مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جس پر حد جاری کی جائے اس کے حق میں بد دعا نہ کرنے کا بیان ۔ حدیث 773

جو مجرم سزا پاچکا ہے اس کی آبروریزی مردار کھانے کے مترادف ہے

راوی:

وعن أبي هريرة قال : أتي النبي صلى الله عليه و سلم برجل قد شرب الخمر فقال : " اضربوه " فمنا الضارب بيده والضارب بنعله والضارب بثوبه فلما انصرف قال بعض القوم : أخزاك الله قال : " لا تقولوا هكذا لا تعينوا عليه الشيطان " . رواه البخاري
(2/325)

الفصل الثاني
(2/326)

3627 – [ 3 ] ( ضعيف )
عن أبي هريرة قال : جاء الأسلمي إلى نبي الله صلى الله عليه و سلم فشهد على نفسه أنه أصاب امرأة حراما أربع مرات كل ذلك يعرض عنه فأقبل في الخامسة فقال : " أنكتها ؟ " قال : نعم قال : " حتى غاب ذلك منك في ذلك منها " قال : نعم قال : " كما يغيب المرود في المكحلة والرشاء في البئر ؟ " قال : نعم قال : " هل تدري ما الزنا ؟ " قال : نعم أتيت منها حراما ما يأتي الرجل من أهله حلالا قال : " فما تريد بهذا القول ؟ " قال : أريد أن تطهرني فأمر به فرجم فسمع نبي الله صلى الله عليه و سلم رجلين من أصحابه يقول أحدهما لصاحبه : انظر إلى هذا الذي ستر الله عليه فلم تدعه نفسه حتى رجم رجم الكلب فسكت عنهما ثم سار ساعة حتى مر بجيفة حمار شائل برجله فقال : " أين فلان وفلان ؟ " فقالا : نحن ذان يا رسول الله فقال : " انزلا فكلا من جيفة هذا الحمار " فقالا : يا نبي الله من يأكل من هذا ؟ قال : " فما نلتما من عرض أخيكما آنفا أشد من أكل منه والذي نفسي بيده إنه الآن لفي أنهار الجنة ينغمس فيها " . رواه أبو داود
(2/326)

3628 – [ 4 ] ( لم تتم دراسته )
وعن خزيمة بن ثابت قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من أصاب ذنبا أقيم عليه حد ذلك الذنب فهو كفارته " رواه في شرح السنة

حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ماعز اسلمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے بارے میں چار بار یعنی چار مجلسوں میں یہ گواہی دی (یعنی یہ اقرار کیا ) کہ اس نے ایک عورت کے ساتھ بطریق زنا ، جماع کیا ہے ، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر بار (اس کے اقرار کرنے پر ) منہ پھیر لیتے تھے (تاکہ وہ اپنے اقرار سے رجوع کرے اور حد سے بچ جائے ) اور پھر پانچویں بار اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ " کیا تو نے اس عورت کے ساتھ صحبت کی ہے ؟ اس نے کہا کہ " ہاں ! " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (کیا تو نے اس طرح صحبت کی کہ وہ (یعنی تیرا عضو مخصوص ) اس (عورت کے حصہ مخصوص ) میں غائب ہو گیا ؟ " اس نے کہا کہ " ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا جانتے ہو زنا کیا ہے کہا " ہاں ! میں نے اس عورت کے ساتھ حرام طور پر وہ کام کیا ہے جو ایک مرد اپنی بیوی کے ساتھ حلال طور پر کرتا ہے ۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " (اچھا یہ بتا ) یہ جو کچھ تو نے کہا ہے اس سے تیرا مقصد کیا ہے ؟" اس نے کہا کہ " میں چاہتا ہوں کہ آپ (مجھ پر حد جاری فرما کر ) مجھ کو (اس گناہ سے ) پاک کر دیجئے ۔ چنانچہ (اتنی جرح کرنے کے بعد جب اس کا جرم زنا بالکل ثابت ہو گیا تو ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کو سنگساری کا ) حکم جاری فرمایا اور اس کو سنگسار کر دیا گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں سے دو آدمیوں کو یہ گفتگو کرتے ہوئے سنا کہ ان میں سے ایک اپنے ساتھی سے یہ کہہ رہا تھا " اس شخص کو دیکھو ، اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی کی تھی لیکن اس کے نفس نے اس کو (اپنے اقرار گناہ سے ) باز نہ رکھا یہاں تک کہ وہ ایک کتے کی مانند سنگسار کیا گیا ۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس وقت تو ان دونوں سے کچھ نہیں کہا البتہ کچھ دیر تک چلنے کے بعد ایک مرے ہوئے گدھے کے قریب سے گذرے جس کے پاؤں ( اس کا جسم بہت زیادہ پھول جانے کے سبب ) اوپر اٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ فلاں فلاں (یعنی وہ دونوں) شخص کہا ہیں (جنہوں نے ماعز کی اس وجہ سے تحقیر کی تھی کہ اس کو سنگسار کیا گیا تھا ') انہوں نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ !" ہم دونوں (حاضر ) ہیں ۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں اترو اور اس گدھے کا مردار گوشت کھاؤ ۔" انہوں نے (بڑی حیرت کے ساتھ ) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس کا گوشت کون کھاتا ہے ؟ (یعنی اس کا گوشت کھائے جانے کے قابل نہیں ہے آپ ہم سے اس کے کھانے کو کیوں فرماتے ہیں ؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ابھی اپنے بھائی کی جو آبروریزی کی ہے وہ اس گدھے کا گوشت کھانے سے بھی زیادہ سخت (بری بات ) ہے قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بلا شبہ وہ (ماعز ) جنت کی نہروں میں غوطے لگا رہا ہے ۔" (ابو داؤد)

اور حضرت خزیمہ ابن ثابت کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جو شخص کسی ایسے گناہ کا مرتکب ہو جو حد کو واجب کرنے والا ہو اور پھر اس پر اس گناہ کی حد جاری کی جائے مثلاً کسی شخص نے زنا کیا اور اس کے کوڑے مارے گئے ، یا کسی شخص نے چوری کی اور اس کا ہاتھ کاٹا گیا ) تو وہ حد اس کے اس گناہ کا کفارہ ہے (یعنی حد جاری ہونے کے بعد وہ شخص اس گناہ سے پاک وصاف ہو جائے گا ) (شرح السنۃ)

یہ حدیث شیئر کریں