مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قضیوں اور شہادتوں کا بیان ۔ حدیث 901

جھوٹی قسم کے ذریعہ دوسرے کا مال ہڑپ کرنے والے کے بارے میں وعید

راوی:

وعنه أن رجلا من كندة ورجلا من حضرموت اختصما إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم في أرض من اليمن فقال الحضرمي : يا رسول الله إن أرضي اغتصبنيها أبو هذا وهي في يده قال : " هل لك بينة ؟ " قال : لا ولكن أحلفه والله ما يعلم أنها أرضي اغتصبنيها أبوه ؟ فتهيأ الكندي لليمين فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا يقطع أحد مالا بيمين إلا لقي الله وهو أجذم " فقال الكندي : هي أرضه . رواه أبو داود

اور حضرت اشعث ابن قیس سے روایت ہے کہ قبیلہ کندہ کا ایک شخص اور حضرموت کا ایک شخص دونوں یمن کی ایک زمین کے بارے میں اپنا قضیہ لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حضرمی نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! اس شخص کے باپ نے میری زمین مجھ سے چھین لی تھی اور اب وہ اس کے قضیہ میں ہے " (میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ میری وہ زمین مجھ کو واپس دلوائی جائے ) " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرمی سے فرمایا کہ " کیا تمہارے پاس گواہ ہیں (جو گواہی دے سکیں کہ وہ زمین واقعۃً تمہاری تھی؟ ) اس نے عرض کیا کہ " نہیں ! لیکن میں اس سے اللہ کی قسم کھلوا کر یہ اقرار کراؤں گا کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ زمین میری (حضرمی کی ) ہے جس کو اس کے باپ نے مجھ سے چھین لیا ہے ۔" چنانچہ وہ (کندی) قسم کھانے کے لئے تیار ہو گیا (اور جب قسم کھانے چلا ) تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (یاد رکھو) جو بھی شخص (جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ہڑپ کرے گا وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا ہاتھ کٹا ہوگا ۔ " کندی نے یہ (سن کر ) کہا کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ ) وہ زمین اسی شخص کی ہے ۔" (ابو داؤد)

تشریح :
( الالقی اللہ وہو اجذم)، جذام ایک مشہور بیماری کا نام ہے جس میں اعضائے جسمانی سڑ گل جاتے ہیں ویسے لغت میں " جذام " کی اصل " جذم" ہے جس کے معنی ہیں " کاٹنا " جلدی سے کانٹا ۔" نیز یہ لفظ قطع ید یعنی ہاتھ کاٹنے یا کٹے ہوئے ہاتھ " کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔چنانچہ یہاں حدیث میں یہ لفظ " قطع ید" ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے جس سے مراد ہے " برکت ہونا اور بھلائی سے خالی ہونا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا :
(من تعلم القرآن ثم نسیہ لقی اللہ وہو اجذم )
یعنی جس شخص نے قرآن سیکھا (یاد کیا ) پھر اس کو بھول گیا تو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا ہاتھ کٹا ہوا ہوگا ۔ یعنی بے برکت ۔"
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ کہتے ہیں کہ یہاں اجذم سے مراد " مقطوع الحجۃ " (بے دلیل ) ہے یعنی وہ شخص اس حال میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوگا کہ اس کے پاس نہ تو اپنے دین و دیانت کی اور اللہ ترسی وحقوق شناسی کی بظاہر کوئی دلیل ہوگی جس سے وہ اپنی نجات کا راستہ تلاش کر سکے اور نہ اس کے پاس ایسی زبان ہوگی جس کے ذریعہ وہ عرض معروض کی جرأت کر سکے ۔

یہ حدیث شیئر کریں