مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ شراب کی حقیقت اور شراب پینے والے کے بارے میں وعید کا بیان ۔ حدیث 789

شراب کو دوا کے طور پر بھی استعمال کرنا جائز نہیں ہے

راوی:

وعن وائل الحضرمي أن طارق بن سويد سأل النبي صلى الله عليه و سلم عن الخمر فنهاه . فقال : إنما أصنعها للدواء فقال : " إنه ليس بدواء ولكنه داء " . رواه مسلم

اور حضرت وائل حضرمی روایت کرتے ہیں کہ طارق ابن سوید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب نوشی کے بارے میں پوچھا تو آپ نے ان کو منع فرمایا پھر طارق نے کہا کہ ہم تو شراب کو دوا کے طور پر استعمال کرتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " وہ دوا نہیں ہے بلکہ (خود ایک ) بیماری ہے ۔ (مسلم )

تشریح :
اکثر علماء نے شراب کو دوا کے طور پر بھی استعمال کرنے سے منع کیا ہے جب کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اگر حاذق طبیب ومعالج کے کہنے کے مطابق شراب ہی کسی مرض کا واحد علاج ہو یعنی معالج یہ کہے کہ اس مرض کی بس شراب ہی دوا ہے اور کوئی دوا نہیں ہے تو اس صورت میں اس کا استعمال مباح ہوگا ، اسی طرح اگر حلق میں کوئی لقمہ وغیرہ اٹک اور اس کی وجہ سے جان کی ہلاکت کا خوف ہو نیز اس وقت پانی یا ایسی اور کوئی چیز موجود نہ ہو جس سے وہ لقمہ وغیرہ حلق سے اتر جائے تو اس صورت میں تمام علماء کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ صرف اتنی شراب پی لینا حلال ہے جس سے وہ لقمہ وغیرہ حلق سے نیچے چلا جائے ۔
کسی حرام چیز میں اللہ نے شفا نہیں رکھی ہے ،
پچھلے باب کے ابتدا میں بتایا گیا تھا کہ شراب کی حرمت دفعۃً نازل ہونے کی بجائے بتدریج نازل ہوئی ہے ، چنانچہ اس سلسلہ میں جو پہلی آیت نازل ہوئی ہے وہ بھی اس موقع پر نقل کی گئی ہے اس آیت میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ (ومنافع للناس) یعنی اس شراب میں لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں ۔" وہ فائدے کیا ہیں ، اس بارے میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن بعض مفسرین نے وضاحت کی ہے کہ " فائدے " سے مراد انسانی بدن کی صحت ہے کہ شراب نسان کی جسم کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے یا اس کے ذریعہ کسی مرض سے نجات مل سکتی ہے ۔ اس ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ " اللہ تعالیٰ نے کسی حرام چیز میں شفا نہیں رکھی ہے ۔"

یہ حدیث شیئر کریں