مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ شراب کی حقیقت اور شراب پینے والے کے بارے میں وعید کا بیان ۔ حدیث 799

شرابی کے بارے میں ایک وعید

راوی:

وعن أبي أمامة قال : قال النبي صلى الله عليه و سلم : " إن الله تعالى بعثني رحمة للعالمين وهدى للعالمين وأمرني ربي عز و جل بمحق المعازف والمزامير والأوثان والصلب وأمر الجاهلية وحلف ربي عز و جل : بعزتي لا يشرب عبد من عبيدي جرعة خمر إلا سقيته من الصديد مثلها ولا يتركها من مخافتي إلا سقيته من حياض القدس " . رواه أحمد

اور حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پوری دنیا کے لئے رحمت اور تمام عالم کے لئے ہادی بنا کربھیجا ہے ، اور میرے بزرگ وبرتر اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں باجوں ، مزامیر ، بتوں ، سولیوں اور زمانہ جاہلیت (یعنی حالت کفر ) کے تمام رسوم وعادات کو مٹا دوں ، اور میرے بزرگ وبرتر اللہ نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ میرے بندوں میں سے جو بھی بندہ شراب کا ایک گھونٹ بھی پئے گا میں اس کو (آخر میں ) اسی بقدر دوزخیوں کی پیپ پلاؤں گا ، اور جو بندہ میرے خوف سے شراب پینا چھوڑے گا میں اس کو (آخرت میں ) پاک حوضوں (یعنی جنت کی نہروں ) سے (شراب طہور ) پلاؤں گا ۔" (احمد)

تشریح :
" باجوں " سے ڈھول ، ڈھولکی ، نقارہ ، تاشہ ، طبلہ ، طنبورہ ، سارنگی ، ستار اور اسی قسم کے دوسرے باجے مراد ہیں ، اسی طرح " مزامیر" سے شہنائی ، چنگ ، بانسری اور اس قسم کی دوسری چیزیں مراد ہیں ۔
یہ حدیث باجوں اور مزامیر کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ یہ چیزیں زمانہ قدیم سے اہل فسق اور گمراہ لوگوں کے رسوم وعادات میں داخل رہی ہیں ۔
فقہاء لکھتے ہیں کہ راگ و نغمہ ، باجوں اور مزامیر کے ساتھ تو حرام ہے اور محض آواز کے ساتھ مکروہ ہے ، نیز اجنبی عورتوں سے سننا سخت حرام ہے ۔
" سولی " سے مراد وہ صلیبی نشان (کراس) ہے جو عیسائیوں کے ہاں ایک مقدس علامت اور قومی ومذہبی نشان ہے جو اس شکل میں ہوتا ہے یعنی ایک خط دوسرے خط کو کاٹتا ہے ۔ یہ دراصل یہ سولی کا نشان ہے جس پر عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو چڑھایا گیا تھا ، اسی مناسبت سے عیسائی اس نشان کو بہت ہی مقدس اور بابرکت سمجھتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ ان کے مرد عورت اس نشان کو مختلف صورتوں میں اپنے جسم پر آویزاں رکھتے ہیں بلکہ اپنی تمام چیزوں پر بھی یہ نشان بناتے ہیں ، اس سے ان کا یہ مقصد حصول برکت بھی ہوتا ہے اور اس واقعہ کی حسرت ناکی اور غمگینی کو یاد رکھنا بھی ہوتا ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا تھا ۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نشان کے نیست ونابود کرنے کا بھی حکم دیا گیا اور مسلمانوں کو سختی کے ساتھ منع کیا گیا کہ وہ کسی بھی ایسی چیز کو استعمال نہ کریں جس پر یہ نشان ہو اور نہ اپنی کسی چیز پر یہ نشان بنائیں کیونکہ اس سے ایک غیر قوم کی مشابہت ہوگی ہے جو اسلام میں سخت حرام ہے ۔
زمانہ جاہلیت کی رسوم وعادات سے مراد وہ چیزیں ہیں جو سراسر باطل ہیں اور جو زمانہ اسلام سے قبل کثرت سے رائج تھیں جیسے نوحہ وبین کرنا ، اپنی نسل یا اپنے خاندان پر بے جا فخر کرنا اور دوسروں کے نسب میں طعن وطنز کرنا وغیرہ وغیرہ ۔

یہ حدیث شیئر کریں