مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ تعزیر کا بیان ۔ حدیث 779

بدزمانی کی سزا

راوی:

وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " إذا قال الرجل للرجل : يا يهودي فاضربوه عشرين وإذا قال : يا مخنث فاضربوه عشرين ومن وقع على ذات محرم فاقتلوه " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب

اور حضرت ابن عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اگر کوئی شخص کسی (مسلمان ) کو کہے " اے یہودی " تو اس کو بیس کوڑے مارو ، اور اگر اے مخنث " کہے تب بھی اس کے بیس کوڑے مارو اور جو شخص محرم عورت سے زنا کا مرتکب ہوا اس کو مار ڈالو ۔" ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔"

تشریح :
مخنث " اس کو کہتے ہیں جس کے اعضاء اور بات چیت کے انداز میں زنانہ پن ہو اور حرکات وسکنات میں عورتوں کے مشابہ ہوا جس کو زنخا اور زنانہ بھی کہا جاتا ہے ۔
اگر کوئی شخص کسی غلام پر یا کسی کافر پر زنا کی تہمت لگائے تو اس کو تعزیر (کوئی سزا) دی جانی چاہئے ۔ اسی طرح اس شخص کو بھی تعزیر دی جائے جو کسی مسلمان پر زنا کے علاوہ کسی اور برائی کی تہمت لگائے مثلاً ان الفاظ کے ذریعہ اس کو مخاطب کرے اے فاسق ، اے فاجر ، اے کافر ، اے خبیث اے چور ، اے منافق ، اے لوطی یعنی اغلام باز ، اے یہودی ، اے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے والے ، اے سود خوار ، اے دیوث اے مخنث ، اے خائن ، اے رنڈی کی اولاد اے بدکار عورت کے بچے ، اے زندیق ، اے کتے ، اے زانیوں یا چوروں کے پشت پناہ اور اے حرام زادے
اگر کوئی شخص کسی مسلمان شخص کو ان الفاظ کے ذریعہ مخاطب کرے تو وہ قابل تعزیر نہیں ہوگا ، اے گدھے ، اے کتے ، اے بندر ، اے بکرے ، اے الو ، اے سانپ ، اے بیل ، اے بھیڑئیے ، اے حجام ، اے حجام کی اولاد (درا نحالیکہ وہ کسی حجام کی اولاد نہ ہو ) اے ولد الحرام ، اے ناکس ، اے منکوس ، اے مسخرے ، اے ٹھٹھے باز ، عیار اے بیوقوف اور اے وہمی ، لیکن اس سلسلہ میں یہ واضح رہے کہ علماء نے اس شخص کو تعزیر دینا پسند کیا ہے جو مذکورہ بالا الفاظ کے ذریعہ کسی ایسے شخص کو مخاطب کرے جو شرفاء میں سے ہو ۔
خاوند کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی کو تعزیر (کوئی سزا ) دے جب کہ وہ کہنے کے باوجود اس کے سامنے زینت وآرائش کرنے سے اجتناب کرتی ہو یا وہ اس کو اپنے بستر پر (ہم بستری ) بلائے اور وہ انکار کر دے ، یا وہ نماز نہ پڑھتی ہو ، یا غسل جنابت ترک کرتی ہو اور یا اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے باہر آتی جاتی ہو ۔
" جو شخص محرم عورت سے زنا کا مرتکب ہو اس کو مار ڈالو ۔" حضرت امام احمد نے اس ارشاد کے ظاہری مفہوم پر عمل کیا ہے جب کہ جمہور علماء کے نزدیک اس کا ظاہری مفہوم مراد نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق صرف زجر، تہدید سے ہے ۔ بعض حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ یہ ارشاد اس بات پر محمول ہے کہ جو شخص حلال اور ہلکا جان کر کسی محرم عورت سے زنا کرے اس کو مار ڈالا جائے ورنہ محرم عورت کے ساتھ زنا کا بھی وہی حکم ہے جو دوسری عورتوں کے ساتھ زنا کا ہے کہ اگر زانی محصن (شادی شدہ ) ہو تو اس کو سنگسار کیا جائے اور اگر غیر محصن (کنوارا ) ہو تو کوڑے مارے جائیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں