مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ منصب قضا کی انجام دہی اور اس سے ڈرنے کا بیان ۔ حدیث 866

قیامت کے دن ظالم حاکم کا انجام

راوی:

عن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما من حاكم يحكم بين الناس إلا جاء يوم القيامة وملك آخذ بقفاه ثم يرفع رأسه إلى السماء فإن قال : ألقه ألقاه في مهواة أربعين خريفا " . رواه أحمد وابن ماجه والبيهقي في شعب الإيمان

حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہر وہ حاکم جو لوگوں پر اپنا حکم وفیصلہ جاری ونافذ کرتا ہے قیامت کے دن (ا حکم الحاکمین کی بارگاہ میں) اس طرح پیش کیا جائے گا کہ ایک فرشتہ اس کی گدی پکڑے ہوگا ، پھر وہ فرشتہ اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائے (کھڑا رہے گا ) یہاں تک کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ حکم دے گا کہ اس کو (دوزخ میں) ڈال دو تو وہ اس کو دوزخ کے ) گڑھے میں ڈال دے گا جو چالیس برس کی مسافت ) کے بقدر (گہرا ) ہوگا ۔" (احمد، ابن ماجہ ، بیہقی ، اور شعب الایمان )

تشریح :
پھر وہ فرشتہ اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائے گا " سے مراد فرشتہ کی اس حالت کو بیان کرنا ہے جس میں وہ حکم الٰہی کا منتظر ہوگا ، یعنی جس طرح بادشاہ کے ہاں یہ درباری آداب میں سے ہے کہ جب وہاں کوئی ملزم پیش کیا جاتا ہے کھڑا ہو جاتا ہے اور یہ انتظار کرتا ہے کہ بادشاہ حاکم کی طرف سے کیا حکم وفیصلہ صادر ہوتا ہے ، اسی طرح وہ فرشتہ بھی اس حاکم کو بارگاہ رب العزت میں پیش کر کے اس انتظار میں کھڑا رہے گا کہ اس کے بارے میں کیا حکم ہوتا ہے ۔
" چالیس برس کے بقدر سے مراد اس گڑھے کی گہرائی کو زیادہ سے زیادہ کر کے بیان کرنا ہے نہ کہ اس سے اس کی مدت کی تعین وتحدید مراد ہے اس حدیث میں جس حاکم کا انجام بیان کیا گیا ظالم حاکم ہے ، عدل وانصاف پرور کے بارے میں یہ حکم دیا گیا جائے گا کہ اس کو بہشت میں پہنچایا جائے گا ۔ جیسا کہ کتاب الامارۃوالقضاء میں حضرت ابوامامہ کی روایت سے واضح ہو چکا ہے"

یہ حدیث شیئر کریں