مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ امارت وقضا کا بیان ۔ حدیث 811

حاکم کی بے راہ روی پر اس کو ٹوکنا ہر مسلمان کی ایک ذمہ داری ہے ۔

راوی:

وعن أم سلمة قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يكون عليكم أمراء تعرفون وتنكرون فمن أنكر فقد برئ ومن كره فقد سلم ولكن من رضي وتابع " قالوا : أفلا نقاتلهم ؟ قال : " لا ما صلوا لا ما صلوا " أي : من كره بقلبه وأنكر بقلبه . رواه مسلم

اور حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ایسے لوگ بھی تم پر حاکم مقرر کئے جائیں گے جو اچھے برے دونوں قسم کے کام کریں گے لہٰذا جس شخص نے انکار کیا (یعنی جو شخص اپنے حاکم کے سامنے زبان سے یہ کہنے پر قادر ہو کہ تمہارا یہ فعل برا ہے اور اس نے اس طرح کہہ بھی دیا) تو وہ نفاق اور مداہنت سے پاک اور (اپنی ذمہ داری سے ) بری ہوگیا ، اور جس شخص نے مکروہ جانا (یعنی جو شخص حاکم کے منہ پر اس کے برے فعل کو بیان کر دینے پر قادر نہ ہو لیکن اپنے دل سے اس کے اس فعل کو برا سمجھے ) تو وہ سالم رہا ) یعنی اس فعل کی برائی و گناہ اور اس کے وبال میں شریک ہونے سے محفوظ رہا ) لیکن جو شخص (حاکم کے برے افعال پر دل سے ) خوش ہوا اور (خود بھی برے افعال میں مبتلا ہو کر گویا حاکم کی اتباع کی (تو وہ گناہ اور اس کے وبال میں شریک ہوا صحابہ نے عرض کیا کہ " (ایسی صورت میں جب کہ حکام برائیوں میں مبتلا ہو جائیں اور ان کی بے راہ روی کا اثر عوام پر بھی پر نے لگے تو ) کیا ہم ان کے خلاف جنگ نہ کریں ؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " نہیں " جب تک وہ نماز پڑھیں ، نہیں ! جب تک وہ نماز پڑھیں ۔" یعنی جس شخص نے اپنے دل سے برا سمجھا اور اپنے دل سے انکار کیا ۔ " (مسلم )

تشریح :
روایت کے آخری الفاظ" یعنی جس شخص نے اپنا دل سے برا سمجھا اور اپنے دل سے انکار کیا " کے بارے میں حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے تو یہ لکھا ہے کہ راوی کی عبارت ہے جس کے ذریعہ انہوں نے حدیث کے الفاظ ومن کرہ فقد سلم کی توضیح کی ہے ، جب کہ ملا علی قاری نے یہ لکھا ہے کہ راوی نے اس عبارت کے ذریعہ حدیث کے ان دونوں جملوں (فمن انکر) اور (ومن کرہ) الخ کی توضیح کی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں