مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ شراب کی حقیقت اور شراب پینے والے کے بارے میں وعید کا بیان ۔ حدیث 798

شرابی جنت میں داخل نہیں ہوگا

راوی:

وعنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " لا يدخل الجنة عاق ولا قمار ولا منان ولا مدمن خمر " . رواه الدارمي وفي رواية له : " ولا ولد زنية " بدل " قمار "

اور حضرت عبداللہ ابن عمرو روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جو بندگاں خاص نجات پا کر شروع میں جنت میں داخل ہوں گے ان کے ساتھ ) جنت میں نہ تو وہ شخص داخل ہوگا جو اپنے ماں باپ کی (بلاوجہ شرع ) نافرمانی کرتا ہے ، نہ جواری داخل ہوگا ، نہ وہ شخص داخل ہوگا جو فقراء کو صدقہ دے کر احسان جتاتا ہے ، اور نہ وہ شخص داخل ہوگا جو ہمیشہ شراب پیتا ہے (دارمی ) اور دارمی ہی کی ایک روایت میں " نہ جواری داخل ہوگا " کے بجائے یہ ہے کہ " نہ ولد الزنا (جنت میں ) داخل ہوگا ۔"

تشریح :
موجودہ زمانے کے اعتبار سے ہر وہ کھیل جوا ہے جس میں عام شرط باندھی جاتی ہے کہ جیتنے والا ہارنے والے سے اتنے روپے یا فلاں چیز لے لے گا جیسے تاش و نرد اور شطرنج وغیرہ ، اسی طرح " سٹہ " بھی جوئے کے حکم میں داخل ہے ۔
طیبی کے قول کے مطابق منان کے ایک معنی تو وہ ہیں جو ترجمہ سے ظاہر ہیں یعنی " کسی فقیر ومحتاج کو صدقہ وخیرات دے کر اس پر احسان جتانا " لیکن ایک احتمال یہ بھی ہے کہ منان دراصل من سے ہو جس کے معنی " قطع " کے ہیں اس طرح منان وہ شخص ہوا جو رشتوں ناتوں کو قطع کرنے والا ہو ۔
یہ حدیث کہ " ولد الزنا جنت میں داخل نہیں ہوگا " نہ تو صحیح ہے اور نہ اس کو موضوع ہی قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ یہ ایک ضعیف روایت ہے ، تاہم اگر اس کے کسی درجہ میں صحیح ہونے کا احتمال بھی ہو تو اس صورت میں اس کی تاویل اور وضاحت یہ ہے کہ جو اولاد زنا کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے وہ چونکہ باپ کی تربیت ونگرانی سے محروم رہتی ہے اور ماں کی بد کر داری کا سایہ اس کے اوپر ہوتا ہے اس لئے وہ عام طور پر بگڑ جاتی ہے اور ظاہری وباطنی تربیت نہ پانے کی وجہ سے مختلف طرح کی برائیوں اور بداعمالیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے اور مال کار وہ عذاب الٰہی میں گرفتار رہتی ہے ، مزید برآں جس طرح حرام ذرئع مثلًا جوئے اور سود سے کمائے جانے والے مال میں ایک طرح کی " نحوست " ہوتی ہے اس طرح ولد الزنا میں بھی ایک طرح کی نحوست ہوتی ہے کیونکہ وہ ایسے نطفے سے وجود میں آتا ہے جو " حرام جگہ " میں " حرام ذریعہ " سے قرار پایا تھا ۔ یا یہ کہا جائے کہ اس ارشاد " ولد الزنا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔" کے ذریعہ دراصل زانی پر تعریض وتشدید مقصود ہے جو اس (ولد الزنا ) کی پیدائش کا سبب بنا ہے ۔
علاوہ ازیں بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ یہاں " ولد الزنا " سے مراد وہ شخص ہے جو زنا پر مواظبت و مداومت اختیار کرتا ہے اور بدکاری اس کی عادت بن جاتی ہے جیسے بہادروں کو " بنوالحرب " (یعنی جنگ کی اولاد ) یا مسلمان کو بنوالاسلام (یعنی اسلام کی اولاد ) کہہ دیتے ہیں ۔ حاصل یہ کہ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ولد الزنا محض اس وجہ سے کہ وہ زنا کہ نتیجہ میں پیدا ہوا ہے ، عذاب الٰہی میں گرفتار ہوگا یا اس کو جنت کی سعادت سے محروم رکھا جائے گا کیونکہ جس برائی نے اس کو جنم دیا ہے اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں