مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قضیوں اور شہادتوں کا بیان ۔ حدیث 892

بغیر طلب کے گواہی دینی چاہئے یا نہیں ؟

راوی:

لیکن اس کے برعکس ایک دوسری حدیث میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو بغیر طلب کے گواہی دیں ۔ چنانچہ حنفی مسلک کی ہدایت یہی ہے کہ جب تک گواہی طلب نہ کی جائے اس وقت تک گواہی نہ دی جائے ، گواہی طلب کئے جانے کے بعد گواہی دینا واجب ہے اور حدود میں گواہی کا چھپانا افضل ہے ۔
جہاں تک مذکورہ بالا روایت کا تعلق ہے کہ جس سے بغیر طلب کے گواہی دینے والے کا بہترین گواہ ہونا ثابت ہوتا ہے تو اس کے بارے میں حنیفہ کی طرف سے دو تاویلیں کی جاتی ہیں ایک تو یہ کہ یہ ارشاد گرامی دراصل اس شخص پر محمول ہے جو کسی کے حق کا گواہ ہے لیکن مدعی کو اس کے گواہ ہونے کا علم نہیں ہے ۔ لہٰذا اس کو چاہئے کہ وہ مدعی کو بتا دے کہ میں اس قضیہ میں تمہارا گواہ ہوں ۔
دوسری تاویل یہ ہے کہ اس حدیث کا تعلق حق تعالیٰ کے حقوق میں گواہی دینے سے ہے ۔ جیسے زکوۃ کفارہ رویت ہلال اور وصیت اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ، لہٰذا جو شخص ان میں سے کسی چیز کا شاہد ہو ۔ مثلاً اس نے چاند دیکھا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ حاکم وقاضی کے ہاں حاضر ہو اور گواہی دے ۔
ان دونوں تاویلوں کے علاوہ ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ ارشاد گرامی اس حکم کو بطور مبالغہ بیان کرنے پر محمول ہے کہ جو شخص کسی قضیہ میں گواہ کی حیثیت رکھتا ہو اور اس سے گواہی طلب کی گئی ہو تو اس طلب کے بعد اس کو چاہئے کہ وہ گواہی دینے کی اپنی ذمہ داری کو جلد سے جلد پورا کرے اور بغیر طلب کے گواہی دینے کی جو مذمت منقول ہے وہ اس کے عکس پر محمول ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں