مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ فقراء کی فضیلت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشی زندگی ۔ حدیث 1033

وہ تین لوگ جو قیامت کے دن اللہ کی توجہ سے محروم رہیں گے

راوی:

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم . وفي رواية ولا ينظر إليهم ولهم عذاب أليم شيخ زان وملك كذاب وعائل مستكبر . رواه مسلم

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا تین شخص ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا یعنی یا تو رضا و خوشنودی کا کلام نہیں کرے گا یا مطلق کوئی کام نہیں کرے گا اور نہ ان کی تعریف و ستائش کرے گا اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور ان کے دردناک عذاب ہوگا ایک تو زنا کار بڈھا، دوسرا جھوٹا بادشاہ اور تیسرا تکبر کرنے والا مفلس۔ (مسلم)

تشریح
قیامت کے دن سے میدان حشر کا وقت مراد ہے جب اللہ کے فضل و عدل، غضب و ناراضگی اور رضا کا ظہور ہوگا اور جنتیوں و دوزخیوں کے بارے میں فیصلہ صادر کئے جائیں گے۔
" ولا یزکیھم " کے ایک معنی تو وہی ہیں جو ترجمہ میں بیان کئے گئے ہیں جب کہ اللہ میدان حشر میں اپنی تمام مخلوق کے سامنے اپنے مومن اور نیکوکار بندوں کی تعریف و ستائش کرے گا تو اس وقت ان تین طرح کے آدمیوں کو اس تعریف و ستائش سے خارج کر دیا جائے گا اور ایک معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان تینوں طرح کے آدمیوں کو اپنے عفو و درگزر کے ذریعہ اپنے گناہوں کی نجاست سے پاک و صاف نہیں کرے گا۔ لھم عذاب الیم۔ کے بارے میں دو احتمال ہیں یا تو یہ جملہ دوسری روایت کا تتمہ ہے یا اس کا تعلق اصل حدیث سے ہے اور یہ دوسرا احتمال زیادہ قوی اور قابل اعتماد ہے حاصل یہ ہے کہ مذکورہ باتیں دراصل اللہ کے غضب و کبر اور اس کی ناراضگی سے کنایہ ہیں، چنانچہ جو کوئی کسی شخص سے ناراض و خفا ہوتا ہے تو وہ نہ صرف نظر اٹھا کر دیکھتا ہے نہ اس سے کلام کرتا ہے اور نہ اس کی تعریف کرتا ہے بلکہ اس کو سزا و تنگی میں مبتلا کر دیتا ہے۔
حدیث میں جن تین برائیوں کے مرتکبین کے بارے میں وعید بیان فرمائی گئی ہے وہ ہر حال میں مذموم اور مستوجب عذاب ہیں خواہ ان برائیوں کا مرتکب کسی درجہ کا کسی حثییت کا اور کسی عمر کا آدمی ہو لیکن یہاں ان برائیوں کے تعلق سے جن تین لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے اعتبار سے ان برائیوں کی سنگینی کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے، مثلا زنا ایک بہت برا فعل ہے اور جب یہ فعل جو ان کے حق میں بھی بہت بڑا گناہ ہے جو طبعی طور پر معذور بھی ہوتا ہے تو ایک بڈھے کے حق میں یہ فعل کہیں زیادہ برا ہوگا کہ کیونکہ نہ تو وہ طبعی طور پر اس کی احتیاج رکھتا ہے کہ اور نہ اس کی طبیعت پر جنسی خواہش اور قوت مروی کا وہ غلبہ ہوتا ہے جو بسا اوقات عقل و شعور سے بیگانہ اور خوف الٰہی سے غافل کر دیتا ہے لہذا جو بڈھا زنا کا مرتکب ہوتا ہے وہ گویا اپنی نہایت بے حیائی اور خبث طبیعیت پر دلالت کرتا ہے اسی طرح جھوٹ بولنا ہر شخص کے حق میں برا ہے لیکن بادشادہ کے حق میں بہت ہی برا ہے کیونکہ اس پر ملک کے انتظام رعایا کے مصالح و مفاد کی رعایت اور مخلوق اللہ کے معاملات کی نگہداشت کی ذمہ داری ہوتی ہے اس کا ایک ادنی سا حکم پورے ملک کے نظم و نسق پر اثر انداز ہوتا ہے اگر وہ جھوٹ بولے تو اس کی اس برائی کی وجہ سے پورا ملک اور ملک کے تمام لوگ مختلف قسم کی برائیوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں ، علاوہ ازیں جو لوگ جھوٹ بولتے ہیں وہ عام طور پر اس برائی کا ارتکاب اپنے کسی فائدہ کے حصول یا کسی نقصان کے دفعیہ کے لئے کرتے ہیں جب کہ ایک بادشاہ حاکم یہ مقصد بغیر جھوٹ بولے بھی حاصل کرنے پر قادر ہوتا ہے، لہذا اس کا جھوٹ بولنا نہ صرف بالکل بے فائدہ بلکہ نہایت مذموم ہوگا اسی پر تکبر کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے جو چیزیں عام طور پر انسان کو غرور و تکبر میں مبتلا کرتی ہیں جیسے مال و دولت اور جاہ اقتدار وغیرہ اور اگر کسی شخص میں پائی جائیں اور وہ ان چیزوں کی وجہ سے تکبر کرے تو اگرچہ اس شخص کو بھی برا کہیں گے مگر اس کا تکبر کرنا ایک طرح سے سمجھ میں آنے والی بات ہوگی اس کے برخلاف اگر کوئی فقیر و مفلس تکبر کرے کہ جو نہ تو مال و دولت رکھتا ہے اور نہ جاہ و اقتدار وغیرہ کا مالک ہے تو اس کا یہ فعل نہایت ہی برا ہوگا اور اس کے بارے میں اس کے علاوہ کیا کہا جائے گا کہ وہ خبث باطن اور طبیعت کی کمینگی میں مبتلا ہے۔
