مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قضیوں اور شہادتوں کا بیان ۔ حدیث 906

اپنے معاملے مقدمے میں دانائی وہوشیاری کو ملحوظ رکھو

راوی:

وعن عوف بن مالك : أن النبي صلى الله عليه و سلم قضى بين رجلين فقال المقضي عليه لما أدبر : حسبي الله ونعم الوكيل فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " إن الله تعالى يلوم على العجز ولكن عليك بالكيس فإذا غلبك أمر فقل : حسبي الله ونعم الوكيل " . رواه أبو داود

اور حضرت عوف ابن مالک کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شخصوں کے درمیان ایک مقدمہ کا فیصلہ دیا (جو ایک شخص کے خلاف اور دوسرے شخص کے حق میں تھا ۔ چنانچہ مقدمہ کا فیصلہ جس شخص کے خلاف ہوا تھا اس نے مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اٹھ کر ) واپس جاتے ہوئے کہا کہ (حسبی اللہ ونعم الوکیل) یعنی مجھ کو میرا للہ کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ (سن کر ) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نادانی و لاپرواہی پر ملامت کرتا ہے ، تم کو چالاکی اور ہوشیاری ضروری ہے اگر تم پر کوئی مصیبت آپڑے تو (حسبی اللہ ونعم الوکیل ) کہو ۔" (ابو داؤد )

تشریح :
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص نے کسی دوسرے شخص سے کچھ قرض لیا ہوگا اور وہ قرض اس نے ادا بھی کر دیا ہوگا لیکن اس سے یہ نادانی اور حماقت ہوئی کہ اس نے قرض واپس کرتے وقت قرض خواہ سے کوئی رسید نہ لی اور نہ کسی کو گواہ کیا ، آخر مدعی (قرض خواہ ) نے بارگاہ رسالت میں اس شخص پر دعوی کر دیا چونکہ اس( مدعی ) نے قرض دینے کا ثبوت پیش کر دیا ہوگا لیکن یہ شخص (مدعا علیہ ) واپسی قرض کا کوئی ثبوت پیش نہ کر سکا ہوگا اس لئے مقدمہ فیصلہ اس کے خلاف ہوا اور مدعی نے ڈگری حاصل کر لی ۔ جب وہ مقدمہ ہار کر دربار رسالت سے نکلا تو اس نے ازراہ غم وحسرت " (حسبی اللہ ونعم الوکیل) " کہا اور اس طرح اس نے یہ اشارہ کیا کہ مدعی نے مجھ سے ناحق مال لے لیا اور میں خواہ مخواہ نقصان اٹھا بیٹھا ۔
اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے کاروبار زندگی اور اپنے معاملات میں لاپرواہی نادانی اور غفلت و کوتاہی کوئی اچھی چیز نہیں ہے بلکہ ایسا کرنے والے پر اللہ تعالیٰ ملامت کرتا ہے ، پھر آپ نے تنبیہ فرمائی کہ تم کو لازم ہے کہ اپنے کاروبار اور اپنے معاملات میں ہوشیار وچوکس رہو اور احتیاط ودانائی اختیار کرو۔
حاصل یہ کہ غفلت و کوتاہی سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا کیونکہ حق تعالیٰ نے انسان کو عقل سلیم کی جس دولت سے نوازا ہے اس کا صحیح مقتضٰی یہی ہے کہ بندہ اپنے تمام دینی ودنیاوی معاملات میں دانائی و ہوشیاری کو ملحوظ رکھے لہٰذا اس معاملہ میں تم سے جو کوتاہی وغفلت سرزد ہوئی ہے اس کو اپنے عجز پر محمول کر کے (حسبی اللہ ونعم الوکیل) نہ کہو بلکہ آئندہ کے لئے اس بات کا عہد کر لو کہ پھر کبھی اس طرح کی غلفت و کوتاہی نہیں کرو گے اور احتیاط وہوشیاری کو بہر صورت ملحوظ رکھو گے ۔
طیبی یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد کے ذریعہ گویا اس شخص پر یہ واضح کیا کہ لازم تو یہ تھا کہ تم اپنے معاملے میں ہوشیار رہتے اور کسی کو گواہ بنا کر یا اس کے مانند کوئی ثبوت رکھ کر کوتاہی وغفلت میں مبتلا نہ ہوتے تا کہ جب تمہارا مقدمہ پیش ہوتا اور تم فیصلے کے لئے یہاں حاضر ہوتے تو گواہوں اور ثبوت کے ذریعہ مدعی کو ناحق ثابت کرنے پر قادر ہوتے مگر اب جب کہ تم اپنی غفلت و کوتاہی کی وجہ سے مدعی کے دعوی کو ناحق ثابت کرنے سے عاجز ہو تو (حسبی اللہ ونعم الوکیل) کہتے ہو حالانکہ (حسبی اللہ ونعم الوکیل) اس وقت کہا جاتا ہے جب کہ حصول مقصد کی تمام راہیں مسدود ہوجاتی ہیں اور اپنی تمام تدابیر واحتیاط کے باوجود کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا ، لہٰذا یہ ذہن نشین رہے کہ جب کوئی معاملہ کیا جائے اس میں پوری پوری احتیاط اور ہوشیاری کو ملحوظ رکھا جائے اور جب تمام تر امکانی احتیاط وہوشیاری کے باوجود حصول مقصد کا کوئی راستہ ہاتھ نہ آئے اور اس طرح عجز ومعذوری کے درجہ پر پہنچ جائے تو اس وقت (حسبی اللہ ونعم الوکیل) کہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں