مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جن بیوع سے منع کیا گیا ہے ان کا بیان ۔ حدیث 79

بیع اشیاء منقولہ میں قبل قبضہ دوسری بیع جائز نہیں ہے

راوی:

وعن ابن عمر قال : كانوا يبتاعون الطعام في أعلى السوق فيبيعونه في مكانه فنهاهم رسول الله صلى الله عليه و سلم عن بيعه في مكانه حتى ينقلوه . رواه أبو داود ولم أجده في الصحيحين

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ بازار کے اس حصے میں جو جانب بلندی واقع تھا لوگ غلہ خریدتے اور پھر اس کی اسی جگہ قبضہ میں لینے سے پہلے بیچ ڈالتے تھے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس بات سے منع فرمایا کہ جب تک غلہ کو خریدنے کے بعد وہاں سے منتقل نہ کیا جائے اس کو اسی جگہ فروخت نہ کیا جائے اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا اور مجھے یہ روای بخاری ومسلم میں نہیں ملی۔

تشریح :
وہاں سے منتقل نہ کیا جائے" کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اسے اپنے قبضہ میں نہ لے لیا جائے اور اشیاء منقولہ کا قبضہ میں لینا یہ ہے کہ اس کو خریدنے کے بعد اس کی جگہ سے اٹھا کر کسی دوسری جگہ رکھ دیا جائے چاہے وہ دوسری جگہ کتنی ہی قریب کیوں نہ ہو۔
یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اگر اس چیز کو پیمانے یا وزن کے ذریعے لیا ہے تو پیمانے میں نپوا کر یا وزن کرانے کے بعد ہی اسے اٹھائے اور اگر بلا پیمانہ و وزن لیا ہے تو پھر اس کے بغیر ہی اٹھا کر رکھ دے ۔ حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اشیاء منقولہ میں سے کوئی چیز خریدے اور پھر اسے کسی دوسرے کو فروخت کرنا چاہیے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے اس چیز کو اپنے قبضے میں لے اس کے بعد اسے فروخت کرے کیونکہ بیع اشیاء منقولہ میں قبل قبضہ دوسری بیع جائز نہیں ہے۔
صاحب مشکوۃ نے" مجھے یہ روایت بخاری ومسلم میں نہیں ملی ہے۔ کے ذریعے دراصل صاحب مصابیح پر اعتراض کیا ہے کہ اس روایت کو پہلی فصل میں ذکر کیا گیا ہے جب کہ یہ روایت نہ تو بخاری میں ہے اور نہ مسلم میں بلکہ ابوداؤد میں ہے اس لئے یہ روایت قاعدہ کے اعتبار سے دوسری فصل میں نقل کی جانی چاہئے تھی۔
حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص غلہ خریدے تو اس کو اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک کہ اسے پوری طرح نہ لے لے اور حضرت ابن عباس کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب تک اس کو ناپ نہ لے (بخاری ومسلم)

تشریح :
جب تک کہ اسے پوری طرح نہ لے لے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کہ اسے اپنے قبضہ میں نہ لے لے اس کی وضاحت گذشتہ حدیث کے ضمن میں کی جا چکی ہے اس موقع پر اس بارے میں فقہی اختلاف بھی جان لیجئے کہ حضرت امام شافعی اور حنفیہ میں سے حضرت امام محمد کے نزدیک کسی چیز کو خرید کر پھر اسے کسی دوسرے کے ہاتھ قبضہ سے پہلے بیچنا جائز نہیں ہے وہ چیز خواہ اشیاء منقولہ میں سے ہو جیسے غلہ وغیرہ یا عقار یعنی زمین ہو۔
حضرت امام مالک کے نزدیک قبل قبضہ صرف غلے کا بیچنا تو جائز نہیں ہے اور سب چیزوں کا بیچنا جائز ہے حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام ابویوسف کے ہاں قبل قبض عقار یعنی زمین کا بیچنا تو جائز ہے لیکن اشیاء منقولہ میں سے کسی بھی چیز کا بیچنا جائز نہیں ہے حضرت امام احمد کا مسلک بھی بظاہر یہی ہے۔
حضرت ابن عباس کی روایت کے الفاظ جب تک کہ اس کو ناپ نہ لے" سے بعض علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر بیچنے والا خریدار کے سامنے غلہ کو ناپ کر یا وزن کر کے دے تو یہ کافی نہیں ہے بلکہ خریدار کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کو اپنے قبضے میں لے لینے کے بعد پھر دوبارہ خود بھی ناپے یا وزن کرے لیکن اس بارے میں زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ خریدار کے سامنے بیچنے والے کا ناپنا یا وزن کرنا کافی ہے کیونکہ خریدار کے سامنے بیچنے والے کا ناپنا یا وزن کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ خود خریدار ناپے یا وزن کرے۔
حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو منع کیا ہے وہ غلہ ہے کہ اس کو قبضے میں لانے سے پہلے فروخت کرنا ممنوع ہے حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ اس بارے میں ہر چیز غلہ کی مانند ہے ( بخاری ومسلم)

تشریح :
حضرت ابن عباس کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح غلہ کو قبل قبضہ بیچنا جائز نہیں ہے اسی طرح کسی بھی چیز کو اس وقت تک بیچنا جائز نہیں ہے جب تک کہ وہ قبضہ میں نہ آ جائے یہ گویا حضرت ابن عباس کا اپنا گمان وخیال ہے کہ انہوں نے اس مسئلے میں غلے پر غیر غلے کو قیاس کیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم آگے جا کر غلہ وغیرہ لانے والے قافلے سے خرید وفروخت کے لئے نہ ملو اور تم میں سے کوئی شخص کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور نجش نہ کرو اور شہر کا آدمی کسی دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے اور اونٹ وبکری کے تھنوں میں دودھ جمع نہ کرو اور اگر کوئی شخص ایسا جانور خریدے جس کے تھنوں میں دودھ جمع کیا گیا ہو تو دوھ دوہنے کے بعد اسے اس جانور کو رکھ لینے یا پھیر لینے کا اختیار ہوگا اگر اس کی مرضی ہو تو اس جانور کو رکھ لے اور مرضی ہو تو اس کو پھیر دے اور اس کے ساتھ ہی صاع (ساڑھے تین سیر ) کھجوریں دیدے ( بخاری ومسلم)
مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ جو شخص ایسی بکری خریدے جس کے تھنوں میں دودھ جمع کیا گیا ہو تو اس بکری کو رکھ لینے یا پھیر دینے کا تین دن تک اختیار رہتا ہے چنانچہ اگر وہ ان تین دنوں میں اس بکری کو واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھجوریں دیدے مگر گیہوں نہ دے۔