بعض حضرات نے عائل مستکبر میں لفظ عائل سے مفلس کے بجائے عیال دار مراد لیا ہے کہ یعنی جو لوگ بال بچے دار ہوں اور اپنی خستہ حالت کی وجہ سے اپنے متعلقین کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے پر قادر ہوں لیکن اس کے باوجود از راہ تکبر صدقہ و زکوۃ مال قبول کرنے پر تیار نہ ہوتے ہوں لوگوں کی تواضع و امداد کو ٹھکراتے ہوں اور اسی طرح وہ اپنے اہل و عیال کی ضرورت کو پورا کرنے سے بے پرواہ ہو کر گویا ان کو تکلیف و ہلاکت میں مبتلا کرتے ہوں تو ایسے لوگ حدیث میں مذکورہ وعید کا مورد ہیں واضح رہے کہ اللہ کی ذات پر توکل و اعتماد اور غیرت و خود داری کے تحت اپنی حالت کو چھپانا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے شرم و حیاء کرنا تو ایک الگ چیز ہے لیکن سخت احتیاج و اضطرار کے باجود کبر و نخوت اختیار کرنا اور از راہ تکبر لوگوں کا احسان قبول نہ کرنا ایک ایسا فعل ہے جس کو نہایت مذموم قرار دیا گیا ہے۔
شیخ زان " کے بارے میں بھی بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یہاں شیخ سے مراد محصن شادی شدہ شخص بھی ہو سکتا ہے خواہ وہ بوڑھا یا جوان جیسا کہ اس منسوخ التلاوت" الشیخ والشیخۃ اذا زنیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں شیخ سے مراد شادی شدہ مرد ہے چنانچہ ایسے شخص کے حق میں زنا کا زیادہ ہونا شرعا بھی اور عرفا بھی بالکل ظاہر بات ہے اسی لئے ایسے شخص کو سنگسار کرنا واجب ہے اسی طرح ملک کذاب کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں ملک سے مراد غنی و مالدار شخص بھی ہو سکتا ہے چنانچہ کسی مفلس یا قلاش شخص کا جھوٹ بولنا تو ایک درجہ میں سمجھ آنے والی بات ہے کیونکہ وہ اپنی تنگ دستی و خستہ حالی کی وجہ سے بسا اوقات اپنی کسی سخت غرض اور شدید دنیاوی ضرورت کی وجہ سے جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جاتا ہے جب کہ غنی و مالدار شخص اپنے مال و زر کی وجہ سے ایسی کوئی احتیاج نہیں رکھتا، اور وہ جھوٹ بولے بغیر بھی اپنی غرض پوری کر سکتا ہے لہذا جھوٹ بولنا اس کے حق میں زیادہ برا ہے ۔عائل مستکبر کے بارے میں بھی ایک قول یہ ہے کہ یہاں عائل یعنی مفلس سے مراد وہ شخص ہے جو فقراء و مساکین کے ساتھ تکبر کرے فقراء و مسکین کے ساتھ تکبر کرنا سخت برا ہے جب کہ مغرور کے ساتھ تکبر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ اس جملہ کے بارے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہاں مفلس سے مراد وہ شخص ہے جو کسب و کمائی اور محنت و مشقت کر کے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے پر قادر ہو مگر اس کے باوجود از راہ رعونت کوئی کسب و کمائی محنت مزروری کرنے کو کسر شان سمجھتا ہو جیسا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اچھے خاصے اور ہٹے کٹے لوگ کام کاج کرنے اور محنت و مزدوری کرنے میں اپنی ذلت سمجھتے ہیں خواہ ان کو اور ان کے متعلقین کو فاقوں کی اذیت ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑتی ہو یا ناروا طور پر دوسرے لوگوں کے کاندھوں کا بار ہی کیوں نہ ہوں اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگوں کا یہ طریقہ یقینا تکبر کے ہم معنی ہیں اور یہ تکبر مالداروں کے تکبر سے زیادہ کہیں برا ہے کیونکہ اس کی بنیاد رعونت و نخوت بیجا شان دکھانے خواہ مخواہ کے لئے اپنے اور اپنے متعلقین کو تکلیف و ہلاکت میں مبتلا کرنے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور ناجائز طور پر مال حاصل کرنے پر ہے خصوصا ایسی صورت میں اس کی تکبر کی برائی اور کہیں بڑھ جاتی ہیں ، جبکہ ایسا کوئی شخص اپنے دست و بازو کے ذریعہ اپنا اور اپنے متعلقین کا رزق حاصل کرنے کے بجائے دین کا لبادہ اوڑھ لے اور اپنی وضع قطع دین داروں اور بزرگوں کی سی بنا کر اپاہج کی طرح بیٹھ جائے اور سادہ لوح مسلمانوں پر اپنی مصنوعی بزرگی کا سکہ جما کر ان کے کاندھوں کا بار رہنا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں