مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ شراب کی حد کا بیان ۔ حدیث 767

شرابی کو سزا دو اس کو عار دلاؤ لیکن اس کے حق میں بدعا نہ کرو

راوی:

وعن أبي هريرة قال : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم أتي برجل قد شرب الخمر فقال : " اضربوه " فمنا الضارب بيده والضارب بثوبه والضارب بنعله ثم قال : " بكتوه " فأقبلوا عليه يقولون : ما اتقيت الله ما خشيت الله وما استحييت من رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال بعض القوم : أخزاك الله . قال : " لا تقولوا هكذا لا تعينوا عليه الشيطان ولكن قولوا : اللهم اغفر له اللهم ارحمه " . رواه أبو داود

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جس نے شراب پی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ اس کی پٹائی کرو ۔ چنانچہ ہم میں سے بعض نے جوتیوں سے اس کی پٹائی کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب زبان سے اس کو تنبیہ کر دو اور عار دلاؤ ۔ چنانچہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے کہنا شروع کیا کہ تو نے اللہ کی مخالفت سے اجتناب نہیں کیا تو اللہ سے نہیں ڈرا اور تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت ترک کرنے یا اس حالت میں آپ کے سامنے آنے سے بھی نہیں شرماتا ۔ اور پھر جب بعض لوگوں نے یہ کہا اللہ تعالیٰ تجھ کو (دنیا وآخرت دونوں جگہ یا آخرت میں ) ذلیل ورسوا کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح نہ کہو اور اس پر شیطان کے غالب ہو جانے میں مدد نہ کرو بلکہ یوں کہو کہ اے اللہ ! اس گناہ کو مٹا کر اس کو بخشش دے اور اس کو طاعت ونیکی کی توفیق عطا فرما کر اس پر رحم کر یا اس کو دنیا میں بخشش دے اور عاقبت میں اس پر اپنا رحم فرما ۔" (ابو داؤد)

تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان سے تنبیہ کرنے کا جو حکم دیا وہ استحباب کے طور پر تھا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا حکم کہ اس کی پٹائی کرو وجوب کے طور پر تھا ۔
اس پر شیطان کے غالب ہو جانے میں مدد نہ کرو کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی بدعا کر کے شیطان کی اعانت نہ کرو کیونکہ جو اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل و رسوا کر دے گا تو اس پر شیطان کا تسلط ہو جائے گا یا جب وہ تم کو یہ بدعا کرتے ہوئے سنے گا ۔ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید و مایوس ہو جائے گا اور یہ مایوسی ونا امیدی اس کو گناہوں میں منہمک رکھے گی اس طرح اس پر اپنا غلبہ رکھنے کا شیطان کا مقصد بھی پورا ہوگا اور اس کا گناہوں اصراروتکرار اللہ کے غضب کا سبب بھی ہوگا لہٰذا اس اعتبار سے تمہاری بدعا شیطان کے بہکانے میں مدد گا ہوگی ۔
بلکہ یوں کہو اس حکم کا مطلب یا تو یہ تھا کہ شروع ہی میں اس کے لئے مغفرت ورحمت کی دعا کرنی چاہئے یا یہ کہ اب اس کے لئے دعاء مغفرت ورحمت کرو ، اور زیادہ صحیح یہی بات ہے کیونکہ شروع میں تو اس کو عار دلانا مطلوب تھا اور ظاہر ہے کہ اس دعا (اللہم اغفرلہ) کے ساتھ عار دلانے یا اس کو تنبیہ کرنے کا کوئی تعلق نہیں ہو سکتا ۔

یہ حدیث شیئر کریں