تشریح :
پہلی ہدایت کا مطلب یہ ہے کہ مثلًا تمہیں معلوم ہو کہ بیوپاریوں کا کوئی گروہ غلہ وغیرہ لے کر شہر آ رہا ہے تو قبل اس کے کہ وہ بیوپاری شہر میں پہنچیں اور وہاں بازار کا بھاؤ وغیرہ معلوم کریں تم راستے میں جا کر ان سے خرید وفروخت کا کوئی معاملہ نہ کر لو یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے دیا کہ تاکہ ان بیوپاریوں اور تاجروں کو فریب دینے یا ان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع پیدا نہ ہو جائے۔
تم میں سے کوئی شخص کسی کی بیع پر بیع نہ کرے یعنی دو شخصوں میں خرید وفروخت کا کوئی معاملہ ہو رہا ہو تو تم اس میں دخل نہ دو بایں طور کہ نہ تو چیز کے دام بڑھا کر یا کسی اور ذریعے سے اس کو خریدنے کا اظہار کہ اس میں خریدار کا نقصان ہوگا اور نہ اپنا مال دکھا کر کم قیمت پر اسے بیچو کہ اس میں بیچنے والے کو نقصان ہوگا یا مثلا اگر کوئی شخص کسی سے کوئی چیز بشرط خیار خریدے تو تم اس خریدار کے پاس جا کر یوں کہو کہ تم اس معاملے کو فسخ کر کے اسے واپس کر دو میں ایسی ہی چیز تمہیں اس سے سستے داموں دیدوں گا اس طرح اپنے فائدے کے لئے کسی کا معاملہ بگاڑنا برا ہے اگر مقصد خود خرید نا یا خو بیچنا نہ ہو بلکہ محض معاملہ بگاڑنا ہی منظور ہو تو یہ بہت ہی برا ہے ۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ اس مخالفت کا تعلق اس چیز سے ہے کہ جس میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو اور اگر کسی چیز میں کوئی شرعی قباحت ہو جیسے کوئی شخص کسی کو غبن یا چوری کا مال بیچتا ہو تو اس صورت میں معاملہ کو فسخ کرا دینا جائز ہے۔
نجش : کے معنی ہیں رغبت دلانا اور فریب دینا اس کی صورت یہ ہے کہ دو شخصوں کے درمیان معاملہ ہو رہا ہو تو تیسرا شخص آکر اس چیز کی تعریف کرنے لگے جس کا معاملہ ہو رہا ہے یا اس چیز کی قیمت زیادہ لگا دے اور اس سے اس کا مقصد خریداری نہ ہو بلکہ منظور یہ ہو کہ خریدار میری دیکھا دیکھی اس چیز کی خریداری کی طرف زیادہ راغب ہو جائے یا اس چیز کی قیمت اور زیادہ لگا دے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ اصل خریدار کو فریب میں مبتلا کرنے کی ایک بدترین صورت ہے۔
شہری آدمی کسی دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے مثلا کوئی دیہاتی اپنا مال جیسے غلہ وغیرہ بازار کے بھاؤ فروخت کرنے کے لئے شہر لائے اور کوئی شہری اس سے آ کر یہ کہے کہ تم اپنا یہ مال میرے پاس چھوڑ جاؤ میں اس کو بڑی آسانی کے ساتھ گراں نرخ پر بیچ دوں گا اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے منع فرمایا ہے کہ اس میں مخلوق اللہ کو نفع سے باز رکھنا ہے چنانچہ یہ حضرت امام شافعی کے نزدیک حرام ہے اور حنفی مسلک کے مطابق مکروہ ہے۔
اونٹ وبکری کے تھنوں میں دودھ جمع نہ کرو مثلا ایک شخص کے پاس دودھ والا کوئی جانور جیسے بکری وبھینس وغیرہ ہے وہ اس کو بیچنا چاہتا ہے اس جانور کی زیادہ قیمت وصول کرنے کے لئے وہ یہ کرتا ہے کہ بیچنے سے دو تین دن یا دو تین وقت پہلے اس جانور کا دودھ دوہتا نہیں بلکہ اس کے تھن میں چھوڑے رکتا ہے تا کہ تھن میں زیادہ دودھ جمع ہو جائے اور خریدار یہ سمجھ کر کہ یہ جانور زیادہ دودھ دینے والا ہے اس کی زیادہ قیمت دیدے اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے منع فرمایا کہ یہ فریب دہی کا معاملہ ہے اس ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مسئلہ بیان فرمایا اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر اور کوئی شخص ایسا جانور خرید لائے جس کا کئی دن یا کئی وقت کا دودھ اس کے تھن میں جمع رکھا گیا اور پھر اس کا دودھ دوہنے کے بعد معلوم ہو کہ یہ جانور کم دودھ دیتا ہے تو اسے اختیار حاصل ہوگا کہ چاہے تو اس جانور کو واپس کر دے اور چاہے رکھ لے مگر جب جانور کو واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھجوریں اس دودھ کے عوض میں دے جو اس نے دوہا ہے۔
اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دودھ کے عوض میں ایک صاع کھجوروں کا تعین کیوں کیا گیا ہے جب کہ اس دودھ ہی کو واپس کر دئیے یا اس دودھ کی قیمت دے دینے کا حکم بھی دیا جا سکتا تھا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ خریدار نے اس جانور کا جو دودھ دوہا ہے اس میں کچھ حصہ تو وہ ہوگا جو خریدار کی ملکیت میں آنے کے بعد جانور کے تھن میں پیدا ہوا ہے اور کچھ حصہ وہ ہے جو جانور کی خریداری کے وقت اس کے تھن میں تھا اور جانور کے ساتھ اس دودھ کی بھی بیع ہوئی تھی ظاہر ہے کہ اس صورت میں دودھ کے ان دونوں حصوں کا تعین وامتیاز ناممکن ہونے کی وجہ سے نہ تو دودھ واپس کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی قیمت ہی متعین کر کے دی جا سکتی ہے لہذا شارع نے اس کا حل یہ نکالا کہ طرفین میں فتنہ وفساد کے دفعیہ کے لئے شارع نے خون ناحق کی دیت یعنی قتل کا مالی معاوضہ ایک سو اونٹ مقرر کیا ہے حالانکہ مراتب وحیثیت کے اعتبار سے ہر جان اور ہر خون یکساں نہیں ہوتا لیکن اس بارے میں شریعت نے اس تفاوت کو بنیاد نہیں بنایا۔
اس حدیث پر امام شافعی نے عمل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے جانور کی بیع میں خیار (یعنی بیع کو فسخ کر دینے یا باقی رکھنے کا اختیار) حاصل ہوتا ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے کہا ہے کہ اس میں خیار نہیں ہے ان کے نزدیک حدیث میں مذکورہ بالا حکم متروک ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ حکم ربا کے حرام ہونے سے پہلے تھا جب کہ معاملات میں اس قسم کی چیزیں جائز تھی اب یہ منسوخ ہو گیا ہے۔
حدیث کے آخری جملے ایک صاع غلہ دیدے مگر گیہوں نہ دے کے بارے میں علامہ ابن حجر شافعی کہتے ہیں کہا اس سے معلوم ہوا کہ جانور واپس کرتے ہوئے اس کے دودھ کے عوض میں کھجوروں کے علاوہ اور کچھ دینا جائز نہیں ہے اگرچہ بیچنے والا کوئی بھی چیز لینے پر راضی ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب کی غذا کا زیادہ تر تعلق کھجور اور دودھ ہی سے تھا اس لئے دودھ کی بجائے کھجور دینا مقرر کیا گیا لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اگر بیچنے ولا راضی ہو تو کھجور کے علاوہ اور کوئی چیز بھی دی جا سکتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم آگے جا کر غلہ وغیرہ لانے والے قافلے سے نہ ملو اگر کوئی شخص جا کر ملا اور کچھ سامان خرید لیا اور پھر سامان کا مالک بازار میں آیا تو اس کو اختیار ہو گا (کہ چاہے بیع کو قائم رکھے چاہے فسخ کر دے) مسلم

تشریح :
لفظ جلب اور لفظ رکبان جو گذشتہ حدیث میں منقول تھا دونوں کے ایک ہی معنی ہیں اور ان کی وضاحت گذشتہ حدیث کی تشریح میں کی جا چکی ہے۔
علماء لکھتے ہیں کہ اس ممانعت کا تعلق اس صورت میں ہے جب کہ آنیوالے بیوپاریوں سے راستے ہی میں خریداری کرنے کی وجہ سے اہل شہر کو نقصان وضرر پہنچے اور خریدار شہر وبازار کے نرخ کو پوشیدہ رکھ کر بیوپاریوں کو فریب دے اور اگر اہل شہر کو نقصان وضرر نہ ہو نیز نہ تو خریدار بیوپاریوں سے شہر کا نرخ چھپائے اور نہ ان کو فریب میں مبتلا کرے تو اس صورت میں یہ ممانعت نہیں ہوگی۔
حدیث میں جس اختیار کو ذکر کیا گیا ہے اس کے بارے میں شافعیہ تو یہ کہتے ہیں کہ جب مالک (یعنی باہر سے مال لانے ولا بیوپاری) شہر میں آئے اور اسے یہ معلوم ہو کہ خریدار نے اس شہر کی بنسبت سستا لیا ہے تو اس صورت میں اسے اختیار ہوگا کہ چاہے تو بیع کو فسخ کر کے اپنا مال واپس لے لے اور چاہے بیع کو باقی رکھے اور اگر اسے یہ معلوم ہو کہ خریدار نے شہر کے بھاؤ سے گراں لیا ہے یا شہر کے بھاؤ کے مطابق لیا ہے تو پھر اس صورت میں بیوپاری کو اختیار حاصل نہیں ہوگا۔
اس مسئلے میں فقہ حنفی کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوپاری کو یہ اختیار اسی وقت حاصل ہوگا جب کہ اسے شہر میں آنے کے بعد معلوم ہو کہ خریدار نے اس سے کھلا ہوا فریب کیا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر اسے یہ اختیا رحاصل نہیں ہوگا۔
حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سامان لانیوالوں سے ان کے شہر پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں جا کر نہ ملو اور اس وقت تک ان سے کوئی معاملہ نہ کرو جب تک کہ ان کا سامان بازار میں آ کر اتر نہ جائے ( بخاری ومسلم)

یہ حدیث شیئر کریں