مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ منصب قضا کی انجام دہی اور اس سے ڈرنے کا بیان ۔ حدیث 863

جنتی اور دوزخی قاضی!

راوی:

وعن بريدة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " القضاة ثلاثة : واحد في الجنة واثنان في النار فأما الذي في الجنة فرجل عرف الحق فقضى به ورجل عرف الحق فجار في الحكم فهو في النار ورجل قضى للناس على جهل فهو في النار " . رواه أبو داود وابن ماجه
(2/350)

3736 – [ 6 ] ( ضعيف )
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من طلب قضاء المسلمين حتى يناله ثم غلب عدله جوره فله الجنة ومن غلب جوره عدله فله النار " . رواه أبو داود

اور حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں ایک طرح کے تو جنت میں جانے والے اور دو طرح کے دوزخ میں جانے والے !لہٰذا جنت میں جانے والا قاضی تو وہ شخص ہے جس نے حق کو جانا (یعنی یہ جانا کہ حق اس بات میں ہے ) اور پھر حق ہی کے مطابق فیصلہ کیا اور جس نے حق کو جانا مگر (اس کے باوجود ) اپنے حکم وفیصلہ میں ظلم کیا (یعنی اس نے دیدہ دانسۃحق کو پامال کیا تو وہ دوزخی ہے ، اسی طرح جو اپنی جہالت کی وجہ سے حق کو نہیں پہنچانا اور اسی حالت میں لوگوں کے تنازعات کا فیصلہ کیا تو وہ بھی دوزخی ہے (کیونکہ اس نے حق رسی میں کوتاہی اور تقصر کی ۔" (ابو داؤد ، ابن ماجہ )

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جو شخص مسلمانوں کے منصب قضاء کا طالب اور خواستگار ہوا یہاں تک کہ اس نے اس کو حاصل بھی کر لیا اور پھر اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں ) اس کا عدل وانصاف ظلم پر غالب ہوگا تو جنت ملے گی اور اگر ظلم غالب ہوگا تو دوزخ ملے گی ۔ لیکن علماء نے لکھا ہے کہ دونوں ہی صورتوں میں " غالب " کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس درجہ کا ہو کہ دوسرے کے لئے رکاوٹ بن جائے ۔ مثلًا اس کے عدل وانصاف کا وصف اس طرح حاوی ہو کہ اس کا ظلم سر نہ اٹھا سکے ۔ یا اس کے ظلم کی خصلت اتنی حاوی ہو کہ اس کے مقابلہ پر اس کا عدل ظاہر نہ ہو سکے ۔

یہ حدیث شیئر کریں