مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قضیوں اور شہادتوں کا بیان ۔ حدیث 889

مدعاعلیہ کی قسم کا اعتبار کیا جائے خواہ وہ حقیقت میں جھوٹی قسم کیوں نہ ہو

راوی:

وعن علقمة بن وائل عن أبيه قال : جاء رجل من حضرموت ورجل من كندة إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال الحضرمي : يا رسول الله إن هذا غلبني على أرض لي فقال الكندي : هي أرضي وفي يدي ليس له فيها حق فقال النبي صلى الله عليه و سلم للحضرمي : " ألك بينة ؟ " قال : لا قال : " فلك يمينه " قال : يا رسول الله إن الرجل فاجر لا يبالي على ما حلف عليه وليس يتورع من شيء قال : " ليس لك منه إلا ذلك " . فانطلق ليحلف فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم لما أدبر : " لئن حلف على ماله ليأكله ظلما ليلقين الله وهو عنه معرض " . رواه مسلم

اور حضرت علقمہ ابن وائل اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا (ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حضرموت کا رہنے والا اور ایک شخص کندہ کا ۔ دونوں حاضر ہوئے حضرمی (یعنی حضر موت کے رہنے والے ) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس شخص نے میری زمین (کو غصب کر کے اس ) پر قضبہ کر لیا ہے " کندی نے کہا کہ " وہ میری زمین ہے اور ہاتھ (یعنی میرے قبضے ) میں ہے ، اس شخص کا اس زمین پر کوئی حق نہیں ہے ۔" رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " دونوں فریق کا بیان سن کر حضرمی سے فرمایا کہ " کیا تمہارے پاس گواہ ہیں ؟ " اس نے کہا کہ " نہیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تو اب تمہارے دعوی کا دارومدار اس (مدعا علیہ کی قسم پر ہے (کہ اگر یہ قسم کھانے کا انکار کر دے گا تو تمہارا دعوی تسلیم کر لیا جائے گا اور اس نے قسم کھالی تو تمہارا دعوی باطل کر دیا گا ) " اس (حضرمی ) نے کہا کہ " یا رسول اللہ ! یہ شخص تو فاجر (جھوٹا ہے ) اس کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس نے جس چیز کی قسم کھائی ہے وہ سچ ہے یا جھوٹ اور اس کو کسی چیز سے پرہیز نہیں ۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" (بہرحال ) تمہارے لئے اس شخص کی طرف سے سوائے اس (قسم ) کے اور کچھ نہیں ہے ۔" (یہ سن کر ) وہ (کندی ) شخص قسم کھانے کے لئے چلا اور جب اس نے پیٹھ پھیری تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اگر یہ شخص اس حضرمی ) کے مال قسم کھائے گا تاکہ اس کا مال زبردستی ہضم کر جائے تو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کر یں گے کہ وہ (اللہ ) اس سے بیزار ہوگا ۔" (مسلم )

تشریح :
وہ شخص قسم کھانے کے لئے چلا " ممکن ہے کہ اس کا چلنا اس اعتبار سے ہے کہ جیسے شافعیہ کے یہاں یہ مسئلہ ہے کہ یہ قسم کھانے والا پہلے وضو کرتا ہے اور پھر ایک خاص وقت میں یعنی جمعہ کے روز عصر کے بعد قسم کھاتا ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ وہ مدعی کی طرف سے پیٹھ پھیر کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر قسم کھائے ۔ "
نووی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے کئی مسئلے نکلتے ہیں کہ ایک تو یہ کہ اس طرح کے قضیے میں اس (اجنبی سے قبضے والا اولی ہے ۔ جو اس کے زیر چیز پر دعوی کرے ۔
دوسرا یہ کہ مدعا علیہ پر قسم کھانا لازم ہے جب کہ وہ مدعی کے دعوی کو تسلیم نہ کرے ۔
اور تیسرا یہ کہ فاجر مدعا علیہ کی قسم کو بھی اس طرح تسلیم وقبول کیا جائے جس طرح عادل مدعا علیہ کی قسم تسلیم وقبول کی جاتی ہے نیز اس قسم کھا لینے کی وجہ سے اس پر سے مدعی کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے (لیکن یہ واضح رہے کہ اگر عدالت میں سچی گواہی سے مدعا علیہ کی قسم کا جھوٹ معلوم ہو جائے تو پھر اس کی قسم کالعدم قرار پائے گی ۔)

یہ حدیث شیئر کریں