مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ امر بالمعروف کا بیان ۔ حدیث 1050

قیامت کے دن مظلوم کو ظلم سے کس طرح بدلہ ملے گا

راوی:

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كانت له مظلمة لأخيه من عرضه أو شيء منه اليوم قبل أن لا يكون دينار ولا درهم إن كان له عمل صالح أخذ منه بقدر مظلمته وإن لم يكن له حسنات أخذ من سيئات صاحبه فحمل عليه . رواه البخاري

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کا کوئی حق رکھتا ہو، اور وہ حق خواہ (غیب و برائی کرنے اور روحانی و جسمانی ایذاء رسانی وغیرہ کی صورت میں) آبروریزی کا ہو یا کسی اور چیز سے متعلق ہو (جیسے کوئی مالی مطالبہ یا ناحق خون وغیرہ) تو اس کو چاہئے کہ وہ اس حق کو آج ہی کے دن (یعنی اسی دنیا میں ) معاف کرا لے اس سے پہلے کہ وہ دن آئے یعنی قیامت کا دن کہ جس میں وہ نہ تو درہم رکھتا ہوگا نہ دینار (کہ جو اس حق کے بدلہ کے طور پر دے سکے) اگر (اس نے اپنے حق کو معاف کر دیا تو بہتر ہے ورنہ پھر) ظالم کے اعمال نامہ میں جو کچھ نیکیاں ہوں گی تو ان میں سے اس کے ظلم کے برابر یا واجب حق کے بقدر نیکیاں لے لی جائیں گی (اور مظلوم یا حق دار کو دے دی جائیں گی) اور اگر وہ کچھ بھی نیکیاں نہیں رکھتا ہوگا تو اس صورت میں اس مظلوم یا حق دار کے گناہوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) گناہ لے کر ظالم پر لاد دئیے جائیں گے۔ (بخاری)

تشریح
آخرت میں ظالم سے اس کے ظلم کا بدلہ اس طرح لیا جائے گا کہ اگر اس کے اعمال نامہ میں کچھ نیکیاں ہوں گی تو وہ مظلوم کو دے دی جائیں گی اور اگر وہ اپنے اعمال نامہ میں نیکیاں نہیں رکھتا ہوگا تو اس صورت میں مظلوم کے وہ گناہ جو اس نے دنیا میں کئے ہوں گے اس ظالم پر لاد دیئے جائیں گے چنانچہ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتے ہی گا مزید برآں مظلوم کے گناہوں کے عذاب میں بھی مبتلا ہوگا اور مظلوم کو اس عذاب سے نجات دے دی جائے گی جس کا وہ ان گناہوں کی وجہ سے مستوجب ہوتا۔
حدیث کے یہ الفاظ کہ " وہ نہ درہم رکھتا ہوگا نہ دینار" اس طرف اشارہ کرتے ہیں جس شخص نے کسی پر کوئی ظلم و زیادتی حق تلفی کی ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ ہر حالت میں مظلوم یا حق دار سے اس ظلم یا حق کو ضرور معاف کرا لے خواہ اس معافی کے عوض روپیہ پیسہ خرچ کرنا پڑے اور اس دنیا ہی میں معافی تلافی کا ہو جانا اس سے کہیں زیادہ بہتر اور آسان ہے کہ عدم معافی کی صورت میں اس کی نیکیاں لے لے یا اپنے گناہوں کا بوجھ اس پر ڈال دے۔
" اس کے ظلم یا واجب حق کے بقدر" کے بارے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے ان نیکیوں اور گناہوں کی مقدار کا تعین علم الٰہی کے سپرد ہے، یعنی وہی بہتر جانتا ہے کہ ان نیکیوں اور گناہوں کا لینا دینا کس طرح اور کس اعتبار سے ہوگا) تاہم ابن ملک رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جن نیکیوں اور برائیوں کا لینا دینا ہوگا، ہو سکتا ہے کہ وہ اس موقع پر نفس اعمال ہوں گے جن کو جواہر کی مانند مجسم کر کے پیش کیا جائے گا) اور یہ احتمال بھی ہے کہ ایک دوسرے کو وہ نعمتیں یا عذاب ملیں جو ان نیکیوں یا برائیوں کی جزا و سزا کے طور پر حق تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں