مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ امر بالمعروف کا بیان ۔ حدیث 1049

قوم ثمود کے علاقہ سے گزرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابہ کو تلقین

راوی:

وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم لما مر بالحجر قال لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا أنفسهم إلا أن تكونوا باكين أن يصيبكم ما أصابهم ثم قنع رأسه وأسرع السير حتى اجتاز الوادي . متفق عليه

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مقام حجر سے گزرے تو (صحابہ رضی اللہ عنہم سے) فرمایا کہ " تم ان لوگوں کے مکانات (کے کھنڈرات) میں نہ گھسنا جنہوں نے (کفر اختیار کر کے اور اپنی طرف بھیجے گئے اللہ کے پیغمبر علیہم السلام کو جھٹلا کر) خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے الاّ یہ کہ تم رونے والے ہو (یعنی اگر تم ان کھنڈرات کی صورت میں اس بد نصیب قوم کا المناک انجام دیکھ کر اور ان لوگوں کے سیاہ کارناموں کو یاد کر کے عبرت حاصل کرنا چاہو تو اس جگہ کو دیکھ سکتے ہو نیز تم اس جگہ سے غفلت و لاپرواہی کے ساتھ نہ گزرو) کہ مبادا تم پر بھی وہی مصیبت نازل ہو جائے جو ان پر نازل ہوئی تھی (کیونکہ ایسی جگہوں سے غفلت و بے پروائی کے ساتھ گزرنا اور عبرت نہ پکڑنا قساوت قلبی اور خوف اللہ کے فقدان کی علامت ہے اور یہ چیز عذاب الٰہی کے نازل ہونے کا باعث بن سکتی ہے ، یا یہ مراد ہے کہ تم یہاں اللہ کا خوف کھاؤ اور اور عبرت پکڑو کہ مبادا تم سے بھی وہی اعمال صادر ہونے لگیں جو اس قوم کے لوگوں کا شیوہ تھے اور پھر تمہیں بھی سزا بھگتنی پڑے) اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چادر سے اپنا سر ڈھانک لیا اور تیز تیز چل کر اس علاقہ سے گزر گئے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حجر اس جگہ کا نام ہے جو مشہور پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کا مسکن تھی! حجاز کے شمالی علاقہ میں، جس کا نام مدین ہے، ایک تاریخی وادی ہے جس کا نام وادی قری ہے اسی وادی میں تبوک سے تقریبا چار میل کے فاصلہ پر یہ جگہ واقع ہے یہاں قوم ثمود کی بستیاں تھیں، اس قوم نے جب طغیانی و سرکشی میں حد سے تجاوز کیا اور اپنے پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کے بنائے ہوئے راستہ پر چلنے کے بجائے ان کو جھٹلایا، ان کو سخت تکلیفیں پہنچائیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تو اس قوم پر عذاب الٰہی نازل ہوا، اور ان کی ساری بستیاں تباہ کر دی گئیں، ان بستیوں کے آثار و کھنڈرات اب بھی موجود ہیں اور زبان حال سے عبرت پذیر لوگوں کو قوموں کے عروج و زوال کی داستان سناتے ہیں ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ کے لئے تبوک جا رہے تھے یا غزوہ سے فارغ ہو کر وہاں سے واپس تشریف لا رہے تھے تو راستہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر اسی علاقہ سے ہوا ، چنانچہ اس حدیث کا تعلق اسی وقت سے ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے سر پر چادر ڈال کر اس جگہ سے جلدی گزرنا جیسا کہ کسی جگہ سے کوئی خوفزدہ شخص جلد سے جلد گزر جاتا ہے، اس وجہ سے تھا تاکہ آپ کی نظر مبارک اس تباہ شدہ قوم کے مکانات کھنڈرات پر نہ پڑے۔ اور حقیقت میں آپ کا یہ عمل مسلمانوں کی تعلیم کے واسطے تھا تاکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کریں ، چنانچہ آپ نے پہلے تو قول کے ذریعہ لوگوں کو اس امر کی طرف متوجہ کیا اور پھر از راہ تاکید اپنے فعل کے ذریعہ بھی توجہ دلائی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہاں سے اس طرح گزرنا اس بناء پر تھا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوف اللہ کا نہایت غلبہ رہتا تھا اور عذاب الٰہی کے آثار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ لرزاں کر دیا کرتے تھے جیسا کہ ایک ارشاد میں فرمایا ۔ انا اعلمکم باللہ واخشاکم۔ میں تم سب سے زیادہ اللہ کا علم رکھتا ہوں اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں۔
ایک روایت میں یہ بھی منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جگہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اس جگہ نہ تو کچھ کھائیں اور نہ وہاں کا پانی پئیں۔
بہرحال حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ کے سرکش بندوں اور ظالموں کے مکانات اور ان کی جگہوں میں نہ تو رہائش اختیار کی جائے اور نہ ان کے علاقوں کو اپنا وطن بنایا جائے۔

یہ حدیث شیئر کریں