مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احادیث مبارکہ ۔ حدیث 757

کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے یا نہیں ؟

راوی:

وعن أبي ذر قال : قال لي رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يا أبا ذر " قلت : لبيك يا رسول الله وسعديك قال : " كيف أنت إذا أصاب الناس موت يكون البيت فيه بالوصيف " يعني القبر قلت : الله ورسوله أعلم . قال : " عليك بالصبر " قال حماد بن أبي سليمان : تقطع يد النباش لأنه دخل على الميت بيته . رواه أبو داود

اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا " اے ابوذر !" میں نے عرض کیا " میں حاضر ہوں یا رسول اللہ ! اور فرمانبردار ہوں ، فرمائیے کیا ارشاد ہے ؟ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تم اس وقت کیا کرو گے جب لوگوں کو موت ) یعنی کوئی وبا اپنی لپیٹ میں لے لے کی (کیا اس وقت تم موت سے بھاگ کھڑے ہو گے یا صبر واستقامت کی راہ اختیار کرو گے ؟ " اور گھر یعنی قبر کی جگہ ایک غلام کے برابر ہو جائے گی (یعنی اس وقت وبا کی وجہ سے اتنی کثرت سے اموات ہوں گی کہ ایک قبر کی جگہ ایک ایک غلام کی قیمت کے برابر خریدی جائے گی میں نے عرض کیا اس کے بارے میں اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں (یعنی میں نہیں جانتا کہ اس وقت میرا کیا ہوگا ، آیا میں صبر واستقامت کی راہ اختیار کروں یا اپنا مسکن چھوڑا کر بھاگ کھڑا ہوں ؟ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اس وقت تم پر صبر لازم ہے ' ' حضرت حماد ابن سلمہ کہتے ہیں کہ کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے کیونکہ وہ میت کے گھر میں داخل ہوا ہے ۔" (ابوداؤد )

تشریح :
حضرت حماد ابن ابوسلیمان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے بظاہر بڑا لطیف نکتہ پیدا اور یہ استدلال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ قبر کو گھر " کہا ہے اس طرح گھر کی طرح قبر بھی " حرز " ہوئی جیسے اور کوئی شخص گھر میں سے کوئی چیز چرائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے ایسے ہی اگر کوئی شخص قبر میں سے کفن چرائے گا تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت حماد کا یہ استدلال مضبوط نہیں ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ جگہ " حرز " کے حکم میں ہوں جس پر " گھر " کا اطلاق ہوتا ہو مثال کے طور پر فرض کیجئے اگر کوئی شخص کسی ایسے گھر میں سے کچھ مال چراتا ہے جس کا دروازہ بند نہ ہو یا جس میں کوئی نگہبان موجود نہ ہو تو متفقہ طور پر تمام علماء کا فیصلہ یہ ہے کہ اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ اگرچہ اس نے ایک گھر کے اندر سے مال چوری کیا ہے مگر اس گھر کے عدم محفوظ ہونے کی وجہ سے وہ " حرز" نہیں رہا ، اور جب اس صورت میں " حرز" کی شرط نہیں پائی گئی تو اس پر قطع ید کی سزا بھی نافذ نہیں ہوگی ۔ ٹھیک اسی طرح " قبر" کو اگرچہ " گھر " فرمایا گیا ہے لیکن چونکہ وہ " حرز" یعنی محفوظ نہیں ہے اس لئے اس میں سے کفن چرانے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔
ابن ہمام فرماتے ہیں کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد کا مسلک یہ ہے کہ ہاتھ کاٹنے کی سزا کفن چور پر نافذ نہیں ہوگی جب کہ تینوں آئمہ او حنفیہ میں سے) حضرت امام ابویوسف کا قول یہ ہے کہ کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا اس مسئلہ کی باقی تفصیل " مرقات " میں دیکھی جا سکتی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں