مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ امارت وقضا کا بیان ۔ حدیث 808

ملت کی اجتماعیت میں رخنہ ڈالنے والے کے بارے میں وعید

راوی:

وعن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من رأى أميره يكرهه فليصبر فإنه ليس أحد يفارق الجماعة شبرا فيموت إلا مات ميتة جاهلية "

اور حضرت ابن عباس راوی ہیں کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اگر کوئی شخص اپنے امیر وسردار کی طرف سے کوئی ایسی بات دیکھے جو اس کو (شرعًا یا طبعًا ) پسند نہ ہو تو اس کو اس پر صبر کرنا چاہئے اور اس کی وجہ سے امام کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند نہ کرنا چاہئے کیونکہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر (بھی ) جدا ہوا اور (توبہ کئے بغیر اسی حالت میں ) مر گیا تو اس کی موت اہل جاہلیت کی موت کی مانند ہوگی ۔" ( بخاری ومسلم )

تشریح :
مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے امام وامیر کی اطاعت و فرمانبرداری سے اپنے کو آزاد کر لیا اور مسلمانوں کی جماعت (تنظیم ) سے علیحدگی اختیار کر لی اور تمام مسلمانوں کے اجتماع واتحاد کی مخالفت پر کمر بستہ رہا اور پھر اسی حالت میں وہ مر گیا تو گویا زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی موت مرا اور اس مشابہت کی بنیاد ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ چونکہ دین سے بے بہرہ تھے اس لئے وہ اپنے امیر وسردار کی اطاعت کرتے تھے نہ اپنے امام (رہنما) کی ہدایت کو مانتے تھے بلکہ ان سے وہ علی الاعلان بیزاری کا اظہار کرتے تھے اسی طرح چونکہ ان کے یہاں ملی شیرازہ بندی اور اجتماعی تنظیم کا کوئی اہتمام نہیں تھا اس لئے وہ نہ کسی چیز پر اجتماع واتحاد کا مظاہرہ کرتے تھے اور نہ کسی رائے پر متفق ہوتے تھے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں ملت کی شیرازہ بندی ، مسلمانوں کی مضبوط اجتماعی تنظیم ، لیڈر شب پر مکمل اعتماد اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری اور ملی امور میں آپس میں اتفاق واتحاد کی بڑی اہمیت ہے بلکہ یہ چیزیں دین کا مطلوب ہیں اور دین کی سربلندی کا بنیادی عنصر ہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں