث شیئر کریں