مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ منصب قضا کی انجام دہی اور اس سے ڈرنے کا بیان ۔ حدیث 860

قاضی کو اجتہاد کا اختیار

راوی:

وعن عبد الله بن عمرو وأبي هريرة قالا : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا حكم الحاكم فاجتهد فأصاب فله أجران وإذا حكم فاجتهد فأخطأ فله أجر واحد "

اور حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت ابوہریرہ دونوں کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب کوئی حاکم فیصلہ دینے کا ارادہ کرے اور اجتہاد کرے یعنی غور وفکر کے ذریعہ حکم وفیصلہ دے ) اور پھر اس کا وہ حکم وفیصلہ صحیح یعنی کتاب وسنت کے موافق ہو تو اس کو دوہرا اجر ملے گا (ایک اجر تو اجتہاد کرنے کا اور دوسرا اجر صحیح فیصلہ پر پہنچنے کا ) اور اگر اس نے کوئی ایسا حکم وفیصلہ دیا جس میں اس نے اجتہاد کیا لیکن (نتیجہ اخذ کرنے میں ) چوک گیا (یعنی صحیح حکم تک پہنچنے میں خطا کر گیا ) تو اس کو ایک اجر ملے گا ۔" ( بخاری ومسلم )

تشریح :
مطلب یہ ہے کہ اگر حاکم وقاضی کسی سے قضیہ ومعاملہ کا حکم وفیصلہ دینا چاہے جس کے بارے میں کتاب وسنت اور اسلامی فقہ میں کوئی صریح اور واضح ہدایت نہیں ہے اور پھر وہ اجتہاد کرے یعنی کتاب وسنت کے احکام وتعلیمات وفقہ اسلامی کے مسائل اور اسلامی عدالتوں کے نظائر میں پوری طرح غور وفکر کرنے کے بعد وہ کسی ایسے نتیجہ پر پہنچ جائے جس کے بارے میں اس کے ضمیر کی رہنمائی نہ ہو کہ یہ مبنی برحق ہے اور پھر وہی نتیجہ اس کا حکم وفیصلہ بن جائے تو وہ حکم وفیصلہ ظاہری قانون کے اعتبار سے تو بالکل صحیح تسلیم کیا جائے گا البتہ عقبیٰ کے لحاظ سے اس کی دو صورتیں ہوں گی ایک تو یہ کہ اگر حقیقت میں بھی وہ فیصلہ کتاب وسنت کی منشاء کے موافق رہا تو اس کو دو اجر ملیں گے ، اور اگر اس کا فیصلہ کتاب وسنت کے موافق نہیں ہوا ہے تو اس کو ایک ہی اجر ملے گا ۔ بالکل یہی حکم مجتہد کا ہے کہ اگر وہ استنباط مسائل کے وقت اپنے اجتہاد کے نتیجے میں کتاب وسنت کی منشاء تک پہنچ گیا تو اس کو دو اجر ملیں گے اور اگر کتاب وسنت کی منشاء تک پہنچنے میں خطا کر گیا تو اس کو ایک ثواب ملے گا ۔ لہٰذا یہ حدیث جہاں اس بات کی دلیل ہے کہ قاضی اسلام کو ایسی جزئیات میں اجتہاد کا اختیار حاصل ہے جو اسلامی قانون کے ماخذ میں صراحت کے ساتھ مذکور نہیں ہیں اور جن کا کوئی حکم واضح نہیں وہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مجتہد اپنے اجتہاد میں کبھی تو صحیح حکم تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی خطا کر جاتا ہے یعنی صحیح حکم تک نہیں پہنچ پاتا لیکن اجر وثواب اس کو بہرصورت ملتا ہے ۔
ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی چیز کا حکم ومسئلہ ، نصوص یعنی کتاب اللہ ، احادیث رسول اللہ اور اجماع امت میں مذکور نہ ہونے کی وجہ سے قیاس پر عمل کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہو تو اس صورت میں قیاس پر عمل کرنا تحری قبلہ کی مانند ہوگا (جس طرح اگر کسی شخص کو کسی وجہ سے قبلہ کی سمت کا پتہ نہ چلے اور وہ نماز کے وقت غور وفکر اور تحری کر کے اپنے گمان غالب کے مطابق قبلہ کی کوئی سمت مقرر کر لے اور اس طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے تو اس کی نماز صحیح ہوگی اگرچہ حقیقت میں قبلہ اس سمت نہ ہو اسی طرح قیاس پر عمل کرنے والا، مصیبت یعنی درست عمل کرنے والا ہوگا اگرچہ اس قیاس میں اس سے خطا (غلطی ) ہوگئی ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں